بنیاد پرستی کی علامات

کلدیپ نائر  جمعرات 24 اکتوبر 2013

بنیاد پرستی اپنا بدصورت چہرہ پھر آشکار کر رہی ہے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے کھلے عام کہہ دیا ہے کہ اب وہ سیاست میں حصہ لے گی۔ دوسری طرف آزاد خیال جمعیت علمائے ہند نے بھی مسلم ووٹ کی بات کی ہے۔ سر پر کھڑے پارلیمانی انتخابات سیاسی پارٹیوں کی مجبوری بن گئے ہیں، اس کے باوجود تقسیم در تقسیم کے جس عمل میں وہ مصروف ہیں وہ ہندو مسلم ہم آہنگی کے لیے سخت نقصان دہ ہے اور اس حقیقت کو وہ بھی کسی حد تک تسلیم کرنے لگے ہیں۔ سب سے پہلے آر ایس ایس کی مثال دیکھئے۔ بظاہر وہ بی جے پی کی کارکردگی پر خوش نہیں جو کہ اس کا سیاسی بازو ہے۔ آر ایس ایس ہندوتوا کے ’’پوسٹر بوائے‘‘ یعنی گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کے امید وار کے طور پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

ممکن ہے کہ آر ایس ایس ایل کے ایڈوانی، سُشما سوراج اور ارون جیٹلے جیسے بی جے پی کے اعتدال پسند رہنمائوں سے خوش نہیں ہے لیکن آر ایس ایس کا سیاست میں حصہ لینے کا یہ مطلب ہے کہ وہ سردار پٹیل کے ساتھ کیے جانے والے اپنے اس عہد سے منحرف ہو گئی ہے جو تقسیم  کے وقت ملک کے وزیر داخلہ تھے۔ آر ایس ایس نے نہ صرف ان سے وعدہ کیا تھا بلکہ اسے باقاعدہ طور پر اپنے منشور میں لکھا تھا کہ وہ کبھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے گی۔ یہ وہ قیمت ہے جو اس نے مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اپنے اوپر  لگنے والی پابندی کو ختم کرانے کے لیے ادا کی تھی۔ گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کا آر ایس سے تعلق ثابت ہو گیا تھا۔ درست کہ پٹیل ہندو نوازی کے لیے جانا جاتا تھا اور وہ آر ایس ایس کو گاندھی جی کے قتل میں ملوث نہیں سمجھتا تھا،  یہ بات اس نے 27 جنوری وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو لکھے گئے ایک خط میں کہی تھی تاہم پٹیل کو یقین تھا کہ آر ایس ایس کے پُر تشدد رویے نے گاندھی کے قتل کے لیے راہ ہموار کرنے میں ضرور کردار ادا کیا تھا۔

اس وقت آر ایس کے لیڈر مدھیو سداشیو گولواکر  نے صحتِ جُرم سے انکار کر دیا تھا تاہم اس نے نہرو اور پٹیل کو جو تاریں  بھیجی تھیں ان میں گاندھی کے قتل پر گہرے صدمے کا اظہار کیا تھا مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ آر ایس ایس کو اپنے منشور میں اس بات کو واضح طور پر لکھنا پڑا کہ اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں اور یہ کہ وہ صرف اور صرف ثقافتی سرگرمیوں کے لیے مختص ہے۔ اب آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے بڑ ہانکی ہے کہ وہ براہ راست سیاست میں حصہ لے گا جو کہ پٹیل کے ساتھ کیے گئے وعدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ تاہم یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر الیکشن کمیشن کو غور کرنا ہو گا۔ آخر ایک ثقافتی تنظیم یکلخت سیاسی میدان میں کیونکر کود سکتی ہے۔ اگر آر ایس ایس اپنے منشور میں ترمیم بھی کر دے تب بھی وہ اس تحریری ضمانت سے کس طرح دستبردار ہو سکتی ہے جو اس نے مرکزی حکومت کی طرف سے اپنے اوپر عائد کردہ پابندی کو ختم کرانے کے لیے دی تھی۔

اب جمعیت علمائے ہند کے سربراہ محمود مدنی کا بیان بھی دیکھئے جنہوں نے سیکولر پارٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ نریندر مودی کے جھانسے میں نہ آئیں ورنہ مسلمان ووٹروں میں خوف و ہراس پھیل جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنی گزشتہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ طلب کریں نیز رائے دہندگان کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان پارٹیوں نے اپنے انتخابی وعدوں کو کس حد تک پورا کیا ہے۔ مجھے مدنی کے بیان پر کوئی اعتراض نہیں مگر صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ انھوں نے مسلم ووٹروں کو اکسانے کی کوشش کی ہے۔ اگر وہ یہ کہہ دیتے کہ انتخابات میں کوئی ہندو یا مسلم ووٹ نہیں ہے بلکہ یہ سب انڈین ووٹ ہے۔  مسلمانوں کو علیحدہ کر کے نکالنا ایسا ہی ہے جو آر ایس ایس ہندوئوں کے بارے میں کر رہی ہے۔ مجھے مدنی کے دل میں مودی کے لیے پائی جانے والی محبت کی بھی سمجھ نہیں آئی۔ انھیں اس بیان میں یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ ان کے تبصرے کو غلط نہ سمجھا جائے اور یہ بھی کہ وہ مودی کی تنگ نظر اور متعصبانہ سیاست کے حق میں نہیں ہیں۔ ویسے بھی اپنے اس بیان میں انھوں نے کانگریس اور سماج وادی پارٹی  کو درخود اعتناء نہیں سمجھا۔

کانگریس کو بھی بات کرنے کا موقع مل گیا جس کا کہنا ہے کہ ہم اپنی حکمت عملی کسی فرد واحد کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں بناتے بلکہ ہماری ترجیح  پارٹی کے پروگرام اور پالیسیوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ تاہم کانگریس کی یہ خود ستائشی کسی کو قائل نہیں کر سکتی۔ یہ حقیقت ہے کہ کانگریس نے صرف مودی کو ہی ہدف بنانے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور اس  کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا کہ تمام مرکزی وزراء باری باری مودی کو ہی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کانگریس نے کسی جامع ایشو کو نہیں اٹھایا یعنی ملکی تعمیر و ترقی کی کوئی بات نہیں کی بلکہ وہ مودی کے ہاتھوں میں کھیل گئی ہے جس نے 2014ء کے پارلیمانی انتخابات کو صدارتی طرز انتخاب میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ وہ اپنے ہندوتوا کے نظریے کو تعمیر و ترقی کے بلند بانگ دعوئوں کی آڑ میں چھپا رہا ہے۔

کانگریس کی دکھتی رگ ناقص حکمرانی اور ذمے داری کا فقدان ہے۔ میری تمنا ہے کہ ملک میں عام انتخابات قبل از وقت ہو جاتے تا کہ نئی حکومت کو ملکی ترقی کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کرنے کا موقع مل جاتا۔ لیکن اب سے انتخابات تک صرف چھ ماہ کا وقفہ ہے جس کے دوران کوئی سنجیدہ کام نہیں کیا جا سکتا۔ وزراء محض ٹامک ٹوئیاں ہی مارتے رہیں گے جب کہ ملکی معیشت دگرگوں ہو رہی ہے۔ اگر نجی شعبہ کے مہم جو غیر معمولی شرح نمو دکھا سکتے ہیں تو سرکاری شعبے میں ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

لیکن اس ساری صورتحال میں سب سے بدتر جو چیز ہے وہ یہ ہے جو  وشوا ہندو پریشد اور بی جے پی ایودھیا میں کر رہی ہیں۔ وہ بابری مسجد کے انہدام اور سیکڑوں مسلمانوں کے قتل کی ذمے دار ہیں مگر وہ اب پھر ویسی ہی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس مقصد کی خاطر ایک ریلی کو منظم کر رہی ہیں جس پر ریاستی حکومت نے پابندی لگا کر درست فیصلہ کیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ دونوں پارٹیاں دلتوں کو انصاف دلانے کے لیے بھی اسی سرگرم جذبے کا مظاہرہ کریں۔ دلت بھی مذہباً ہندو ہیں مگر ان کے ساتھ انتہائی ذلت آمیز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انھیں عدالتوں سے بھی انصاف نہیں ملتا۔

حالیہ واقعہ بہار کے گائوں لکشمن پور میں پیش آیا جہاں زمینداروں نے 27 عورتوں اور 10 بچوں سمیت 58 دلتوں کو ہلاک کر دیا۔ ایک اونچی ذات کے جج نے 16 ملزموں کو رہا کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت ہی نہیں ہے۔ یہ انصاف کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے۔ ماتحت عدالت ملزموں کو عمر قیدکی سزا سنا چکی تھی۔

اگر ہائی کورٹ کے جج کو کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا تھا تو اسے چاہیے تھا کہ اپنی نگرانی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) ترتیب دیتا اور معاملے کی ازسرنو تفتیش کراتا۔ اس نا انصافی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دلت اس گائوں سے ہجرت کر گئے ہیں جہاں وہ اور ان کے آبائو اجداد سالہا سال سے رہ رہے تھے۔ مگر جو لکشمن پور میں ہوا وہ ملک بھر میں دلتوں کے نصیب میں لکھا ہوا ہے۔ آئین میں قانون کے روبرو جس مساوات کا اندراج ہے وہ محض دکھاوا ہی ہے۔

اب توجہ سپریم کورٹ کی طرف ہے جہاں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل داخل کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کو بہار ہائی کورٹ کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہو گا جس میں اونچی ذات کے ججوں کا غلبہ ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔