کرکٹرز کو کرمنل نہیں بننے دیں

سلیم خالق  اتوار 13 اکتوبر 2019
ایک ہیلپ لائن بنائیں جہاں کرکٹرز اپنے مسائل کا بتا سکیں پھر انھیں حل کریں۔ فوٹو: فائل

ایک ہیلپ لائن بنائیں جہاں کرکٹرز اپنے مسائل کا بتا سکیں پھر انھیں حل کریں۔ فوٹو: فائل

’’آپ سلیم بھائی بات کر رہے ہیں، میرا نام۔۔۔ ہے، میں ایک فرسٹ کلاس کرکٹر ہوں،بھائی میرے حالات بہت خراب ہیں، نئے ڈومیسٹک سسٹم کی وجہ سے ملازمت چلی گئی، کرکٹ کے سوا مجھے کوئی اور کام بھی نہیں آتا، مگر بے روزگاری کی وجہ سے اب نوبت یہ آ گئی کہ گھر کے اخراجات چلانا دشوار ہو گیا،آپ شاہد آفریدی اور ندیم عمر جیسے لوگوں کو جانتے ہیں پلیز ان سے کہیں مجھے کوئی جاب دے دیں، یا کوئی گاڑی یا بائیک کہیں سے مل جائے جسے آن لائن کمپنی کیلیے چلا سکوں‘‘

یہ تو صرف ایک مثال تھی مجھے ساتھی صحافی شعیب جٹ نے ایک ویڈیو بھیجی جس میں ایک کرکٹر سوزوکی چلا رہا ہے، ایک اوررپورٹ کے مطابق کئی کھلاڑیوں نے آن لائن موٹر سائیکل چلانے کا کام شروع کر دیا ہے،’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘ پاکستان کرکٹ ان دنوں جس انداز میں چلائی جا رہی ہیِ، اس پر یہی ضرب المثل پرفیکٹ بیٹھتی ہے،اچھا خاصا ایک نظام چل رہا تھا جس میں کرکٹرز کو روزگار بھی میسر اور نیا ٹیلنٹ بھی سامنے آ رہا تھا۔

ٹیم نے ورلڈکپ اور چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی، ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی میں ہم نمبر ون بنے، یقیناً اس میں کئی خامیاں تھیں جنھیں دور کرنا ممکن بھی تھا مگر سب کچھ بدل دینا مسئلے کا حل نہیں تھا، نئے سسٹم میں کیا تبدیل ہوا؟ جو کرکٹرز پہلے رنز کے ڈھیر لگا رہے تھے آپ بھی ایسا ہی کر رہے ہیں، پچز کا معیار بھی وہی ہے، نئی پیکنگ میں پرانی چیز پیش کی گئی، اس کا نقصان یہ ہوا کہ پی سی بی سے معاہدہ نہ پانے والے سیکڑوں کرکٹرز گھروں پر بیٹھ گئے، لاکھوں کمانے والوں کی آمدنی 50 ہزار روپے ماہانہ رہ گئی، اہل خانہ کیلیے میڈیکل کی سہولت بھی چھن گئی، پھر آمریت والے کام کرتے ہوئے انھیں ایسا معاہدہ دیا گیا جس میں وہ زبان بھی نہیں کھول سکتے، ہر چیز پر پابندی لگا دی گئی۔

ہارون رشید سے پوچھے بغیر صرف سانس لینے کی اجازت ہے، ایسا اسی لیے ہوا کہ کوئی سسٹم کیخلاف آواز نہ اٹھا سکے، ابھی تو ٹیکسی اور سوزوکی چلانے کی نوبت آئی ہے، خدانخواستہ کل یہ بے روزگار کرکٹرز چوری چکاری کرنے پر مجبور نہ ہو جائیں، بھوکے بچوں کو دیکھ کر اچھا خاصا شریف انسان بھی بدمعاش بن جاتا ہے، میں برسوں سے ہارون رشید جیسے لوگوں کو پی سی بی میں دیکھ رہا ہوں، سوائے چیئرمین کے شاید ہی کوئی عہدہ ان کی دسترس سے بچا ہو، ان کی خوبی یہ ہے کہ جو کام کہا جائے کر دیتے ہیں یہ نہیں کہتے کہ اس سے کیا نقصان ہوگا۔

مجھے اب بھی چند سال پرانا ان کا سینئر صحافی عبدالماجد بھٹی کو ایک انٹرویو یاد ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’پی سی بی کی ملازمت چھننے سے وہ مالی مشکلات کا شکار ہو گئے، گھر چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے،بچوں کی شادی کیسے کریں گے یہ فکر ستائے جا رہی ہے‘‘ برسوں پی سی بی اور ایک بینک میں ملازمت کرنے والے ہارون رشید کا ایک یا دو ماہ میں یہ حال ہو گیا تھا تو ان غریب کرکٹرز کا کیا ہوا ہو گا، وہ تو خوش قسمت تھے کہ پھر بورڈ میں واپس آ گئے مگر ہر کسی کے اتنے تعلقات نہیں ہوتے، انھوں نے نئے سسٹم سے سامنے آنے والے نقصانات کا کچھ نہیں سوچا، کاغذ پر تو بتایا جاتا ہے کہ کرکٹرز اتنی رقم کمائیں گے یا یہ فوائد ملیں گے مگر زمینی حقائق مختلف ہیں۔

آپ نے ملک بھر کے کرکٹرز کو ڈرا کر رکھا ہوا ہے اس لیے وہ کھل کر سامنے نہیں آتے ورنہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے، پہلے کہا گیا کہ 30 سال سے زائد العمر کرکٹر کو ڈومیسٹک کرکٹ نہیں کھیلنے دی جائے گی مگر37سالہ عمران فرحت نے مقدمے کی دھمکی دی تو بورڈ چپ ہوگیا، بیچارے ہر کھلاڑی کے پاس عمران جیسی ہمت ہے نہ پیسہ کہ اپنے حق کیلیے لڑ سکے، آپ آسٹریلیا کی راہ پر چل پڑے وہاں کون سے کھلاڑی کوروزی روٹی کا مسئلہ تھا مگر یہاں ہے، کوچز کے تقرر کی مثال سامنے رکھیں، کئی منظور نظر افراد کو ذمہ داریاں سونپی گئیں اور اہل کرکٹرز ہاتھ ملتے رہ گئے، کھلاڑی پورے سیزن محنت کر کے نام کماتے ہیں۔

آف سیزن میں 50 ہزار روپے ماہانہ سے وہ کیسے گذارا کریں گے، اس کے برعکس دیکھا جائے تو سی ای او وسیم خان کی ماہانہ تنخواہ 22 لاکھ اور مراعات شامل کر لیں تو یہ رقم 30 لاکھ کے قریب بن جاتی ہے، یعنی میدان میں پسینہ بہانے والے 60 فرسٹ کلاس کرکٹرز کی ماہانہ آمدنی کے برابر رقم انھیں ہر ماہ ملتی ہے، تنخواہ پر بات وسیم خان کی چڑ ہے مگر ہم کیوں نہ کریں، انھوں نے کون سے ایسے کارنامے انجام دے دیے جو کوئی پاکستانی نہیں کرسکتا، لندن میں آپ کسی اسٹور میں کام کریں تو ماہانہ آمدنی پاکستانی رقم میں کئی لاکھ بن جائے گی تو کیا وہ شخص پاکستان میں آ کربھی کہے گاکہ میں فلاں اسٹور میں 2لاکھ لے رہا تھا تم بھی دو، ہر ملک کے حالات اور کرنسی میں فرق ہوتا ہے۔

وسیم کو صرف فرنٹ مین بنا کر لایا گیا ہے، ان کے کندھے پر بندوق رکھ کر شکار کیے جا رہے ہیں، جب معاملات قابوسے باہر ہوں گے تو وہ برطانیہ واپس چلے جائیں گے اور بورڈ تمام خرابیوں کا ملبہ انہی پرڈال دے گا، وزیر اعظم عمران خان بھی کہہ چکے کہ یوٹرن لینا کوئی بری بات نہیں، پی سی بی کو بھی چاہیے کہ اپنی غلطیوں کو دیکھے اور ٹھیک کرنے کی کوشش کرے، سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے سوشل میڈیا چیمپئنز کو اس بات کا احساس نہیں کہ کرکٹرز پر کیا بیتی ہے، وہ بورڈ کے فیصلوں کا دفاع کیے جا رہے ہیں مگر ایسا ہے نہیں۔

میری احسان مانی سے درخواست ہے کہ ڈومیسٹک ٹیموں میں شامل اور باہر ہونے والے چند کرکٹرز کو ملاقات کیلیے بلائیں اور ان سے مسائل پوچھیں، پھر انھیں حل کرنے کی کوشش کریں، جو کھلاڑی بے روزگاری کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں ان کو بھی کہیں ایڈجسٹ کیا جائے، ایک ہیلپ لائن بنائیں جہاں کرکٹرز اپنے مسائل کا بتا سکیں پھر انھیں حل کریں، 50 ہزار ماہانہ کے بجائے کرکٹرزکو اس کی اہلیت پر معاوضہ دیں،کم سے کم رقم بھی ایک لاکھ روپے ہونی چاہیے، فیملی کے ساتھ میڈیکل انشورنس بھی فراہم کریں، اگر بورڈ نے ایسا نہیں کیا تو شاہد آفریدی اور ندیم عمر جیسے لوگوں کو ہی آگے آنا پڑے گا کیونکہ یقیناً وہ بھی نہیں چاہئیں گے کہ کرکٹرز کرمنل بنیں۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔