حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اعصابی جنگ

احتشام بشیر  منگل 29 اکتوبر 2019
حکومت اور اپوزیشن میں جاری اعصابی جنگ میں منصوبہ بندی کا کردار مولانا فضل الرحمان ادا کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

حکومت اور اپوزیشن میں جاری اعصابی جنگ میں منصوبہ بندی کا کردار مولانا فضل الرحمان ادا کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

جمیعت علمائے اسلام نے حکومت مخالف تحریک کا سلسلہ شروع کردیا ہے لیکن بدلتی سیاسی صورتحال کے باعث جے یو آئی بھی یوٹرن پر یوٹرین لینے لگی ہے۔ پہلے مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف اسلام آباد لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دھرنے اور پھر مارچ اور اب جلسے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ جے یو آئی کی جانب سے کشمیریوں کے ساتھ ااظہار یکجہتی کےلیے 27 اکتوبر کو مارچ کیا گیا۔ ملک بھر میں اپوزیشن جماعتوں نے جے یو آئی کے ساتھ مل کر احتجاجی مارچ کیے۔

خیبرپختونخوا میں بھی اپوزیشن نے 31 اکتوبر کو ہونے والے اسلام آباد جلسے کےلیے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ جے یو آئی جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد کی جانب سے مارچ کرے گی جس کا اگلا پڑاؤ نوشہرہ میں ہوگا جہاں مردان، چارسدہ اور دیگر علاقوں کے قافلے شامل ہوں گے۔ یہاں سے جہانگیرہ اور اکوڑہ خٹک کے راستے قافلے پنجاب میں داخل ہوں گے۔ اے این پی کے قافے مردان انٹرچینج پر جمع ہوں گے اور وہاں اسفندیار ولی کی قیادت میں اسلام آباد کےلیے رونہ ہوں گے۔

خیبرپختونخوا میں دو بڑی اپوزیشن جماعتوں پیپلزپارٹی اور اے این پی کے ساتھ قومی وطن پارٹی اور مسلم لیگ ن کے کارکنان بھی اپنی قیادت کی جانب سے ہدایات کے بعد تیاریوں میں مصروف ہیں۔ پشاور اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کے صوبائی رہنماؤں کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہیں سے حکومت مخالف احتجاج کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

جے یو آئی کی جانب سے اسی حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ 19 اکتوبر کو ہونے والی اے پی سی میں میزبان جے یو آئی کے علاوہ مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلزپارٹی، قومی وطن پارٹی، جمعیت اہل حدیث، جمعیت علمائے اسلام، پختونخوا عوامی پارٹی، ، نیشنل پارٹی نے شرکت کی۔ اے پی سی کے بعد 20 نکاتی اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں ملکی مفاد میں حکومت سے فوری مستعفی ہونے اور انتخابی اصلاحات کے بعد فوری انتخابات کا مطالبہ کیا گیا۔ اے پی سی میں شامل اپوزیشن جماعتوں نے 31 اکتوبر کو آزادی مارچ میں شرکت کےلیے قافلوں کی صورت میں اسلام آباد جانے کا اعلان کیا ہے۔

جے یو آئی کی جانب سے ایک سال کے دوران جو ملین مارچ کیے گئے، ان میں مولانا فضل الرحمان نے اپنی بھرپور قوت کا مظاہرہ کیا اور مولانا فضل الرحمان بار بار ملین مارچ میں اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کرتے رہے۔ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے جب اسلام آباد دھرنے کا اعلان کیا گیا تو حکومت نے اس اعلان کو سنجیدہ نہیں لیا، لیکن جب جے یو آئی کی جانب سے دیگر اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کا آغاز ہوا اور پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نواز، خیبرپختونخوا سے اے این پی نے بھی حمایت کا اعلان کیا تو حکومت نے ہوش کے ناخن لیے اور اپوزیشن کے احتجاج کو سنجیدہ لیتے ہوئے مذاکرات کا آغاز کیا۔

حکومت کو یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ اگر اپوزیشن کے قافلے ایک بار ریڈ زون میں داخل ہوگئے اور ڈی چوک میں دھرنا دے دیا تو اسے ختم کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ اسی لیے حکومت کی جانب سے سیاسی معاملات میں جوڑ توڑ کے ماہر، سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا کو مذاکرات کا ٹاسک سونپا گیا۔ اسی وقت یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملات طے پاجائیں گے؛ اور وہی ہوا۔ پرویز خٹک اپوزیشن کو منانے میں کامیاب ہوگئے اور اب حکومت نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان پشاور موڑ پر جلسے کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ جلسہ تو ویسے 31 اکتوبر کا اعلان کیا گیا لیکن جس طرح قافلے ملک بھر سے روانہ ہو رہے ہیں، یہ جلسہ اکتوبر سے ماہ نومبر میں داخل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے بعد اب نظریں 31 اکتوبر پر لگی ہوئی ہیں کہ مولانا فضل الرحمان تو وزیراعظم کا استعفی لینے نکلے تھے، اب ان کا 31 اکتوبر کے جلسے میں کیا اعلان ہوگا؟ کیونکہ تمام اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان 31 اکتوبر ہی کو اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ نواز کے مرکزی صدر شہباز شریف کو اعتماد میں لے چکے ہیں اور شہباز شریف کی کوشش ہے کہ محاذ آرائی کے بجائے سیاسی طریقے سے حکومت کو شکست دی جاسکے۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتیں حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہی ہیں۔ 31 اکتوبر کے جلسے میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ کیا جائے گا اور حکومت کو نئی ڈیڈلائن دی جائے گی کہ وزیراعظم مستعفی ہوکر گھر چلے جائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اگلی بار ان کا پراؤ ڈی چوک ہوگا۔

اس وقت حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اعصابی جنگ جاری ہے اور اس جنگ میں منصوبہ بندی کا کردار مولانا فضل الرحمان ادا کررہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کپتان اس مرتبہ بھی ویسے ہی مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسے انہوں نے 1992 کے ورلڈ کپ میں کیا تھا یا پھر مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ کے سامنے ڈھیر ہوجائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔