کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 22 ستمبر 2019
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے فوٹو: فائل

غزل


اداس شب میں دیا آس کا جلا تو سہی
شریکِ درد نہ بن، تھوڑا مسکرا تو سہی
براہِ راست مخاطب نہیں اگر کرنا
اِدھر اُدھر کی کسی بات پر بُلا تو سہی
ترے لبوں پہ سجیں گے تو لفظ مہکیں گے
مری غزل کو کسی روز گنگنا تو سہی
یہ نارسائی کا دکھ کتنا جان لیوا ہے
گلے لگا نہ لگا، تُو نظر ملا تو سہی
مجھے خبر ہے کہ تنہا لڑوں گا دشمن سے
تو تھپکیوں سے مرا حوصلہ بڑھا تو سہی
(اکرم جاذب۔ کٹھیالہ خورد، منڈی بہاء الدین)


غزل


شدید رت تھی نہ ہی مسئلہ زمین میں تھا
بگاڑ سارے کا سارا ہمارے جین میں تھا
خدا بھی ہجر میں ثابت قدم نہ رہ پایا
یہ ناتواں تو نہ تیرہ میں تھا، نہ تین میں تھا
مکالموں سے لکھاری سنائی دیتا تھا
اگرچہ بولتا تو اور کوئی سین میں تھا
درست ایک بھی دل کا نہ تجزیہ نکلا
شمول یوں تو محبت کے ماہرین میں تھا
کیا نیابتِ آدم نے سخت گیر اسے
وگرنہ جبر نہ کوئی خدا کے دین میں تھا
تمام عمر لگائی نہ ایک پل بھی آنکھ
کوئی نہ دل سا بدن کے معاونین میں تھا
نظر کے جیسا کہاں کیمرے سے عکس بنا
لطیف ذوق نہ کوئی جو اس مشین میں تھا
(حبیب احمد۔ شورکوٹ، ضلع جھنگ)


غزل


تمہاری دید کے بیمار ہو رہے تھے ہم
یہیں کہیں پہ گرفتار ہو رہے تھے ہم
ہماری راہ میں حائل ہوئی تھی اپنی انا
خود اپنے واسطے دیوار ہورہے تھے ہم
بنائے بیٹھے تھے کچھ یار پُل صراط مگر
درود پڑھتے ہوئے پار ہورہے تھے ہم
تری نگاہ نے انمول کر دیا ورنہ
پڑے پڑے بھی تو بے کار ہو رہے تھے ہم
یہ کون شخص ہمیں دائرہ نما دانش
یہ کس کا حکم تھا، پرکار ہورہے تھے ہم
(دانش حیات۔ کراچی)


غزل


آپ کو آرزو تھی راحت کی
آپ نے کس لیے محبت کی
ہم تو ہجرت کو زندگی جانیں
بخدا! آپ نے حماقت کی
حوصلے دل کے آزمانے کو
بات چھیڑی گئی مسافت کی
قہقہوں سے شگاف پڑنے لگے
اے خدا! خیر ہو مسرت کی
ہر طرف بے حسی ہے، وحشت ہے
کیا علامت نہیں قیامت کی؟
عشق اور آپ کے گھرانے سے
زندگی بھر یہی عبادت کی
اس نے سونپے تھے چند خواب اعظم
اور تاکید کی حفاظت کی
(اعظم شاہد۔ منڈی بہاء الدین)


غزل


اپنے دل سے مجھے جدا کر کے
مجھ کو چھوڑا ہے لادوا کرکے
پھر ترے بعد زندگی روٹھی
میں جیا ہوں خدا خدا کر کے
تیرے دیدار کی، مرے ہمدم
میں ہوں مایوس التجا کر کے
اس کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں
تھک نہ جانا کہیں دعا کر کے
اس عبادت کا کیا کرے گا خدا
جو ادا کی گئی دغا کر کے
شکریہ نور حسنِ جاناں کا
قہر ٹوٹا خدا خدا کر کے
(حضرت نور تنہا۔ کراچی)


غزل


یوں نہیں ہے کہ تُو آیا تو میں سَر سبز ہُوا
تُو نے جب ہاتھ ملایا تو مَیں سر سبز ہوا
میں تھا ویران سے اجڑے ہوے گلشن جیسا
تُو نے آنکھوں سے پلایا تو مَیں سَر سبز ہوا
میں تھا اک جسم جو بے جان پڑا تھا کب سے
تُو نے سینے سے لگایا تو میں سر سبز ہوا
میں تھا بے مول سے، انمول نگینے کی طرح
تُو نے ماتھے پہ سجایا تو میں سر سبز ہُوا
اس زمانے کی تگ و دو سے پریشاں ہو کر
تیری دھڑکن میں سمایا تو مَیں سَر سبز ہوا
(ریحان سعید۔ ڈیرہ غازی خان)


غزل


مٹا کر یوں تیری خاطر یہ سب پندار، ناچیں گے
ستارے ساتھ جھومیں گے، گل و گلزار ناچیں گے
محبت میں یہ رسوائی فقط میرا مقدر کیوں
تمھارا نام لے لے کر سرِ بازار ناچیں گے
تمھارے ظلم پر آواز ایسے بھی اٹھائیں گے
جو جاں کی آخری حد ہے وہاں کے پار ناچیں گے
کہاں تک یہ رخِ روشن چھپاؤ گے نقابوں میں
نہ ہوگا جب تلک دیدار ہم اے یار، ناچیں گے
ہم اُس کے عشق میں گم ہیں کب اپنا ہوش ہے یارو
پسِ دیوار ناچے تھے، سرِ دیوار ناچیں گے
(عامر معان۔ کوئٹہ)


غزل


ایذا دہی کی کیسی یہ رسمیں نکال دیں
کھالیں ہی کھینچ لیں، کبھی جانیں نکال دیں
کیا کچھ کیا ہے سب نے ڈرانے کے واسطے
آنکھیں نکال لیں، کبھی آنکھیں نکال دیں
انسانیت کے دوست نے مثلے بنا دیے
ہم نے بہشت کو نئی راہیں نکال لیں
دردِ فراق دیکھی اس تیغ باز نے
ساکت پہاڑیوں کی بھی چیخیں نکال دیں
یعنی ہمارے ضبط کا سامان تھا یہی
اشکوں پہ بند باندھ کے آہیں نکال دیں
(ابولویزا علی۔ کراچی)


غزل


یہ راز مجھ پر تو روزِ اول سے منکشف تھا
تو ہر جگہ پر مرے سراپے سے منحرف تھا
یہ قیس و لیلی تو ایک عرصہ کے بعد آئے
زمانہ مدت سے میری وحشت کا معترف تھا
میں جانتا ہوں کہ آپ سب بھی ہیں اپنے، لیکن
جو جا چکا ہے، وہ آپ لوگوں سے مختلف تھا
مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے تو اس گھڑی میں
جنابِ مجنوں کے آستانے میں معتکف تھا
خصوصیت تھی سبھی کے پاس اپنی اپنی لیکن
دھنک کا ہر رنگ باقی رنگوں سے مختلف تھا
حسین شہزادی دیکھنے کی غرض سے عاجز
چراغ طاقوں میں سات برسوں سے معتکف تھا
(عاجز کمال رانا۔ جوہرآباد، خوشاب)


غزل


وہ چمکتے ہوئے تاروں کی طرح لگتا ہے
صبحِ اوّل کے نظاروں کی طرح لگتا ہے
تیری آنکھوں کے گلاب اپنی جگہ ہیں لیکن
تیرا لہجہ مجھے خاروں کی طرح لگتا ہے
جب سے جنت میں جگہ لے لی مرے بابا نے
اپنا ہی گھر مجھے غاروں کی طرح لگتا ہے
اچھے لوگوں کو وہ لگتا ہے بہاروں جیسا
برے لوگوں کو شراروں کی طرح لگتا ہے
وہ بھی مصروف ہے دنیا کی عمل داری میں
آج کل وہ مجھے ساروں کی طرح لگتا ہے
بات کرتا ہے مرے حق میں وہ ایسے احمد
ایسا دشمن ہے کہ یاروں کی طرح لگتا ہے
(احمد نیازی۔ لاہور)


غزل


پھر یوں ہوا کہ اس کو بچانا پڑا مجھے
وہ مر رہا تھا لوٹ کے جانا پڑا مجھے
مجھ کو یقیں تھا اس کی محبت پہ اس لیے
نالاں بھی وہ ہوا تو منانا پڑا مجھے
افسردگی نے بدلے خد و خال یوں میاں
خود تک بھی آتے آتے زمانہ پڑا مجھے
ورنہ ہوا نگلتی اسے سو اسی لیے
روشن چراغ ایک بجھانا پڑا مجھے
حمزہ میں چپ تھا، میرا عدو حد سے بڑھ گیا
پھر یوں ہوا کہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے
(امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد)


غزل


عشق میں معتبر نہیں لگتا
تو مرا چارہ گر نہیں لگتا
جانتا ہے مری کہانی وہ
اتنا بھی بے خبر نہیں لگتا
جب تلک میری ماں نہیں ہوتی
میرا گھر میرا گھر نہیں لگتا
مٹی کو نرم ہونا پڑتا ہے
مٹی میں یوں شجر نہیں لگتا
میرے مولا کرم نہ ہو تیرا
زیر پر پھر زبر نہیں لگتا
وہ مرے ساتھ رہتا ہے صابر
میرا اپنا مگر نہیں لگتا
(اسلم صابر۔کلور عیسی خیل)


غزل


بات کرتے ہوئے سوچتے کیوں نہیں
پھر گلہ ہے کہ ہم بولتے کیوں نہیں
دیکھ جانے لگا وہ شہر چھوڑ کر
آگے بڑھ کے اسے روکتے کیوں نہیں
ہم نکموں کو کوئی منائے گا کیا؟
تم نے پوچھا ہے ہم روٹھتے کیوں نہیں
سوچتے ہو اگر سارا دن کچھ نہ کچھ
میرے بارے میں کچھ سوچتے کیوں نہیں
جن کو انجم سمجھتا رہا زندگی
میرے آنے پہ دَر کھولتے کیوں نہیں
(امتیاز حسین انجم کھچی۔ اوکاڑہ)


غزل

خط اس کی محبت کے جلا کیوں نہیں دیتے
ان جاگتی یادوں کو سُلا کیوں نہیں دیتے
ہونٹوں پہ جو تالے ہیں تو ہیں سوچ پہ پہرے
اس حال میں اک حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
کچھ لوگ ابھی تک بھی ہیں تشنہ لبِ دریا
آنکھوں سے ہی پیاس ان کی بجھا کیوں نہیں دیتے
بے کار ہیں پلکوں پہ سبھی ضبط کے بندھن
جاتے ہوئے لوگوں کو صدا کیوں نہیں دیتے
کچھ شک نہیں یہ کام ہے قبضے میں تمہارے
بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملا کیوں نہیں دیتے
(انور ندیم علوی ایڈووکیٹ۔ نواب شاہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔