پی ٹی آئی بمقابلہ پی پی پی

ملک میں فیڈریشن کے تمام یونٹس کی یکساں شمولیت کی حامل سینیٹ پارلیمنٹ کی بالادستی اور فعالیت کو قبول کیا جائے



ملک اس وقت پے درپے رونما ہونے والے مسائل اور واقعات کا ایک ایسا بھنور بن چکا ہے جو ملکی وقار ، ہم آہنگی ، ترقی ، خوشحالی اور یکجہتی کو غرق کرتا جارہا ہے۔

اس میں تیزی تبدیلی کے نام پراقتدار میں آنے والی حکومتی اُمور سے سے ناواقفیت اور تجربہ سے عاری پی ٹی آئی سرکار کی لااُبالی اورآمرانہ طرز حکمرانی کی بدولت ہے ۔حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ملک کو کرپشن سے پاک کیا جارہا ہے ، جس کے لیے وہ اب تک کوئی حقیقی قانونسازی اور عملی اقدامات تو نہیں کرپائی ہے لیکن مخالفین کی پکڑ دھکڑ کا ایسا شور و غوغا برپا کیا ہوا ہے کہ ملک کے دیگر تمام مسائل دب کر رہ گئے ہیں ۔

پکڑ دھکڑ بھی صرف سیاسی انتقام ہی لگ رہا ہے ۔ کیونکہ صرف ن لیگ اور پی پی پی رہنماؤں کے علاوہ ملک بھر میں حکومت کو کسی کی کرپشن اور غیر قانونی اثاثے نظر نہیں آتے ۔ اگر یہ غیرجانبدارانہ اور شفاف احتساب ہوتا تو ضرور اس کی لپیٹ میں تمام ادارے اور بیورو کریسی بھی آتی ۔ کیونکہ اگر مبینہ طور پر نواز خاندان اور پی پی پی کے رہنماؤں نے بیرون ملک جائیدادیں بنائی ہیں تو دیگر بہت سے افراد بیرون ملک بڑی جائیدادیں نہ صرف رکھتے ہیں بلکہ بیرون ِ ملک میں رہائش پذیر بھی ہیں۔

پھر پی ٹی آئی کے اپنے وزراء اور بعض کے خاندان کے افراد و دوست احباب کی بھی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے ضرور نیب کی کارروائی کی زد میں آسکتے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ۔ اس کا مطلب یہ احتساب بھی ماضی کے روایتی انتقامی احتسابی عمل جیسا ہی ہے ۔ 72سالہ ملکی اقتداری تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ کئی حکومتیں آئی اور گئیں۔

ان میں سے سیاسی حکومتوں کا احتساب پارلیمنٹ میں اور اداراتی سطح پر ہونے کے ساتھ ساتھ ہر پانچ سال بعد انتخابات کی صورت میں عوام کی عدالت میں بھی ہوتا رہا ہے لیکن ملکی اقتدار پرحقیقی معنوں میں قابض بیورو کریسی کا آج تک نہ تو کوئی احتساب ہوا ہے اور نہ ہی وہ کسی جگہ جوابدہ نظر آتی ہے ۔

یہ ملک بناتے وقت قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ '' ہم نے پاکستان'کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں'۔ یہ بات بہتر معاشرے کے قیام کے لیے ہونے والے تجربے کی تھی لیکن اس ملک پر قبضہ کرنے والی ان قوتوں نے اس جملے کا مطلب ہی اُلٹ دیا ۔ انھوں نے اس ملک میں وہ تمام تجربے کیے جس سے ماضی کے فرعونی عمل کی عکاسی ہوتی رہی ۔ جس کامقصد صرف اور صرف عوام کو لتاڑنا اور معاشرے میں تخریب کو برپا رکھنا تھا اور نتیجتاً وہی ہوا۔

جہاں تک بات ہے گڈ گورننس کی تو ملک بھر میں حالت ایک جیسی ہی ہے ۔ اگر غیرجانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو جس طرح سندھ کے اسپتالوں کے احاطے میںویکسین اور علاج کے لیے لوگ سسکتے اور دم توڑتے نظر آتے ہیں ہیں اسی طرح پشاور کی اسپتال کے آگے پارک میں ڈینگی سے متاثر افراد زمین پر پڑے نظر آتے ہیں ۔ جس طرح پنجاب میںپولیس تشدد کرکے صلاح الدین کو ہلاک کرتی نظر آتی ہے ، اسی طرح ناظم آباد کراچی میں شاہ میر اوراُس کے بھائیوں کو ڈاکو کہہ کر زخمی کرکے پکڑنے کے بعد گولیوں سے چھلنی کرنے والی ویڈیو پولیس کی وحشت کو بے نقاب کرتی نظر آتی ہے ۔

جس طرح کراچی میں ایک نوکرانی ۔۔۔ کی لاش ملتی ہے ، اسی طرح اسلام آباد میںجنسی زیادتی کے بعد قتل ہونے والی ایک نوجوان لڑکی کی لاش ملتی ہے ۔ جس طرح مردان یونیورسٹی میں بے دردی سے قتل ہونے والے مشعل خان کی لاش ملتی ہے ، اسی طرح سندھ یونیورسٹی میں نائلہ رند اور نمرتا مہرچندانی کی لاشیں ملتی ہیں ۔ جس طرح مذہبی منافرت کے نتیجے میں غیر مسلموں کی عبادت گاہ پرحملہ ہوتا ہے اسی طرح گھوٹکی میں ایک بچے کے کہنے پر مندر میں توڑ پھوڑ کا واقعہ دیکھنے میں آتا ہے ۔

جس طرح کراچی میں سمندر سے والدہ کے ہاتھوں قتل کیے گئے بچوں کی لاشیں ملتی ہیں ، اسی طرح چونیاں پنجاب میں بے دردی سے قتل ہونے والے تین معصوم بچوں کی لاشیں ملتی ہیں ۔ایک طرف پی پی پی ہے جو صوبہ میں سرکاری اسپتال چلانے میں ناکام نظر آتی ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی ہے جو وفاق کو عدالتی حکم کے تحت ملنے والی سندھ کی بہترین اسپتالیںبھی چلانے میں ناکام رہی ہے اور وہ سندھ حکومت کو واپس کردی گئیں ۔ جس طرح سندھ کی صوبائی حکومت بعض افراد کو سرکاری خزانے سے نوازتی نظر آتی ہے ، اسی طرح وفاقی حکومت بعض صنعتکاروں پر ملک کا خزانہ لٹاتے نظر آتی ہے ۔

کراچی میں علی زیدی کی کچرہ مہم کے دوران 7کروڑ کے غبن کی رپورٹس کیا آئیں ، پی ٹی آئی حکومت نے میڈیا پر ٹربیونلز بنانے جیسا حملہ کردیا ۔ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی حالت یہ ہے کہ وہاں والد کا درجہ رکھنے والے اساتذہ کے بجائے اکثریت جنسی بھیڑیوں اور ذہنی معذوروں کی ہے ۔ پھر نصاب میں اگر ماضی کے ترک و افغانی لٹیروں کو ہیرو کرکے پڑھایا جاتا رہے گا تو پھر نسلیں بھی لٹیروں کی ہی پیدا ہوں گی ناں۔ ملک میں خودکشیوں ، زیادتیوںاور بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات معمول بن گئے ہیں ۔

سندھ میں اگر بدامنی پھیلی ہے تو پنجاب میں امن امان کی صورتحال سندھ سے بھی خطرناک ہے ۔ صرف گذشتہ 8ماہ میں 3لاکھ 11ہزار وارداتیں ہوئیں ، جن میں قتل ، زیادتی اور بچوں کو اغوا کرنے جیسے سنگین جرائم شامل ہیں ۔ کے پی کے میں ملازمین کی 4، 4سرکاری محکموں سے تنخواہیں اُٹھانے کے سپریم کورٹ میں مقدمات نے پی ٹی آئی کی گڈ گورننس کی قلعی کھول دی ہے۔

بطور قوم و معاشرہ ملک کا ''آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے ''۔ پاکستان کے ساتھ آزادی پانے والے تمام ممالک اس وقت ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتے جارہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ دن بہ دن پستی کی گہرائیوں میں دھنستے جارہے ہیں ۔ یہ سب مشترکہ گروہی مفادات رکھنے والے ملک پرقابض سرمایہ داروں، جاگیرداروں، مذہبی پیشواؤں اور آمرانہ قوتوں اور اُن کے حواری تاجروں اور لَوٹے سیاستدانوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے ۔

اس وقت ملک بھر میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے ، جنھیں تمام اداروں و حلقوں کی بڑے پیمانے پر حمایت و معاونت حاصل ہے ۔ مسائل حل کرنے کے تمام اختیارات، وسائل اور انتظامی مشنری موجود ہے لیکن پی ٹی آئی ان مسائل کو حل نہیں کر پا رہی۔ اس لیے پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی اپنی نااہلی چھپانے کے لیے تمام ملکی مسائل کو چھوڑ کر صوبہ سندھ کے مسائل کو اُچھال کر یہ محسوس کرانا چاہتے ہیں،جیسے یہ ملک پورا مخمل کا ہے اورصرف سندھ ہی اس میں ٹاٹ کے پیوند کی طرح ہے۔

اس طرح صوبہ میں کمزور پوائنٹ کراچی اور اس کے کچرے کو بنیاد بناکرصوبائی حکومت کو کمزور کرنا اور مات دینا چاہتے ہیں لیکن اس چکر میں وہ جو صوبہ میں لسانیت کو ہوا دے رہے ہیں ، اس سے صوبہ میں خانہ جنگی کا خدشہ ہے لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ اس آگ سے اگر صوبہ کو نقصان پہنچے گا تواس کی تپش سے باقی ملک بھی نہیں بچ سکے گا۔

پھر دوسری جانب ملکی سطح کی تنقید کے بعد بھی پی پی پی کی صوبائی حکومت ہے کہ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے، اپنی حکمرانی کی طرز درست کرنے کے بجائے رد عمل میں وفاقی حکومت سے جھگڑوں ، تنازعوں میں مصروف ہوکر جوابی لفاظی حملے کرتی نظر آتی ہے ۔

حالانکہ پانی کی قلت ، امن و امان کی بحالی ، غیرفطری طریقے سے بڑھنے والی آبادی ، بے ہنگم و بے ترتیب تعمیرات ، غیر قانونی تجاوزات ، ضرورت کے بغیر میگا رہائشی پراجیکٹس جیسے اصل اصل مسائل سمیت کراچی یوں تو بہت ہی گمبھیر مسائل رکھتا ہے لیکن کچھ دنوں سے کراچی کے کچرے کو لے کر ملک میں کچرہ سیاست عروج پر ہے۔

کونسلر و میونسپلٹی سطح کے اس کام کو ملکی سطح کی سیاسی جماعتوں نے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بناکر اس پر سیاست شروع کررکھی ہے ۔ جب کہ'' صفائی نصف ایمان '' پر یقین رکھنے والی وفاقی ، صوبائی اور بلدیاتی حکومتیں مل کر اور کراچی میں موجود بڑے صنعتی و کمرشل اداروں کواپنے ساتھ شامل کرکے باآسانی یہ کام کر سکتی ہیں ۔ لیکن یہ تینوں حکومتیں مسائل حل نہیں کرنا چاہتیں بلکہ اس کی آڑ میں سندھ بالخصوص کراچی اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔

ملک کی دوبڑی اور حریف جماعتیں پی پی پی اور پی ٹی آئی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں ۔ صرف اس لیے نہیں کہ دونوں پارٹیوں میں بیٹھے لوگ ایک ہی انسٹی ٹیوٹ سے پڑھے اور ہم جماعت رہے ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ دونوں ہی جماعتوں کی حکومتوں کی عوام کو ڈیلور کرنے میں ناکامی میں بھی یکسانیت ہے ۔ دونوں ہی اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔

دونوں عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر اپنی توانائیاں صرف کررہی ہیں ۔ پی ٹی آئی سندھ کی جغرافی و ڈیمو گرافی اور معاشی خطوط کی توڑ پھوڑ میں مصروف ہے تو رد عمل میں پی پی پی ریاست کی نظریاتی سرحدوں اور وفاقی سیٹ اپ کی دھجیاں اُڑانے کے چکر میں ہیں ۔

لیکن ان مت کے موڑھوں (کم عقل لوگوں) کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے چکر میں یہ ملک میں خانہ جنگی کو ہوا دے رہے ہیں ۔ جس سے یا تو بیرونی ملک دشمن قوتوں کو فائدہ ہوگا یا پھر ان قوتوں کا بھلا ہوگا اور ایک مرتبہ پھر وہ ملک سے سیاسی و جمہوری بساط کو لپیٹنے میں کامیاب ہوجائیں گی اور جس کا نقصان صرف اور صرف اس ملک کے عوام کو ہوگا جو پہلے ہی بیماریوں ، مہنگائی ، بیروزگاری ، مفلسی ، مذہبی منافرت ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں آکر عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

دونوں جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو اگر پی پی پی کی ذمے داری صوبہ سندھ میں امن و امان کو برقرار رکھنا ، عوام کو تعلیم و بنیادی اورصحت سہولیات کی فراہمی اور انفرااسٹرکچر کی بحالی اور وسعت کے ساتھ ساتھ صوبہ کی معاشی ، سیاسی ، معاشرتی اور ثقافتی ترقی و تحفظ اور صوبہ کے آئینی حقوق حاصل کرنے یا صوبہ کی بگڑی ڈیمو گرافی کو بحال کرناہے تو وہ اس میںاس قدر ناکام ہوچکی ہے کہ درسگاہیں اور شفاخانے دونوں ہی مقتل گاہیں بن چکی ہیں ۔

بدین ، ٹھٹہ ، سجاول، کوہستان اور کراچی میں لوگ پانی کی عدم دستیابی پر محوئے احتجاج ہیں ۔ تیل ، گیس ، کوئلے اور سمندر جیسی نعمتوں سے مالامال ملک کے امیر ترین صوبے کے بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہورہے ہیں ۔ لوگ بھیک مانگنے اور خودکشیوں پر مجبور ہیں ۔ جو لوگ دودھ بیچنے کو معیوب سمجھتے تھے وہ اب اپنے بچوں کو فروخت کرتے نظر آتے ہیں ۔

بیروزگار نوجوان منشیات کے استعمال میں فرار ڈھونڈتے نظر آتے ہیں ۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی ذمے داری اگر ملک میں ہم آہنگی ، برابری ، مالی، سیاسی و معاشرتی استحکام کے ساتھ ملکی دفاع اورمفید خارجہ پالیسی و پیداواری صلاحیتیں بڑھانا ہے تو وہ بھی اس میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ۔ وفاقی حکومت ملک میں ایک طرف نچلی سطح تک کے لوگوں سے من مانے ٹیکس وصول کررہی ہے تو دوسری طرف اپنے من پسند سرمایہ داروں و میڈیا ہاؤسز کو اربوں روپے کے محصولات اور فنڈز معاف کردیتی ہے۔

جب کہ ایٹمی قوت کی حیثیت رکھنے والے اس ملک کے پاس پیداواری پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے کپڑے سینے کی سوئی سے کتے کے کاٹنے کی ویکسین تک کوئی بھی چیز اپنی نہیں ، تمام مصنوعات کے لیے ہم چین یا بھارت کے محتاج ہیں ۔ اس مد میں قانونسازی کی طرف توجہ دینے کے بجائے پارلیمنٹ کو ایک اوطاق بناکر صرف چرب زبانی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ جس کا محور کنٹینر پر کھڑے ہونے جیسی تقاریر اور مخالفین پر فتح پانا ہوتا ہے ۔

پی ٹی آئی کو محض نیب انکوائری کی بنیاد پریاویسے ہی تمام مخالفین کرپٹ اورملک دشمن نظر آتے ہیں جب کہ سانحہ بلدیہ اور 12مئی میں قتل جیسے سنگین جرائم میں نامزد ملزمان ہونے پر بھی اتحادی نفیس اور محب وطن نظر آتے ہیں ۔ دونوں جماعتوں کے یہ رویے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش ہیں، حالانکہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ہر حال میں جمہوری و پارلیمانی نظام کو چلتا رہنا چاہیے اورتمام جماعتوںکے نمائندوں پرمبنی مخلوط پالیسی کمیٹی بنائی جائے جو ملکی مسائل کا غیرجانبدارانہ جائزہ لے ۔ ملک پر ایک طرف آئی ایم ایف کی سنگین شرائط کی تلوار لٹک رہی ہے تو دوسری طرف ایف اے ٹی ایف نے مختلف رنگوں والی اپنی فہرستوں میں الجھا رکھا ہے ۔

ایسے میں پی ٹی آئی سرکار بڑے ملکی اداروں کی نجکاری کرنے جارہی ہے ، جس سے عارضی طور پر عالمی اداروں کے قرضوں کے سود کی قسطوں کی ادائیگی تو ہوجائے گی لیکن اس کے دور رس نتائج انتہائی بھیانک تب نکلیں گے جب حکومت کے پاس اپنے یومیہ اخراجات کے لین دین کے لیے کوئی اپناسرکاری کمرشل بینک نہ ہوگا اور وہ نجی بینکوں کی محتاج ہوگی بالکل اسی طرح جس طرح پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے بعد حکومت مواصلاتی رابطوں میں نجی کمیونی کیشن کمپنیوں کی محتاج ہے اور عوام کو ان کمپنیوں کے مفادات کے نذر کردیا گیا ہے ۔ اسی طرح قومی مفاد کو بھی عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات کے نذر کردیا گیا ہے ۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں احتساب ہمیشہ پچھلی حکومت اور اس کے وزراء کا ہوتا آیا ہے اور وہ بھی غیرجانبدارانہ اور شفاف نہیں ہوتا بلکہ صرف انتقامی کارروائی تک ہی محدود رہتا آیا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ برسر ِ اقتدارحکمرانوں کا دوران ِ حکومت احتساب کے دروازے کھولے جائیں اور احتساب کا سب سے اہم محاذ خود پارلیمنٹ ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس کا استحقاق ہے کہ وہ اپنے ارکان پر نظر بھی رکھے اور کوتاہی پر سرزنش بھی کرے اور سزا بھی دے۔

جس کے لیے ملک میں فیڈریشن کے تمام یونٹس کی یکساں شمولیت کی حامل سینیٹ پارلیمنٹ کی بالادستی( Supremacy)اور فعالیت کو حقیقی معنوں میں قبول کیا جائے ۔ تبھی اس ملک میں شفافیت کا نظام آئے گا اور صاف و ایماندار سیاستدان پیدا ہوسکیں گے ۔ بصورت ِ دیگر ''سانپ نکل جانے کے بعد لکیر کو پیٹنے ''والی کہاوت کی طرح ہم ہمیشہ یونہی گذشتہ حکومتوں کے کھاتے کھولتے اور بند کرتے رہیں گے ، اور نہ کچھ ملے گا اور نہ ہی کچھ بدلے گا !!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں