رشتوں میں کھٹاس کیوں؟

ڈاکٹر میشال نذیر  جمعـء 27 ستمبر 2019
خاندان میں شادی ضرور کیجئے، مگر رشتوں کا پاس بھی تو رکھئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

خاندان میں شادی ضرور کیجئے، مگر رشتوں کا پاس بھی تو رکھئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’میرا تعلق پنجاب سے ہے، میں نے ایم فل بھی وہیں سے کیا۔ میرے ایک ہی چچا تھے جن کی فیملی کراچی میں تھی۔ میری چچی مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں۔ انہوں نے مجھے بہو بنایا۔ مجھے پی ایچ ڈی کرنی تھی، لیکن چچا اور چچی نے کہا کہ تم کراچی میں پڑھ لینا کوئی روک ٹوک تھوڑی ہے۔ اور یوں میں شادی کے بعد کراچی آگئی۔

چچی کو پتہ تھا کہ میں بہت اچھا کھانا نہیں بناتی۔ شادی سے پہلے تو کہا میں سکھا دوں گی، جب امی نے کہا کہ تھوڑا وقت دیں تاکہ یہ کھانا پکانا وغیرہ سیکھ لے، لیکن شادی کے بعد ہمارے کھانے پکانے کو لے کر ہی لڑائی جھگڑوں کا آغاز ہوا۔ پھر مجھے نوکری کرنے سے روکا گیا۔ شوہر نے کافی ساتھ دیا، یوں مجھے نوکری کر نے کی اجازت ملی، اور مزید تعلیم کا معاملہ تو ابھی تک کھٹائی ہی میں پڑا ہے۔ اب مسئلہ گھر کے کاموں کا تھا، میرے شوہر نے کہا کہ ملازمہ رکھ لیتے ہیں جو میرے حصہ کا کام کردے گی۔ میری چچی بولیں بھئی میرے باورچی خانے میں ملازمہ پاؤں نہیں رکھے گی۔ اور بالآخرمیرا کھانا ان سے الگ ہوگیا، کیونکہ میرے شوہر کے علاوہ کسی کو میرا کھانا پسند نہیں تھا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ میری غیر موجودگی میں ہمارے گھر جو رشتے دار آتے تھے، میرے فریج سے میرا پکا ہوا کھانا ان کو دکھایا جاتا، اور کہا جاتا کہ اسے تو کھانا بھی پکانا نہیں آتا۔ میرا بیٹا پتہ نہیں کیسے یہ بے ذائقہ کھانا کھاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ یہ میری سگی چچی کر رہی ہیں۔ میری چچی بہت اچھی تھیں، جب سے وہ میری ساس بنیں وہ محبت کہیں گم ہو گئی۔ کاش وہ میری ساس نہ ہوتیں، وہ میری چچی ہی رہتیں۔ ساس کے رشتے نے میری اچھی چچی جیسا رشتہ بھی چھین لیا‘‘۔ یہ کہانی میری ایک دوست کی ہے۔

’’میں اپنی گریجویشن کے دوسرے سال میں تھی، جب میری خالہ میرے رشتے کےلیے آئیں۔ امی نے کہا کہ ابھی اس کی پڑھائی کے دو سال باقی ہیں، تو خالہ نے کہا ارے ایک گھر سے دوسرے گھر ہی تو آرہی ہے، جتنا چاہے پڑھے۔ اور اس طرح میری شادی اُسی سال ہوگئی۔ لیکن شادی کے بعد یونیورسٹی جانے کا دن آیا ہی نہیں۔ خالہ نے بولا بہت ہوگئی پڑھائی، مجھ سے گھر کا کام نہیں ہوتا۔ امی نے کہا اب کچھ بولیں گے تو فساد ہے، اور یوں مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی پڑھائی کو خیرباد کہنا پڑا۔ اب تو میرے بچے ہیں، لیکن ایک خلش آج بھی ہے کہ میری سگی خالہ نے یہ سب کیوں کیا؟ کیوں جھوٹ کا سہارا لے کر شادی کی۔ پہلے بتاتیں کوئی پڑھائی کی اجازت نہیں ہوگی، میرے والدین فیصلہ کرتے کہ شادی کرنی ہے کہ نہیں۔ مجھے پڑھنا تھا، مجھے کچھ بننا تھا، لیکن میری سگی خالہ کی وجہ سے یہ نہیں ہوسکا۔ وہ ساس ہی بنیں، میری خالہ نہیں‘‘۔ یہ ایک اور دوست کی آپ بیتی ہے۔

دونوں ہی کہانیوں میں ساس بہو کے رشتے میں کھٹاس تو ہے ہی، مگر خونی رشتے بھی جھوٹ اور فریب کی بھینٹ چڑھ گئے۔

یہ کہانی ہر دوسرے گھرکی ہے۔ خاندان میں شادیاں اور نتیجہ رشتوں میں تناؤ۔ جب کوئی ماں اپنے بیٹے کےلیے اپنی بھتیجی یا بھانجی بیاہ کر لاتی ہے تو چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ساس کا رشتہ غالب آہی جاتا ہے۔ یہی صورتحال باقی رشتوں کی ہوتی ہے۔ ایک تو خاندان میں آپس میں بہت شادیاں نہیں کرنی چاہئیں جو کہ آج سائنس کی رو سے جینیاتی بیماریوں کی بڑی وجہ ہے۔ اور دوسرا جھوٹ بول کر ہمارے معاشرے میں شادیاں کیوں کی جاتی ہیں؟ یہ منافقت بھری سوچ آخر کب ختم ہوگی؟ ہو گی بھی کہ نہیں؟

جب آپ نے پہلے سے ہی طے کرلیا ہوتا ہے کہ نوکری یا پڑھائی کی اجازت نہیں دینی، تو آپ رشتے کے وقت حامی کیوں بھرتے ہیں؟ اگر آپ کو گھر سنبھالنے والی، کھانا پکانے والی، اور گھر کی صفائی کرنے والی بہو چاہیے تو ویسی ہی ڈھونڈیں، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کسی کے خوابوں کو کچلنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟ ہم شادی جیسے اہم معاملے میں جھوٹ، فریب اور دھوکے کا سہارا لیتے ہیں۔ جب خونی رشتے ہی اس بات کو نہیں سمجھتے، تو سوچیں، غیروں پر بھروسہ کرنا کتنا مشکل ہے۔

اس سارے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ چچی، ممانی، خالہ، پھپھو، جیسے خونی رشتوں میں جھوٹ کی وجہ سے تناؤ آجاتا ہے۔ رشتہ جب طے کیا جاتا ہے، تو دونوں طرف سے کچھ معاملات پر رضامندی ہوتی ہے، لیکن شادی کے بعد مکر جانا، رشتوں میں کڑواہٹ ہی لاسکتا ہے۔ اس کے چلتے پھر خاندان میں یہ جھگڑے طول پکڑ جاتے ہیں، بہن بھائی میں اختلاف ہوجاتا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کی شادی ایک دوسرے کے گھر میں کی، جو کہ جھوٹ کے تانے بانے کی نذر ہوگئی۔ بہن بھائی کا رشتہ بھی پہلے جیسا نہیں رہتا، اس میں کڑواہٹ آجاتی ہے۔ خاندان میں شادی ضرور کیجئے، مگر رشتوں کا پاس بھی تو رکھئے۔ اپنوں میں شادی مطلب، دہری ذمے داری۔ اس لیے شادی کرتے وقت جھوٹ کا سہارا قطعی نہ لیں۔

آخر ہم یہ کب سمجھیں گے کہ شادی زندگی کا ایک اہم اور خاص حصہ ضرور ہے، لیکن پوری زندگی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی کا مطلب ہے گھر، سسرال، اور بچے۔ خود عورت کچھ کرنا چاہے تو اس کی اُسے اجازت تک نہیں؟ آخر کیوں؟ اور کب تک؟ پھر چاہے ساس اس کی سگی خالہ، پھپھو، ممانی، چچی ہی کیوں نہ ہو۔ آخر ہم کب ایک عورت کی شخصی آزادی، اور وقار کو تسلیم کریں گے؟ ایک عورت صرف گھریلو کام کرکے ہی نہیں، بلکہ تعلیم کے ذریعے اپنے ملک کی معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ خدارا اسے وہ کردار ادا کرنے دیں۔ اس میں اس کی سپورٹ کریں، نہ کہ اسے روکیں، وہ بھی اس لیے کہ اس نے شادی کرلی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر میشال نذیر

ڈاکٹر میشال نذیر

بلاگر حیاتی کیمیا (بایو کیمسٹری) میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اسلام اور سائنس کے موضوع سے خصوصی شغف رکھتی ہیں۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد ہورہا ہے، اس سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر، معاشرے کی وہ تصویر ہے جس میں دھنک کے سارے رنگ ہیں؛ اور جسے دیکھنے کےلیے خوبصورت آنکھ چاہیے، جو ہر رنگ میں چھپی خاموشی، شور، سکون، خوشی، غم، خیال، تصور، غرض کہ ہر معاشرتی احساس کو دیکھ، سن، سمجھ اور برداشت کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔