حرارتی سینسر کے ذریعے گٹھیا کے مرض کا پتا لگانا ممکن

ویب ڈیسک  منگل 26 نومبر 2019
سائنسدانوں نے حرارت محسوس کرنے والے کیمروں سے گٹھیا کی شناخت کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ فوٹو: فائل

سائنسدانوں نے حرارت محسوس کرنے والے کیمروں سے گٹھیا کی شناخت کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ فوٹو: فائل

مالٹا: ماہرین کے مطابق گٹھیا (آرتھرائٹس) کے مرض میں اندرونی سوزش کی وجہ سے تکلیف والی جگہوں کا درجہ حرارت دیگر پرسکون مقامات کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے جسم میں حرارت محسوس کرنے والے سینسر گٹھیا کے مرض کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

اس ضمن میں ایک نیا سروے کیا گیا ہے جس سے اس بات کی مزید توثیق بھی ہوئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ گٹھیا کے مرض میں بالخصوص جوڑوں میں شدید اندرونی سوزش پیدا ہوتی ہے اور ماہرین نے ایک جدید تھرمل امیجنگ سسٹم سے اس کی آزمائش کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

تمام ترقیوں کے باوجود گٹھیا کی کیفیت اب بھی بہت مشکل سے ہی تشخیص کی جاتی ہے اور اس کے مستند ٹیسٹ اب بھی موجود نہیں۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف مالٹا اور اسٹیفرڈ شائر یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے خاص تھرمل کیمرے بنائے ہیں۔ یہ تھرمل کیمرے انسانی ہاتھ میں درجہ حرارت کی کمی بیشی کو نوٹ کرسکتے ہیں۔ یہ کیمرے انہوں نے 80 افراد پر آزمایا ہے۔

رضا کاروں میں 51 افراد صحت مند تھے اور 31 ایسے تھے جو گٹھیا اور جوڑوں کے دیگر امراض کے شکار تھے۔ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس جگہ مریضوں نے اپنی تکلیف کا ذکر کیا عین انہی مقامات کا درجہ حرارت بڑھا ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بافتوں میں سوزش سے وہاں گرمی پیدا ہورہی تھی اور یہ کیفیت کسی بھی ٹیسٹ سے واضح نہیں کی جاسکتی۔

حرارتی یا تھرمل سینسر کی کامیابی سے اب یہ سہولت ملی ہے کہ ابتدائی درجے میں ہی گٹھیا کی کیفیت معلوم کی جاسکتی ہے اور اس وجہ سے ابتدائی علاج بروقت شروع ہوسکتا ہے۔ اس طرح علاج کی راہ نکل آتی ہے اور مرض پیچیدہ نہیں ہوپاتا۔

ماہرین کے مطابق اگر گٹھیا کا مرض شدت اختیار کرجائے تو یہ ہڈیوں کے ٹیڑھے پن، معذوری اور امراضِ قلب کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔