بلوچستان کابینہ، ’امتحاں اور بھی ہیں!‘

عابد میر  بدھ 23 اکتوبر 2013
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

کائنات کے اس منطقے میں بلوچستان نامی خطہ کسی جزیرے کی مانند سست رفتار طور پر ارتقا پذیر رہا ہے۔ یہ سست روی ہمارے عمومی سماجی اور سیاسی مزاج کا بھی اب حصہ بن چکی ہے۔ سو، پاکستان میں نئی حکومت کی تشکیل مکمل ہو کر امورِ سلطنت سنبھال چکی تو بلوچستان میں یہ بوجھ تین ماہ تک مڈل کلاس فیم وزیر اعلیٰ کے کندھوں پر رہا۔ اس دوران بلوچستان میں بالخصوص ہر صحافی اور بالعموم ہر مجلس کا لازمی سوال ہوتا، ’آخر کابینہ کب تشکیل پا ئے گی؟‘ حکومتی اراکین تو اب اس سوال پر زچ ہونے لگے تھے۔ بالآخر وزیر اعلیٰ یہ بارِگراں اپنے کندھوں سے اتارنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ لگ بھگ چار ماہ بعد خدا خدا کر کے کابینہ کی عدم تشکیل کا کفر ٹوٹا۔ بلوچستان میں کابینہ سازی کا ایمان افروز عمل مکمل ہوا۔

محکموں کی تقسیم نے ان خبروں کی تصدیق کر دی جن کے مطابق کابینہ سازی میں اصل رکاوٹ یہی عمل تھا۔ گزشتہ حکومتوں میں مسلسل کابینہ میں رہنے اور محکموں کو پیسہ بنانے کی مشین بنانے والے وزیر ان محکموں پر اجارہ داری کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔ ایک مقتدر شخصیت کی جانب سے بعض ایم پی ایز سے وزارت کے لیے کروڑوں روپے لینے کی باتیں تو کوئٹہ سے لے کر بلوچستان کے کونے کونے تک زبان زدِ عام رہیں۔ اب محکموں کے اعلان کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ بنیادی طور پر سارا جھگڑا اسی پہ تھا۔ پیسہ بنانے والے سبھی اعلیٰ محکمے انھوں نے چن چن کر لے لیے۔ بتانے والے مگر بتاتے ہیں کہ ان کے سینوں میں ابھی بھی ٹھنڈ نہیں پڑی، کہ کابینہ کے حجم میں کمی کے باعث ان کے بعض ’یارِ غار‘ وزارت سے محروم رہ گئے ہیں۔

خبریں تو یہ بھی ہیں کہ وزارتو ں کی تقسیم پہ اتحادی جماعتوں کے اندر ابھی سے پھوٹ پڑ چکی ہے۔ ایک طرف بلوچستان کے کڑے حالات میں جان ہتھیلی پہ رکھ کر اپنے علاقوں سے انتخابات میں حصہ لے کر اور جیت کر آنے والے اراکین اسمبلی، وزارتوں سے محرومی پہ اب اپنی جماعتوں سے نالاں ہیں، تو دوسری طرف مبینہ طور پر کروڑوں روپے خرچ کرنے والے آئندہ کچھ برسوں تک اپنے کاروبار کا مستقبل تاریک دیکھ کر پریشاں ہیں۔ شنید میں یہ ہے کہ ان اراکین کی اندر کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فی الحال مختلف کمیٹیاں بنا کر انھیں وہاں کھپانے کا پروگرام بنایا گیا ہے، دوسری طرف یہ آسرا بھی دیا گیا ہے کہ وزراتیں آدھے آدھے عرصے کے لیے بانٹ لی جائیں گی۔ یعنی جو لوگ ابھی وزیر بنے ہیں، حکومت کی پانچ سالہ مدت کے مطابق ڈھائی برس بعد وزارت کی نشست، محروم رہ جانے والے دوستوں کے لیے خالی کر دیں گے۔ کہنے کو تو یہ ایک سیاسی جوا ہے، لیکن کوئی اور راہ نہ پاکر فی الوقت تو وزارت سے محروم اراکین اس لولی پاپ سے بہل گئے ہیں۔ لیکن کروڑوں خرچ کرنے والوں کو اپنا روپیہ ڈوبتا نظر آ رہا ہے، اس لیے ان کی تگ و دو میں کوئی کمی نہیں آئی۔ امکان یہ ہے کہ یہ ’باغی گروہ‘ بظاہر حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی حکمرانوں کے لیے دردِ سر بنا رہے گا۔

بلوچستان کی حکمران اتحادی جماعتوں میں سے قیادت کا کانٹوں بھرا تاج اپنے سر پہ سجانے والی نیشنل پارٹی کی قیادت نے آغاز سے ہی بلوچستان میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں کا عندیہ دیا تھا۔ اب تک کی کابینہ سازی میں صحت کا شعبہ اس جماعت کو مل چکا، تعلیم کا اب تک کچھ اتہ پتہ نہیں۔ جب کہ پندرہ وزرا پر مشتمل کابینہ میں چودہ وزیر بن چکے ہیں، جن میں سے چار کے محکموں کا تعین تادم تحریر نہیں ہو سکا۔ شنید میں ہے کہ محکمہ تعلیم کا قلم دان پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے مانگ لیا ہے۔ معاملہ یہ نہیں کہ یہ قلمدان کس جماعت کے پاس رہتا ہے، بات یہ ہے کہ کارکردگی ہی دراصل وہ پیمانہ ہو گی جس سے معیار کا تعین ہو گا۔ اور یہ محکمہ درحقیقت اب کسی بھی جماعت یا وزیر کی نہ صرف پیشہ ورانہ صلاحیت بلکہ سماجی اخلاقیات کا بھی امتحان ثابت ہو گا۔ اس لیے جو بھی اس آگ میں کودے گا، اسے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا۔

کابینہ سازی کی تشکیل کا کٹھن مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اب معاملہ کارکردگی کا ہے۔ کابینہ میں وزراء کی اکثریت ن لیگ سے ہے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو نظریاتی (حتیٰ کہ ذاتی) طور پر قوم پرستوں کے شدید مخالف ہیں۔ نیشنل پارٹی اور پشتونخوا جیسی جماعتوں سے ان کا اتحاد غیر فطری اور محض عارضی ہے۔ مرکزی قیادت کا دباؤ نہ ہوتا تو یہ کبھی بھی اس اتحاد کے لیے تیار نہ ہوتے۔ اس لیے اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ یہ اپنے محکموں میں کرپشن تو کریں گے ہی لیکن اپنے اختیارات سے تجاوز بھی کر سکتے ہیں، جب کہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے محکموں میں کرپشن کے خاتمے کی کوششوں کے دوران ان وزرا کا صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے اختیارات سے تصادم خارج از امکان نہیں۔ یہ جھگڑا حکومت کی عمر کم کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ کیونکہ نہ صرف اپوزیشن بلکہ خود حکومت میں موجود بعض قوتیں، اس حکومت کو زیادہ دیر چلتے دیکھنا نہیں چاہتیں۔ بعض ایسے بھی ہیں جو خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو ہمیشہ خود کو ہوا کے رخ پر ڈھال لینے کے ماہر ہیں۔

تازہ خبر یہ ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال اور ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے حوالے سے صوبائی حکومت نے کل جماعتی کانفرنس کے لیے تیاری شروع کر دی ہے۔ آئندہ ماہ کوئٹہ میں ہونے والی کانفرنس میں بلوچستان اسمبلی کے اندر اور باہر موجود تمام قوم پرست جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ باضابطہ دعوت نامے جاری کرنے سے پہلے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک تمام جماعتوں کے سربراہان سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے جس میں انھیں کل جماعتی کانفرنس کے ایجنڈے اور اس کی اہمیت کے حوالے سے اعتماد میں لیں گے۔ دعویٰ تو یہ بھی کیا گیا ہے کہ ماضی میں ہونے والی کانفرنسوں کے برعکس اس کانفرنس میں ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات سمیت دیگر تمام پہلوؤں پر تفصیلی غور و خوص کیا جائے گا اور مذاکرات کے لیے سینئر بلوچ قبائلی رہنماؤں پر مشتمل ایک جرگہ بھی تشکیل دیا جائے گا جس کو مرکزی اور صوبائی حکومت کی طرف سے بھرپور مینڈیٹ حاصل ہو گا۔ مذاکرات کے علاوہ غور غوض کے قابل یہ ’دیگر پہلو‘ کون سے ہوں گے، ان سے متعلق آخر میں ان الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ، اگر مذاکرات میں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو تمام جماعتوں کی رضامندی سے صوبے میں شر پسند عناصر کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کا آپشن بھی موجود رہے گا۔

گویا اس اے پی سی کا اصل ایجنڈا یہی ہو گا۔ مذاکرات تو آپ سے کسی نے کرنے نہیں ہیں۔ فریقِ مخالف بارہا ایسی پیشکشوں کے جواب میں واضح طور پر کہہ چکا کہ بلوچستان کو فوج اور پیرا ملٹری فورسز سے خالی کروایا جائے، اس کے بعد کوئی بات ہو سکتی ہے۔ فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے سہارے حکومت کرنے والے ہمارے حکمران کیونکہ اس سرتابی کی جرأت تو کر نہیں سکتے، اس لیے یہ طے ہے کہ اے پی سی کا بنیادی مقصد ’ٹارگٹڈ آپریشن‘ کے لیے تمام جماعتوں کی رضامندی حاصل کرنا ہے۔ جن میں سے اکثر جماعتوں کی طرف رضامندی تو انھیں پہلے ہی حاصل ہے، اور جنھوں نے رضامندی نہیں دینی، وہ نہ اب رضامند ہیں نہ اے پی سی کے بعد ہوں گے۔ اس لیے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسی اے پی سی کا مشورہ دینے والے کسی طرح حکمرانوں کے دوست نہیں۔ لیکن مسندِ حکمرانی کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہ دوست اور دشمن کی تمیز ہی مٹا دیتی ہے۔

کمیون ازم کا ابتدائی خاکہ اپنی کتاب ’یوٹو پیا‘ میں بیان کرنے والے سر تھامس مور نے ’یوٹو پیا‘ کا احوال بتانے والے رافیل سے کہا تھا کہ تم کسی بادشاہ کے مشیر بن جاؤ تو بہت کارآمد ثابت ہو گے۔ جواب میں رافیل کہتا ہے، ’افلاطون کو بھی یہی غلط فہمی تھی کہ بادشاہ اگر فلسفی ہو جائے یا فلسفی بادشاہ تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ چنانچہ اس نے سسلی کے بادشاہ کو فلسفی بنانے کی کوشش بھی کی لیکن ناکام رہا۔ اس لیے کہ بادشاہوں کو سچے اور دانا مشیروں کی نہیں بلکہ خوشامدی کاسہ لیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

کئی سازشوں اور امتحانوں میں گھرے بلوچستان کے حکمران، لگتا ہے کہ خوشامدی کاسہ لیسوں کو اپنے حرم میں جگہ دے چکے۔ دوست اور خیرخوا محض ان کے لیے دعاگو ہی ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔