سری لنکن ٹیم کی آمد نے نئے در کھول دیئے

عباس رضا  اتوار 29 ستمبر 2019
موسمی حالات سے نبرد آزما ہونے کیلئے مناسب سہولیات کی ضرورت۔ فوٹو: فائل

موسمی حالات سے نبرد آزما ہونے کیلئے مناسب سہولیات کی ضرورت۔ فوٹو: فائل

مارچ 2009میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر دہشت گردوں کا حملہ پاکستانی کھیلوں کیلئے سیاہ باب ثابت ہوا۔

مہمان آئی لینڈرز کو صدر مملکت کے برابر سکیورٹی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن ٹیسٹ میچ کیلئے قذافی سٹیڈیم آتے ہوئے راستے میں دہشت گرد دن دیہاڑے دندناتے اور سرعام گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے کئی سوالیہ نشان چھوڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، ملکی ساکھ پامال ہوئی اور شائقین اپنے میدانوں میں انٹرنیشنل مقابلوں کو ترس گئے، سکیورٹی صورتحال قدرے بہتر ہونے پر چند سپورٹس فیڈریشنز نے اکا دکا بین الا قوامی مقابلوں کا اہتمام کیا لیکن کرکٹ کی بحالی کیلئے زیادہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

سابق چیئرمین پی سی بی شہریار خان کی مسلسل کوشش سے مئی 2015میں زمبابوے کی ٹیم 3ون ڈے اور 2ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے کیلئے لاہور آئی،انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے یہ اقدام بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا، بہترین سکیورٹی انتظامات نے خدشات غلط ثابت کردیئے، بعد ازاں 2017میں پاکستان سپرلیگ کے دوسرے ایڈیشن کا فائنل قذافی سٹیڈیم میں ہی ہوا تو حکام نے ہوش اور شائقین نے جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میچ کو یادگار بنادیا، دنیا بھر میں ایک مثبت پیغام گیا کہ امن قائم رکھنے کے ذمہ دار ادارے فعال اور عوام کرکٹ سے بے پناہ محبت کرنے والے ہیں۔

آئی سی سی کی معاونت سے ورلڈ الیون کی پاکستان میں میزبانی کیلئے بات چیت تو ایک عرصہ سے چل رہی تھی لیکن پی ایس ایل فائنل کے بعد پی سی بی کا کیس مضبوط ہوگیا،لاہور میں میچ کھیل کر جانے والے غیر ملکی کرکٹرز نے پاکستان کی ساکھ مزید بہتر کرنے میں کردار ادا کیا، آئی سی سی ٹاسک فورس برائے پاکستان کے سربراہ جائلز کلارک نے پاکستان دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی سیریز کیلئے عملی کوششوں کا آغاز کیا۔

ان مقابلوں کے انعقاد کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے کئی مشکلات درپیش تھیں، اس وقت چیئرمین شہریار خان کی عہدے کی مدت ختم ہورہی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے میں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیئے جانے کی وجہ سے سیاسی منظر نامے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوچکی تھے، سابق وزیر اعظم کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب 17ستمبر کو شیڈول کئے جانے کی وجہ سے ورلڈ الیون کا مجوزہ شیڈول بھی متصادم ہوگیا، یواے ای میں سری لنکا کے خلاف سیریز کیلئے قومی ٹیم کی روانگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹرز کی میزبانی کا مرحلہ 25اگست سے قبل مکمل ہونا ضروری تھا، ان حالات میں ورلڈ الیون کی سیریزکے امکانات کم ہی دکھائی دے رہے تھے لیکن تمام مشکلات کو آہنی عزم سے شکست دینے کا ارادہ کرتے ہوئے مقابلے ضمنی الیکشن سے قبل ہی کروانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سکیورٹی انتظامات کیلئے کمر کس لی تو دوسری طرف پی سی بی نے میسر وقت میں قذافی سٹیڈیم کی تزئین و ائورائش، نشریاتی حقوق فروخت، مہمان کرکٹرز کی رہائش اور آمدورفت سمیت مختلف امور کی انجام دہی کا بیڑا اٹھالیا۔تیاریوں کے کٹھن مراحل طے کرنے کے بعد لاہور میں میلہ سجایا گیا تو نہ صرف قذافی سٹیڈیم میں آنے والے شائقین بلکہ ملک بھر میں انٹرنیشنل کرکٹ کا شاندار استقبال کیا، ورلڈ الیون میں شامل 7ملکوں سے تعلق رکھنے والے 14کرکٹرز دبئی میں اکٹھے ہونے کے بعد زندہ دلوں کے شہر میں پہنچے تو ان کا سر آنکھوں پر بٹھایا گیا، یہ صرف 3ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے ایک چابی تھے۔

ایونٹ کے کامیاب انعقاد سے سری لنکن ٹیم کو بھی ایک ٹی ٹوئنٹی میچ کیلئے پاکستان آنے کا حوصلہ ملا، بورڈ حکام نے کولمبو میں آئی سی سی اجلاس کے دوران اس مختصر دورہ کیلئے اکتوبر میں آنے کی حامی بھری تو دنیا کی نظریں اس بات پر مرکوز ہوگئیں کہ جس ٹیم پر تقریبا 9 سال قبل حملہ ہونے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوئے وہی کرکٹ کی بحالی کے عمل میں شریک ہوگی یا نہیں، یہ ٹور دہری اہمیت کا حامل تھا کہ دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے آئی لینڈرز آرہے تھے تو دوسرے طویل وقفے کے بعد صف اول کی ٹیموں میں سے کسی کا یہ پہلا دورہ تھا،کپتان اپل تھارنگا، پیسر لیستھ مالنگا، 2009 میں سری لنکن ٹیم کی بس کے سوار سورنگا لکمل اور کاپوگدیرا سمیت 40کھلاڑیوں نے بورڈ کو خط میں اپنے تحفظات ظاہر کئے۔

بورڈ نے اس کے باوجود ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ٹیم بھجوانے کا حتمی فیصلہ کیا تو لیستھ مالنگا سمیت چند کرکٹرز نے ابوظہبی اور لاہور کے میچز کیلئے الگ الگ سکواڈ منتخب کرنے کی درخواست کردی لیکن سری لنکا کے وزیر کھیل دیاسری جیاسکیرا نے کہا کہ یواے ای میں کھیلنے والے پلیئرز ہی پاکستان جائیں گے، بالآخر بورڈ نے اپل تھارنگا کی جگہ تھسارا پریرا کو کپتان مقرر کردیا، آل رائونڈر لاہور میں آزادی کپ سیریز کیلئے ورلڈ الیون میں بھی شامل تھے، سکواڈ میں تھسارا پریرا (کپتان)، تھیس دلشان مناریوا، دنشکا گوناتھیلاکا، سدیرا سماراوکراما، ایشان پریانجن، مہیلا اڈواتے، دسون شناکا، سچتھ پتھیرانا، وکرم سنجایا، لاہیرو گماگے، سیکوگے پرسنا، وشوا فرنینڈو، اسورو اڈانا، جیفری ونڈرسے اور چتورنگا ڈی سلوا کو شامل کیا گیا۔

آئی لینڈرز پاکستانی سرزمین پر ایکشن میں نظر آئے تو قذافی سٹیڈیم میں وزیر کھیل دیا سری جیا سیکرا اور بورڈ کے صدر تھالنگا سماتھی پالا کی قیادت میں سری لنکن وفد بھی میچ دیکھنے کیلئے موجود تھا، سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے جنرل منیجر جیفری جان کی سبراہی میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا وفد بھی لاہور پہنچا، آئی سی سی کے انویسٹی گیشن آفیسر الیگزینڈر جان مارشل،سینئر اینٹی کرپشن یونٹ آفیسر پال سٹون بھی وفد میں شامل تھے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے ایک مشکل اور طویل سفر کے مثبت آغاز سے حوصلہ پاتے ہوئے پاکستان نے 2018 میں مزید دو بڑے قدم اٹھائے،ان میں سے پہلا پی ایس ایل کے زیادہ میچز کا ملک میں انعقاد تھا،اس بار غیر ملکی کرکٹرز کا اعتماد بھی بحال ہوا اور پہلے سے زیادہ تعداد میں سٹارز نے پاکستان کا رخ کیا، تیسرے ایڈیشن کے پلے آف میچز لاہور میں کروانے کے ساتھ کراچی میں بھی انٹرنیشنل کرکٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے فائنل کا میلہ سجا دیا گیا، شہر قائد کے باسیوں نے بھی اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کرتے ہوئے ثابت کیا کہ پاکستانی کھیلوں سے پیار کرنے والی قوم ہیں،اپریل میں ویسٹ انڈین ٹیم نے ٹور کا فیصلہ کیا تو پی سی بی نے اس کی میزبانی بھی کراچی میں ہی کرنے کا فیصلہ کیا،یہاں کھیلے جانے والے تینوں ٹی ٹوئنٹی میچز نے انٹرنیشنل مقابلوں کے پرامن انعقاد کیلئے پاکستان کی صلاحیت کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا۔

رواں سال پی ایس ایل کے چوتھے ایڈیشن کے میچز لاہور اور کراچی میں شیڈول کئے گئے تھے، بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی اور پروازیں معطل ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے تو خدشہ تھا کہ پاکستان میں میچز کا انعقاد ہی مشکل ہوجائے گا، اس بار بھی کراچی نے کھلی باہوں کے ساتھ پی ایس ایل میچز کا استقبال کیا،قلیل وقت کے باوجود لاہور سے منتقل کئے جانے والے تمام میچز کی میزبانی بھی قبول کرلی،گروپ، پلے آف اور فائنل سمیت میچز کا یہ میلہ بھی شائقین کی بھرپور توجہ کا مرکز بنا،دنیا کو امن اور دوستی کا پیغام گیا، پاکستان کا انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کیلئے سفر مزید تیز ہوگیا۔

سری لنکا کیساتھ اکتوبر میں سیریز کی بدولت پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی بھی ہوجاتی لیکن دونوں ملکوں میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے پر اتفاق ہوا، 10کرکٹرز کے انکار نے ٹور کو خدشات کا شکار کیا لیکن سری لنکن بورڈ نے پاکستان کیساتھ دوستی نبھائی،مہمان ٹیم سٹار کرکٹرز کے بغیر اور کمزور ہوسکتی ہے لیکن ان کے آہنی ارادوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے آنے والے یہ کھلاڑی قابل احترام اور ان کی سوچ قابل ستائش ہے،خلاف معمول بارشوں کی وجہ سے 10سال بعد آئی لینڈرز کو کراچی میں ایکشن میں دیکھنے کا خواب پورا نہیں ہوسکا، امید ہے کہ پیر کو میچ ممکن ہوسکے گا۔

طویل انتظار کے بعد ہونے والے ون ڈے سیریز کی اہمیت تب ہی اجاگر ہوگی جب میدان میں رونق لگے گی،یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کے دور میں کراچی سٹیڈیم کی تعمیر و مرمت وغیرہ کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے اس پہلو کو یکسر نظر انداز کردیا گیا کہ نکاسی آب کا موئثر انتظام بھی ہونا چاہیے،دوسری جانب دنیا کے بیشتر میدانوں کو پوری طرح کور کرنے کیلئے سہولت بھی موجود ہوتی ہے، ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں،دنیا بھر میں موسم کے انتہائی ناقابل اعتبار ہوجانے کے بعد اب کسی بھی صورتحال کیلئے تیار رہنا بھی ضروری ہے۔

اگر کھیل ہی ممکن نہ ہوتو سٹیڈیم کی خوبصورتی اور تزئین و آرائش کسی کام کی نہیں، قذافی سٹیڈیم میں بھی نکاسی آب کے مسائل موجود ہیں، پی سی بی ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے کوشاں اور اس ضمن میں مثبت پیش رفت بھی بڑی خوش آئند ہے لیکن وینیوز کو مختلف موسمی حالات میں کھیل کے قابل رکھنے کیلئے ہر ممکن انتظام کرنے کی ضرورت ہے،قدرت کے کاموں میں کوئی دخل نہیں دے سکتا، بارش بھی ان میں سے ایک ہے لیکن ایسے اقدامات تو اٹھائے جاسکتے ہیں کہ کھیل کا وقت کم سے کم ضائع ہو۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔