نواز شریف جمع فضل الرحمٰن مائنس شہباز شریف

سلمان نثار شیخ  منگل 24 ستمبر 2019
نوازشریف اور فضل الرحمٰن کی دوستی شہباز شریف کی سیاست کو نقصان پہنچائے گی۔ (فوٹو: فائل)

نوازشریف اور فضل الرحمٰن کی دوستی شہباز شریف کی سیاست کو نقصان پہنچائے گی۔ (فوٹو: فائل)

امیر اور غریب دونوں رو رہے ہیں۔ دو نہیں ایک پاکستان کا سپنا سچ ہوا چاہتا ہے۔ ان حالات میں چھوٹے صاحب کو چاہیے کہ فوراً عمرے پر چلے جائیں اور وہاں جاکر دعا کریں کہ مریم نواز رہا ہوجائیں اور خود انہیں فلو ہوجائے۔ شرفِ قبولیت پاتے ہی علاج کےلیے لندن سدھار جائیں اور پھر خان صاحب کی رخصتی کےلیے، ان کی رخصتی تک روزانہ علی الصبح سفاری سوٹ، فلیٹ ہیٹ اور لانگ بوٹ پہن کر ہائیڈ پارک جاکر تقاریر کیا کریں اور ’’رائے عامہ‘‘ کو ن لیگ کے بیانیے کے حق میں ہموار کیا کریں اور ’’جدوجہد‘‘ کے کامیاب ہوتے ہی وطن واپس آجائیں اور پھر ایک ’’عظیم الشان‘‘ استقبالیہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بنتے ہی پنجاب بھر میں میٹروز کا جال بچھانے کا اعلان کردیں۔

یہ دور بڑا عجیب ہے۔ خبر، افواہ، تبصرے اور اندازے میں تفریق مشکل ہوئی چاہتی ہے۔ بہرحال، بڑے صاحب نے چھوٹے صاحب کو مولانا سے ملنے اور ان کے دھرنے میں شامل ہونے کا حکم تو دے دیا لیکن ہنوز اس بارے میں کوئی خبر نہیں آئی کہ آخر انہوں نے یہ سوچ کیسے لیا کہ ڈنڈے، پانی والی توپیں، آنسو گیس، کنٹینر، خیمے، ڈی چوک اور چھوٹے صاحب سب اکٹھے چل سکتے ہیں۔ رام ریاض یاد آ گئے

وہ جو ممکن نہ ہو ممکن یہ بنا دیتا ہے
خواب دریا کے کناروں کو ملا دیتا ہے

پہلے مذاکرات کو ڈیل قرار دینا اور پھر اس مبینہ ڈیل کے ’’ہوجانے‘‘ کی افواہیں پھیلاتے رہنا اور جب وہ نہ ہوسکے تو شرمندہ ہونے اور معذرت کرنے اور آئندہ سے دروغ گوئی ترک کرنے کا اعلان کرنے کے بجائے یہ کہنا کہ وہ تو عین وقت پر یہ اور وہ ہوگیا، ورنہ ڈیل تو فائنل تھی۔ اب ہمارا عام چلن بن چکا ہے۔

بہرحال اب تک ن لیگ کی قیادت بہت کچھ کھو چکی ہے۔ اب اس کو ڈیل میں زیادہ دلچسپی ہو بھی نہیں سکتی۔ مریم اور میاں صاحب دونوں بلا کے ضدی ہیں۔ اگر ضدی کا اخلاقی ترجمہ اصول پسندی کیا جائے تو یہ نتیجہ منطقی معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ لوگ جب تک زندہ ہیں تب تک مقابلہ کرتے رہیں گے۔ لیکن پھر قید سے چند روز قبل کی گئی مریم نواز کی وہ گفتگو یاد آجاتی ہے جس میں انہوں نے نامہ و پیام کے تبادلے کے اعتراف کے ساتھ دھمکی آمیز الفاظ میں کہا تھا کہ اگر مزید تنگ کیا گیا تو وہ خاموش نہیں رہیں گی۔ جس سے لگتا ہے کہ وہ، ان کی جماعت اور قیادت حسبِ ضرورت خاموش رہ سکتے ہیں۔

لیکن یہ حسبِ ضرورت والا معاملہ خاصا ٹیڑھا ہے۔ سچ پوچھیں تو اس وقت خان صاحب ن لیگ کی نسبت کہیں زیادہ ضرورت مند ہیں، کیونکہ ن لیگ کے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں جبکہ خان صاحب کے پاس سب کچھ ہے۔ ان حالات میں اگر وہ مولانا سے مفاہمت کی مزید مخلصانہ کوششیں کریں تو یقیناً یہ ان کے حق میں بہتر ہوگا اور پھر ان کےلیے تو یہ زیادہ بڑا مسئلہ بھی نہیں کیونکہ وہ تو یوٹرن کو عظمت کا استعارہ قرار دے چکے ہیں۔ لیکن یہ بہرحال سنجیدہ مسئلہ ہے کہ مولانا نے سرِدست ایسا کوئی مؤقف نہیں اپنایا۔

احتجاج اور اپوزیشن نہ تو شہباز شریف کا نظریہ ہے اور نہ طریقہ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ لیگ کا سپورٹر صرف شریف خاندان کے نام پر باہر آتا ہے۔ اس وقت نواز شریف سے مریم نواز اور حمزہ شہباز تک تمام شریف اندر ہیں، صرف شہباز شریف باہر ہیں مگر وہ اپوزیشن کرنے کی نسبت باہر جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ 12 گھنٹے بعد بھی داتا دربار سے ایئرپورٹ نہ پہنچ کر اور الیکشن میں پی ٹی آئی سے پنجاب تک ہار کر، صدارتی انتخاب ہار کر اور قبائلی علاقے کے الیکشن میں اپنی موجودگی کا احساس تک نہ دلا کر اور سینیٹ کا جیتا ہوا الیکشن ہار کر شہباز شریف پہلے ہی اپنی جماعت کے ورکر کو بہت زیادہ ناراض کرچکے ہیں۔ اب بھی اگر انہوں نے یہی رویہ اپنایا تو نواز شریف اور فضل الرحمٰن کی یہ دوستی ان دونوں کے ساتھ تو چاہے جو بھی کرے، شہباز شریف کی سیاست کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔ اور اگر نواز جمع فضل کا جواب مائنس شہباز آیا تو ہر چند کہ بظاہر کچھ لیگی حلقے یہ سوچ کر مطمئن ہوجائیں گے کہ چلو اچھا ہوا نواز شریف کے بعد مریم اور شہباز میں تخت کی جو لڑائی تھی، وہ طے پاگئی، لیکن طویل المدتی سیاست کے تناظر میں دیکھیں تو اچھے متبادل کی کمی ہمیشہ سیاسی جماعتوں میں بحران کا عالم پیدا کردیا کرتی ہے۔

پی ٹی آئی کو دیکھ لیں، جہانگیر ترین اور علیم خان کے نیب زدگان اور اسد عمر کے آئی ایم ایف زدگان کی فہرست میں شامل ہونے کا سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی کے اس ووٹر کو ہورہا ہے جسے یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ اگر خان صاحب کی ملک کو ٹھیک کرنے کی کوششوں کی ناکامی کا سلسلہ جاری رہا تو پھر وہ متبادل قیادت کہاں سے لائیں گے؟

چنانچہ بہتر یہی ہو گا کہ آزادی مارچ سے قبل مولانا اچھی طرح سوچ لیں کہ اگر ان کا دھرنا ناکام ہوتا ہے تو پھر ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ کیونکہ ایک الیکشن تو وہ پہلے ہی ہار چکے، خیبرپختونخوا ان کے ہاتھ سے نکل چکا، مرکز یا کسی دوسرے صوبے میں تو ان کی اسٹینڈنگ ہی نہیں ہے۔ اب اگر انہیں کوئی معمولی سی ضرب بھی لگ گئی تو اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہوسکتا ہے۔

نواز شریف اچھی طرح سوچ لیں کہ جس وقت وہ خود، رانا ثناء، سعد رفیق، مریم نواز، حمزہ شہباز، یوسف عباس اور کئی دیگر لیگی اکابرین اسیر ہیں، خواجہ آصف اور احسن اقبال پر نیب کیسز کی تلوار لٹک رہی ہے اور شہباز شریف احتجاجی سیاست کےلیے درکار دل گردے سے عاری ہیں تو ایسے وقت میں کسی مذہبی جماعت کے اسلام کے نام پر مارچ میں شرکت کرکے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نظریے اور زمین دونوں پر ہار جائیں۔

سب سے زیادہ تفکر کی ضرورت خان صاحب کو ہے۔ ملک میں ہر مخالف آواز کو کچلنے کا طعنہ، معاشی و انتظامی امور میں صفر کارکردگی، مہنگائی عروج پر، پولیس گردی عروج پر، مشرقی اور مغربی سرحدوں پر دباؤ، مسئلہ کشمیر اپنی تاریخ کے نازک ترین موڑ پر، اس صورتحال میں کیا وہ اسلام آباد پر اپوزیشن کا دھاوا سہہ پائیں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سلمان نثار شیخ

سلمان نثار شیخ

بلاگر قلمکار، صحافی اور محقق ہیں۔ وہ اردو اور اقبالیات کی کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔