آزادی مارچ اور ایک مخصوص طبقہ

وقار نیازی  بدھ 6 نومبر 2019
آزادی مارچ میں ایک مخصوص طبقہ ہی شامل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آزادی مارچ میں ایک مخصوص طبقہ ہی شامل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مولانا اور اس کے حمایتی کہتے ہیں یہ جعلی سلیکٹڈ حکومت عوام پر زبردستی لاد دی گئی ہے، حکمران استعفیٰ دیں اور گھر جائیں، ورنہ یہ آزادی مارچ پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار کی کرسی سے زبردستی بہا کر لے جائے گا۔ لیکن آپ نے نوٹ کیا کہ اس آزادی مارچ میں ایک مخصوص طبقہ ہی شامل ہے۔ اس طبقے میں زیادہ تر مدرسے، قبائلی، کوئٹہ سے لوگ لائے گئے ہیں۔

ان لوگوں کا مقصد کیا ہے یہ تو نہیں معلوم، لیکن اب تک تو جو میں نے محسوس کیا ان لوگوں کا مقصد انجوائے کرنا، کھیل کود، گھومنا پھرنا اور وقت آنے پر اپنے قائد کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ہر حد پار کرنے کےلیے تیار ہونا ہے۔ یہ لوگ معصوم ہوتے ہیں، ان لوگوں کے کانوں میں جو بات ڈالی جائے باآسانی ان کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہے اور کر گزرنے کےلیے اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں۔ اگر مولانا نے ایک کال دی تو یہ لوگ اپنی جان تک قربان کرنے کےلیے آگے بڑھ جائیں گے۔

مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ان سارے حالات کو اچھے سے جانتی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ مولانا کے دھرنے میں شرکت کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر دھرنے میں خود اور اپنے کارکنوں کو شرکت کرنے کی دعوت نہیں دے رہے۔ یہ دونوں پارٹیاں صرف یہی چاہتی ہیں کہ مولانا آگے بڑھیں اور حالات خراب ہوں، خون خرابہ ہو اور تحریک انصاف پر انگلیاں اٹھائی جائیں۔ ٹھیک اسی طرح، جس طرح مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں پی ٹی آئی کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد اٹھائی گئی تھیں۔

لیکن سوال یہ اٹھتا ہے مولانا کا مطالبہ کیا ہے؟ مولانا کا مطالبہ اگر پاکستان کے عوام کو ریلیف پہنچانے کےلیے ہوتا تو مولانا کا پہلا مطالبہ مہنگائی کم کرنا ہوتا۔ لیکن مولانا کو شائد اس بات سے غرض نہیں۔ مولانا کے طور طریقے سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت واقعی ٹھیک کہتی ہے کہ ان کو زیادہ تکلیف اس لیے ہورہی ہے کہ اس بار انھیں اقتدار میں حصہ نہیں دیا گیا۔ یہ دھرنا عوامی نہیں بلکہ اقتدار کی جنگ لگ رہا ہے۔ عوامی جنگ ہوتی تو اس دھرنے کی نمائندگی پورے ملک سے ہوتی۔ لیکن یہ دھرنا قبائلی اضلاع، کوئٹہ کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ مولانا اور ان کے لوگوں سے جب صحافی اور اینکرز سوال کرتے ہیں کہ آپ لوگ کیوں دھرنا دے رہے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ جعلی سلیکٹڈ حکومت ہے۔ الیکشن میں دھاندلا ہوا ہے۔ 2013 میں دھاندلی ہوئی تھی، اس بار دھاندلا ہوا ہے۔ لیکن موصوف دھاندلی زدہ حکومت میں چونکہ شامل تھے تو شائد اس وجہ سے وہ دھاندلی حلال تھی اور اب شامل نہیں تو اسی دھاندلی لفظ کو دھاندلا کہہ کر بات پلٹ رہے ہیں۔

مولانا اگر ان معصوم جانوں کو جوش دلا کر ان کا قتل عام کروا کر اس حکومت کو گراتے ہیں تو یہ اس حکومت اور پاکستان کے لوگوں سے زیادتی ہوگی، کیوں کہ اتنا بڑا فیصلہ ایک خاص طبقہ یا جماعت نہیں کرسکتی۔ اس مقصد کےلیے مولانا کو چاہیے کہ وہ واپس جائیں اور پہلے اپنا بیانیہ عوامی بنائیں اور پورے ملک کے عوام کی حمایت لیں، جس طرح پی ٹی آئی کے دھرنے میں چاروں صوبوں کے لوگوں نے شرکت کی۔ میں عمران کے دھرنے کے بھی مخالف تھا اور آج بھی ہوں، کیوں کہ اس اقدام سے پاکستان میں جمہوریت کسی طریقے سے نہیں چل پائے گی۔ اس طرح تو ایک خاص طبقہ یا ایک جماعت 20، 30 ہزار لوگ اکٹھے کرکے ایک عوامی منتخب شدہ حکومت کو آکر گرا دے گی اور اس طرح یہ سسٹم کی روایت قائم ہوجائے گی۔ مولانا اور اپوزیشن کو چاہیے کہ جس طرح ان دو بڑی جماعتوں نے اپنی پچھلی حکومتیں پوری کیں، اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی موقع دیا جائے اور جمہوری روایت کو برقراررکھا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وقار نیازی

وقار نیازی

بلاگر کا تعلق پنجاب کے ضلع خانیوال سے ہے، یونیورسٹی آف لاہور سے جرنلزم میں گریجویٹ، صحافی اور لکھاری ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔