پاکستانی انگریزی فکشن نگار اردو ادب کی پیداوار ہیں، ہارون خالد اختر

حسان خالد  منگل 24 ستمبر 2019
’میلوڈی آف اے ٹیئر‘ کے مصنف ہارون خالد اختر سے ملاقات

’میلوڈی آف اے ٹیئر‘ کے مصنف ہارون خالد اختر سے ملاقات

’’اگر ناول نہ لکھتا تو یہ میری زندگی کا ایک بہت بڑا پچھتاوا بن جاتا۔ مجھے اس سے جو ’سینس آف اچیومنٹ‘ ملا، وہ بینک کی اس نوکری کی نسبت زیادہ ہے، جو میں کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ ناول میری شخصیت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے، جو میں دفتر میں ہوتا ہوں، وہ میری شخصیت کا کم حصہ ہے۔ ناول شائع نہ ہوتا تو میں اپنے کم تر پہلو سے ہی شناخت ہوتا ہوا اس دنیا سے چلا جاتا۔ مرنے کے بعد بھی یہ کتاب میرا تعارف بنے گی، ورنہ آپ آج کرسی چھوڑیں تو کل کوئی سلام بھی نہیں کرتا۔‘‘

ہارون خالد نے فکشن نگاری کی طرف آ کر اپنے والد، اردو کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار محمد خالد اختر کی ادبی روایت کو بھی زندہ رکھا ہے۔ ’میلوڈی آف اے ٹیئر‘ ان کا پہلا ناول ہے جو اس سال جنوری میں شائع ہوا۔ یہ محبت، ہمدردی اور قربانی کی کہانی ہے، جسے بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ فیض صاحب کی طرح ہارون خالد اختر بھی اس بات پر شدت سے یقین رکھتے ہیں کہ ’جو دل پہ گزرتی ہے‘ اسے ہی رقم کرنا چاہیے۔ ان کے بقول: ’’میں نے ان کرداروں کے بارے میں لکھا ہے، جنہیں میں اپنے دل کے قریب محسوس کرتا ہوں۔ یہ کہانی میرے اندر سے آئی ہے۔ میں نائن الیون یا انتہاپسندی جیسے موضوعات پر نہیں لکھتا، جو زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔‘‘

ہارون خالد نے 1969ء میں لاہور میں آنکھ کھولی۔ بچپن میں بیماری کی وجہ سے سکول میں داخلہ تاخیر سے کرایا گیا، انہوں نے سرسید کیمبرج سکول میں دوسری جماعت سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز کیا۔1980ء میں والد واپڈا کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو بچوں کی اچھی تعلیم کی خاطر کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا گیا، جہاں ان کے دو ماموں پہلے سے مقیم تھے۔

محمد خالد اختر کچھ برس اپنے آبائی گھر بہاولپور میں رہے لیکن 1985ء میں وہ بھی مستقل طور پر کراچی چلے گئے۔ ہارون خالد نے ڈی ایچ اے سکول، کراچی سے اپنی سکول کی تعلیم مکمل کی۔ آگے کے تعلیمی مدارج ڈی جے کالج اور گورنمنٹ کامرس کالج میں طے ہوئے۔ اس زمانے میں ایم بی اے کرنے کا نیا رجحان شروع ہوا تھا۔ اپنے بڑے کزنز کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی ایم بی اے کرنے کا فیصلہ کیا اور 1994ء میں لمز، لاہور سے ڈگری حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی کراچی میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز بھی ہو گیا۔ اپنے شعبے میں انہیں کریڈٹ، رسک اور کمپلائنس کا ماہر سمجھا جاتا ہے، جبکہ اندر سے وہ اپنے اس کام سے وحشت کھاتے ہیں۔

ہارون خالد اختر کے اجداد میں محمد عالم صاحب نے گجرات میں ایک مدرسہ قائم کیا، وہ اپنے زمانے کے بڑے عالم تھے۔ ان کے پردادا عبدالمالک بھی عالم دین اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ دادا مولوی محمد اختر ریاست بہاولپور آئے اور یہاں کے ’ری ہیبلیٹیشن آفیسر‘ مقرر ہوئے۔ انہوں نے یہاں بسنے والے لوگوں کو زمینیں الاٹ کیں، جس کی وجہ سے آج بھی بہاولپورمیں ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ نانا کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا، وہ ڈپٹی کمشنر تھے۔ ہارون خالد نے جس گھرمیں آنکھ کھولی، انہیں اردگرد اپنے والد کی کتابیں ہی نظر آئیں۔ محمد خالد اختر فقیرانہ مزاج کے آدمی تھے، جنہیں اپنی کتابوں کے علاوہ دنیا کی کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھے۔ مہنگے لباس اور گاڑی کو انہوں نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ حتی کہ لاہور کے گھر میں ٹیلی فون لگانے کے لیے عملہ خود آیا تو اسے بھی واپس بھجوا دیا۔ بچوں کو ان کی پسند کی کتابیں خرید کر دینے میں وہ البتہ پیش پیش رہتے۔

ہارون خالد بتاتے ہیں، ’’میری بچپن کی یادوں میں سے جو دو سب سے زیادہ تروتازہ یادیں ہیں، وہ اس سے ہی منسلک ہیں۔ ایک یہ کہ والد صاحب شام کو واک کرتے ہوئے ہم ایک بہن اور دو بھائیوں کو ساتھ لے کر شادمان مارکیٹ کی بک وے لے جاتے، جہاں سے ہم اپنی پسند کی کتابیں خریدتے۔ اسی طرح مہینے میں ایک بار ہم والد کے ساتھ مال پر واقع ’فیروز سنز‘ کی دکان پر جاتے اور وہاں سے بچوں کی کتابیں حاصل کرتے۔ وہ دور حالی پہ کیا گزری، بھوت بنگلہ، داستان امیر حمزہ جیسی کتابوں اور عمرو عیار کی کہانیوں کا تھا۔ایک اور ناشر بھی بچوں کی کہانیاں شائع کرتے جو آٹھ آنے یا ایک روپے میں مل جاتی تھیں۔

ہمارے گھرمیں بچوں کے جتنے انگریزی کلاسیک ہیں ان کے مختصر ایڈیشن بھی موجود ہوتے۔ تو اس ماحول میں ہم پروان چڑھے۔ پھر جب ہم کراچی منتقل ہو گئے، وہ دور اشتیاق احمد کی کہانیوں کا تھا۔ ہم سارے بچے ان کے ناولز کے دیوانے تھے۔ ایک مہینے میںچار کتابیں وہ نکالتے تھے، چار کی چار کتابیں جس دن آتیں، میں سکول سے واپسی پر ان کوخریدنے کے لیے بک سٹال پرموجود ہوتا۔مجھے آج بھی حیرت ہوتی ہے کہ اتنے دلچسپ انداز میں اچھوتے پلاٹ وہ کیسے لکھ لیتے تھے۔‘‘

ہارون خالد اختر اپنے والد کی تحریروں سے بھی بہت متاثر ہیں۔ چاکیواڑہ میں وصال، بیس سو گیارہ، مکاتیب خضر، عبدالباقی کہانیاں، افسانے اور تبصرے، سب انہیں پسند ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کے قریبی دوست، ممتاز ادیب شفیق الرحمٰن کوبھی شوق سے پڑھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’والد میں انسان دوستی بہت تھی۔ مثال کے طور پر ہم باہر سے گھر آئے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ ملازم کو ڈائننگ ٹیبل پر بٹھا کر کھانا کھلا رہے ہیں۔اس کے علاوہ وہ کتابوںکی اپنی دنیا میں مگن رہتے۔ وہ لکھنے پڑھنے والے انسان تھے، انہیں اپنی دوسری ذمہ داریوں کا احساس کم ہی ہوتا۔ ہماری تعلیم کے معاملات، سکول چھوڑنا اور واپس لانا سب والدہ کے ذمے تھا۔

والدہ سے ہمیں محبت ہی محبت ملی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی بچوں کے لیے وقف کر دی تھی اور اس میں اپنی صحت کا خیال بھی نہیں رکھا۔‘‘ ہارون خالد نے سن دو ہزار کے آس پاس انگریزی روزنامے ’ڈان‘ کے لیے فکاہیہ اور سنجیدہ مضامین لکھنے کا آغاز کیا۔ اس پر ان کے والد بہت خوش ہوئے۔ جس دن ان کا کوئی مضمون شائع ہوتا، والد صبح اپنے سب دوستوں کو فون کر کے بتاتے۔ شفیق الرحمن بھی فون پر حوصلہ افزائی کرتے بلکہ خط لکھ کر شاباش بھی دیتے۔ ان کے انگریزی مضامین کا مجموعہ کتابی صورت میں “threadbare” کے نام سے 2005ء میں شائع ہوا۔

ناول لکھنے کا آغاز 2006ء میں کیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کا پہلا ڈرافٹ مکمل ہوا تو انہیں احساس ہوا کہ اس کا بیانیہ ٹھیک نہیں۔ پھر دو چار برس اس کو دوبارہ لکھتے ہوئے گزر گئے۔ وہ کہتے ہیں، ’’آج کے دور میں ری رائٹ کرنا نسبتاً آسان ہے، کیونکہ آپ کمپیوٹر پر جملے آگے پیچھے یا پیراگراف تبدیل کر سکتے ہیں۔ پرانے زمانے میں مختلف مصنفین کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اپنے لکھے ہوئے صفحے کے صفحے پھاڑ دیتے اور پھر نئے سرے سے لکھتے۔‘‘ لاہور کے ایک ناشر سے کتاب شائع کرنے کے معاملات طے ہو گئے۔ جب ناشر کو بھجوانے کے لیے اپنا مسودہ پڑھا تو مطمئن نہیں ہوئے اور اپنے لکھے ہوئے کو ایک بار پھر مسترد کر دیا۔

بالآخر دس سال کی محنت کے بعد انہیں کچھ اطمینان ہوا اور کتاب شائع کرانے کا اہتمام شروع کیا۔ کہتے ہیں، ’’ایک تخلیق کار میں اپنے لکھے ہوئے کو بار بار مسترد کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ دیکھاجائے تو میں نے اپنے ناول کو ایک سو سے زیادہ مرتبہ ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر ہر جملہ پرفیکٹ لکھ لوں گا تو میرا ناول خودبخود اچھا ناول بن جائے گا۔ میری کہانیوںمیں عام طور پر ولن نہیںہوتے، میں انسانیت کی فطری اچھائی پر یقین رکھتا ہوں، کچھ کرداروں سے منفی کام ہو بھی جاتے ہیں لیکن میں انہیں ولن بنا کر پیش نہیں کرتا، ہر ایک کا اپنا پرسپیکٹو ہوتا ہے اور وہ اس تناظر میںخود کو حق پر سمجھتا ہے۔‘‘

ہارون خالد اختر کے بقول پاکستان میں کتاب شائع کرانا آسان کام نہیں، بالخصوص انگریزی فکشن شائع کرنے والا کوئی ناشر نہیں۔ ’’جس پبلشر سے میری چند سال پہلے بات ہوئی تھی، انہوں نے دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔ یہاں رائلٹی کا تو تصور ہی نہیں اور کتاب بھی اپنے پیسوں سے شائع کرانا پڑتی ہے۔ پھر ناشرین کے پاس پروفیشنل مدیر بھی نہیں ہیں، جو مسودے کی غلطیاں درست کر سکیں۔ چنانچہ یہاں سے مایوس ہو کر جب میں نے معلومات لیں تو پتا چلا کہ ہندوستانی مارکیٹ میں ہماری گنجائش موجود ہے اور انہوں نے پاکستانی مصنفین کی کتابیں شائع کی ہیں۔ چنانچہ ایک ایجنٹ سے رابطہ ہوا۔

اس نے کچھ عرصہ مسودہ اپنے پاس رکھا۔ اس میں بھی کچھ وقت لگ گیا۔ بالآخر ایجنٹ کے ذریعے انڈیا کے پبلشر ’نیوگی بکس‘ (Niyogi Books)سے رابطہ ہوا اور انہوں نے کتاب شائع کرنے کی ہامی بھر لی۔ وہ بڑے پروفیشنل لوگ ہیں، ان کے پاس مسودے کی اصلاح کے لیے تجربہ کار مدیر ہوتا ہے۔ پھر رائلٹی بھی ایڈوانس میں ملی۔ میرے ناشر نے ہی پاکستان کے علاوہ اس کتاب کو امریکا، برطانیہ اور دنیا بھر میں پہنچایا ہے، یہ کتاب آن لائن بھی دستیاب ہے، جبکہ پاکستان میں مصنف کو اتنی سہولت مل جانے کا ابھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

انگریزی میں لکھنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ شروع سے ہی انگریزی میں مضامین لکھنے کی وجہ سے ان کا انگریزی ایکسپریشن بن گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اردو میں غیرمعمولی ادب لکھا گیا ہے، جو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو اس حوالے سے بھی ہمارے ملک کو پہچانا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’انتظار حسین کا انگریزی میں ترجمہ ہوا تو دنیا نے ان کے بارے میں جانا ہے۔ میرے والد اکرام اللہ صاحب کے مداح تھے، ان کا کام بھی ترجمہ ہوا ہے۔ خود محمد خالد اختر کے ’چاکیواڑہ میں وصال‘ کا انگریزی ترجمہ بلال تنویر نے کیا ہے۔ ان کی کہانی ’ننھا مانجھی‘ ایک شاہکار ہے۔

جس سے ابھی اردو پڑھنے والے بھی زیادہ واقف نہیں۔ یہ آنسو نکالنے والی کہانی ہے۔ جب ایسی تحریروں کا انگریزی میں ترجمہ ہو گا تودنیا بھر میں ہمارے ادب اور ادیبوں کی دھوم مچ جائے گی۔ پاکستانی انگریزی فکشن نگار بھی اردو ادب کی پیداوار ہیں۔ اب وہ اس کو تسلیم نہ کریں تو الگ بات ہے۔ محمد حنیف نے سارا اردو ادب پڑھا ہے۔ وہ میرے والد کی تحریروں کے مداح ہیں۔ مشرف فاروقی ہمارے گھر آتے رہتے تھے۔ اسی طرح ندیم اسلم ہیں، انہوں نے اردو ادب پڑھا یا نہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ ان کے پہلے ناول کا مرکزی خیال اسّی کے دہائی کے ایک ڈرامے ’رات ریل اور خط‘ پر مبنی ہے۔وہ اس سے انسپائر ہوئے۔اب اردو ادب دنیا تک نہیں پہنچا تو یہ ہماری کوتاہی یادنیا کی محرومی ہے، اس سے ان ادیبوں کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

ہارون خالد کو ارون دھتی رائے کا ناول ’گاڈ آف سمال تھنگز‘ بہت پسند ہے۔ ’دا انگلش پیشنٹ‘ سے بھی وہ متاثر ہوئے، جس پرفلم بھی بن چکی ہے۔ پی جی وڈ ہاؤس کی کہانیوں سے بہت لطف اندوز ہوئے۔ اے جی گارڈنر کے ایسے ایز (essays) کی دو کتابیں ان کو سب سے زیادہ پسند ہیں، جن کا وہ روزانہ مطالعہ کرتے ہیں۔

اس میں زندگی کی عام چیزوں کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتابیں انہیں والد سے ملیں، جسے وہ اپنے والد کا خاص تحفہ سمجھتے ہیں۔ فلمیں بھی شوق سے دیکھتے ہیں۔ والد کلاسیک موویز دکھانے سینما لے جاتے جہاں سے یہ شوق پروان چڑھا۔ انگریزی فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح انگریزی میوزک کے بھی دلدادہ ہیں۔ موسیقی سنتے ہوئے ہی انہیں اچھوتے آئیڈیاز ذہن میں آتے ہیں۔ گاڑی میں میوزک سننا اچھا لگتا ہے۔ پاکستان، ہندوستان کے پرانے فلمی گیت بھی کبھی کبھار سن لیتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’لباس کے معاملے میں لاپروا ہوں۔ ملازمت کے حوالے سے جو معیار قائم رکھنا چاہیے اس پر توجہ نہیں دے پاتا۔ کھانے میں اللہ کی بنائی ہوئی ہر نعمت اچھی ہے، کچھ خاص کھانا ہو تو چائنیز کھانے کو ترجیح دیتا ہوں۔‘‘

ان کی سن دو ہزار میں ارینج میرج ہوئی۔ شریک حیات گھریلو خاتون ہیں، لیکن لکھنے کاشوق ہے۔ وہ بھی انگریزی میں ایک ناول لکھ رہی ہیں،اس کے علاوہ اردو میں شاعری بھی کرتی ہیں۔دو بیٹے ہیں، ایک نے ابھی اے لیول پارٹ ون کا امتحان اچھے گریڈز میں پاس کیا ہے، دوسرا بیٹا جماعت نہم میں ہے۔

’میرے اندر دو قسم کے لکھاری ہیں‘

میرے اندر دو قسم کے لکھاری ہیں، ایک وہ جو بہت سوچ سمجھ کر لکھتا ہے، اپنے آپ کو ریجیکٹ کرتا ہے اور لکھتے ہوئے اس کے آنسو بھی نکل جاتے ہیں، اس کی بڑی جذباتی یادیں ہیں۔ ایک وہ لکھاری ہے جو بڑے آسانی اور تیزی سے ہلکے پھلکے انداز میں لکھتا ہے۔ جو لکھتا ہے تو پانچ منٹ میں ایک پیراگراف لکھا جاتا ہے۔ بسا اوقات وہ لکھنے کے دوران اپنی تحریر پر ہی بے ساختہ قہقہ لگاتا ہے۔ جو میرا اگلا ناول ہے “The Liar’s Truth” وہ اس دوسرے مصنف نے لکھا ہے۔ یہ ایک سیاسی طنز ہے۔ کچھ چیزیں جو ملک میں غلط ہوتی ہیں یا جس سمت ہمارا ملک جا رہا ہے تو مجھے اس پر شدید غصہ آتا ہے۔ ان کی نشاندہی کے لیے میں طنزیہ مضامین لکھتا ہوں ، اس طرح میرا غصہ بھی نکل جاتا ہے۔‘

 اشتیاق احمد سے یادگار ملاقات

ہم دونوں بھائی اشتیاق احمد کے بہت مداح تھے۔اس لیے 1984ء میں ایک دفعہ گاڑی پر لاہور آتے ہوئے ان سے خاص طور پر ملنے جھنگ گئے۔میری بہن اور والدہ بھی ساتھ تھیں۔ جب ہم جھنگ پہنچے اور پتا پوچھ رہے تھے تو لوگوں نے بتایا کہ وہاں کریانہ سٹور ہے، یہ ان کا ہے، ادھر سے پتا کریں، وہاں ’شوکی برادرز‘ سے ملاقات ہو گئی۔ اخلاق وغیرہ کریانہ سٹور پر تھے۔ ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اشتیاق بھائی تو گھر پر ہوں گے، وہ پڑھنے لکھنے والے آدمی ہیں۔ اخلاق ہمارے ساتھ گیا، چھوٹا سا گھر تھا، پھر انہوں نے ڈرائنگ روم کھلوایا، ہماری آؤ بھگت کی اور بہت خوش ہوئے۔ ہم نے ان سے آٹوگراف لیا۔

’کرکٹ جیسا رومانس کسی اور چیز میں نہیں‘

ہارون خالد کو لکھنے پڑھنے اور موسیقی سے گہرا شغف ہے۔ لیکن وہ ان دونوں کے مقابلے میں اپنے کرکٹ سے رومانس کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔بتاتے ہیں: ’’کرکٹ سے بہت دلچسپی رہی ہے، کھیلا کم لیکن دیکھا جنون کی حد تک ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب سکول کالج نہیں جانا ہوتا تھا تو صبح بیٹھتا اور جب تک ٹیسٹ میچ ختم نہیں ہوتا ادھر ہی ٹی وی کے سامنے رہتا۔ کرکٹ کے ساتھ میرا گہرا رومانس ہے، آپ 1980ء سے پاکستان کے کسی بھی میچ کے بارے میں پوچھ لیں، تفصیلات میں آپ کو بتا دوں گا۔جب پاکستان میں کرکٹ ہوتی تھی سٹیڈیم میں میچ دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ سٹیڈیم میں میچ دیکھنے کا سو گنا زیادہ مزا ہے۔ آپ اس میجک کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ابھی شارجہ میں بھی میچ دیکھ کر آیا ہوں کولیگز کے ساتھ۔‘‘ویوین رچررڈز کو اپنا پسندیدہ ترین کرکٹر قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کے آل ٹائم فیورٹس میں وہ بلے بازی میں ظہیر عباس اور باؤلنگ میں وسیم اکرم کا نام لیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔