ونڈ چائم سے کشمیر
سرحد پار سے آنے والی خبروں، کشمیری نوجوانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور بٹوارے نے پوری وادی کو ہی اداس کر رکھا ہے
کشمیر زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔ (فوٹو: فائل)
کہتے ہیں کہ آواز اور خوشبو انسان کو یادوں کی دنیا میں لے جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ آج میری کھڑکی میں لگے ونڈ چائم کی مدہم آوازیں سن کر ہوا کہ بہت دن بعد کچھ لکھنے کا دل کیا۔ یہ Wind-Chime چندی گڑھ میں موجود انجینئرنگ کانگریس کے ہاسٹل میں ایک بڑے گھنے درخت کے ساتھ لٹکا ہوا تھا، جو وہاں کے چوکیدار کو کسی جاپانی وزیٹر نے دیا تھا۔
''میڈم میرا بس چلے تو میں کشمیر کے تمام بارڈر کھول دوں... اور دنیا سے کہوں کہ آؤ دیکھو خوبصورت اور حسین کشمیر کو کس طرح جیل بنا رکھا ہے''۔ یہ الفاظ وہاں کے اس ہندو کشمیری چوکیدار کے تھے جو مجھے انجینئرنگ کانگریس ہاسٹل کے مختلف حصوں کی سیر کراتے ہوئے بتارہا تھا۔ چونکہ ہماری رہائش اس ہاسٹل میں تھی اور ان دنوں نیو ایئر کی چھٹیوں کی وجہ سے پورا ہاسٹل خالی تھا اور سوائے اس چوکیدار اور اس کی فیملی کے وہاں کوئی نہ تھا۔ آج کئی سال بعد یہ ونڈ چائم، جو اس نے وہاں سے آتے ہوئے مجھے دیا تھا، اس کی مدہم، لرزتی ہوئی آواز نے کتنی ہی خوبصورت یادوں کا دروازہ کھول دیا۔ سچ ہے، آواز انسانی نفسیات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز ہے اور اس سے جڑے الفاظ بھی۔ اور پھر یوں لگا جیسے Wind-Chime کی آواز بہت دور تک سنائی دیتی چلی گئی۔
میں نے کشمیر کے بارے میں سن تو بہت کچھ رکھا تھا لیکن کبھی وہاں جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اس بار جولائی میں آزاد کشمیر جانا ہوا تو احساس ہوا کہ واقعی قدرت نے جنت کا کچھ نقشہ زمین پر بھی اتارا ہے۔ دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ پہاڑوں میں سفر کرتے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا رہا کہ حسن اور خوبصورتی کی واقعی بڑی قیمت چکائی ہے کشمیر نے۔
کشمیر کے لوگ بڑے متحمل اور دوستانہ مزاج ہیں۔ کہیں کسی سے راستہ پوچھنے کےلیے رکیں تو سلام اور مصافحہ کے بعد ہی بات شروع کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تحمل اور برداشت نے 70 سال میں بھی کشمیریوں کے حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیا اور وہ مسلسل ظلم اور جبر کے خلاف کھڑے ہیں۔ میں جتنے دن بھی وہاں رہی نجانے مجھے کشمیر کی فضا میں عجیب سی اداسی اور افسردگی کا احساس کیوں ہوتا رہا۔ شاید سرحد پار سے آنے والی خبریں، بے گناہ کشمیری نوجوانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور بٹوارے نے پوری وادی کو ہی اداس کر رکھا ہے۔ بچے، بوڑھے سب ہی ایک جیسی خاموش مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے اور ہولے سے ہاتھ ہلا دیتے۔
مجھے اس بچی کی حیران آنکھیں یاد آرہی تھیں، جو کشن گنگا جھیل کے کنارے میری گاڑی کے پاس آکر بہت دیر سے خاموش کھڑی تھی۔ میں نے اس سے کئی سوال کیے لیکن وہ جواب میں ہلکے سے مسکرانے لگتی اور پھر اپنی قمیض کو مضبوطی سے پکڑ کر ٹھیک کرنے لگتی۔ قمیض اس کے سائز سے کافی بڑی تھی اور تیز ہوا میں اسے سنبھالنا مشکل ہورہا تھا۔ شاید غریب ماں باپ کو جو ملا اسے پہنا دیا۔ جب میں نے اپنے ڈیش بورڈ پر پڑا ٹافیوں کا پیکٹ اس کو دیا تو کشمیر کے سارے رنگ اس کے چہرے پر پھیل گئے اور وہ خوشی سے بھاگتی ہوئی باقی بچوں کی طرف چلی گئی۔
ایک انسان کا دوسرے انسان سے ہمدردی کا رشتہ ہی سب سے معتبر ہے، جب آپ دوسرے کا دکھ محسوس کرسکیں۔ کشمیر کے اداس مگر سحر انگیز حسن کو دیکھ کر بچپن میں پڑھی ہوئی سلیپنگ بیوٹی کی کہانی یاد آگئی۔ مجھے کشمیر بھی ایک سلیپنگ بیوٹی لگا، جسے کسی آسیب نے جکڑا ہوا ہے۔ جب آنکھ کھلے گی، آزادی کی آنکھ، تو دنیا جانے گی کہ اس کا حسن اور جادو کس قدر اثر انگیز ہے۔
کچھ راستے، کچھ لوگ اور کچھ منظر انسان کی روح اور فطرت سے اس قدر مطابقت رکھتے ہیں کہ لگتا ہے آپ بہت دیر سے انہیں جانتے ہیں اور ان سے مانوس ہیں۔ کشمیر بھی ایک ایسی ہی جنت ہے۔ شاید اسی کے بارے میں شاعر نے کہا تھا۔
تم نہیں دیکھ سکتے
لیکن میں دیکھ سکتا ہوں
نیند کا سایہ
اور دھوپ کی پرچھائیں
اور قدیم پتھروں
اور درختوں کے چھالوں سے
برآمد ہوتی روحیں
اور سن سکتا ہوں
ہوا کی سرگوشیاں
اور دروازے کھلنے کی آواز
اور آجا سکتا ہوں
ان راستوں پر...
جو تمہارے وجود کے اٹلس میں
کہیں دکھائی نہیں دیتے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔