امتحان میں فلم کی کہانی لکھنے پر استاد نے بہت سراہا، ڈاکٹر پرویز مہجور خویشکی

روخان یوسف زئی  منگل 24 دسمبر 2019
پشتو کے معروف شاعر اور محقق ڈاکٹر پرویز مہجور خویشکی کا شخصی خاکہ

پشتو کے معروف شاعر اور محقق ڈاکٹر پرویز مہجور خویشکی کا شخصی خاکہ

درمیانہ قد، گندمی رنگت، جہاں دیدہ آنکھیں اور حرکات و سکنات میں نظر آنے والی پھرتی جہاں ان کی شخصیت سے چند پردے اٹھاتی ہے، وہیں ان کی عمر پر ایک دبیز تہہ بھی ڈال دیتی ہے اور دیکھنے والا ان کی عمر کے بارے میں اپنے ذہن میں جو اندازہ کرتا ہے وہ اس سے دگنی نکلتی ہے۔

انٹرویو کے وقت بھی ایسی ہی ایک غلطی سرزد ہو چلی تھی، جب ان کے ساتھ موجود ان کے صاحبزادے انس پرویز کو ان کا چھوٹا بھائی سمجھ لیا، اگرچہ مزید گفتگو کے دوران یہ غلط فہمی دور ہوگئی تاہم حیرت پھر بھی باقی رہی۔ چھوٹی  اور گھنی دانشورانہ داڑھی ان کے چہرے پر بہت جچتی ہے، ہاتھ ہلا ہلا کر بات کرنے کا انداز کسی بہترین مقرر سے مشابہہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے دہن سے نکلنے والی ہر بات جہاں معلومات میں اضافہ کرتی ہے وہیں سوچ کے کواڑوں پر بھی برابر دستک دیتی ہے۔

پشتو اکیڈمی میں وہ واحد شخصیت تھے جو ہر وقت کسی تحقیق یا مطالعے میں مگن دکھائی دیتے  جس کی وجہ سے ان کے ہر کام میں پرفیکشن نظر آتی ہے۔ ان کے سراپا پر تحقیق کا ایسا گاڑھا رنگ چڑھ گیا ہے کہ ان کے ایک بہترین شاعر ہونے کا رنگ اس کے نیچے دب سا گیا ہے جب کہ ان کی شاعری کے مداحین کی تعداد بھی کم نہیں۔ ہر چھوٹے بڑے کو قدر دینا اور پیار محبت سے بات کرنا ان کی عادت ہی نہیں بلکہ ان کی فطرت میں شامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کو بھی ہر جگہ ہر کوئی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

عرصہ دراز سے ہر شعبہ میں چلنے والی گروپ بندی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی اور ہر طرف لابی سسٹم ہونے کے باوجود وہ کسی سے منسلک نہیں رہے۔ ان کی تمام تر توجہ اپنے کام کی طرف رہتی ہے اور ان کی کامیابی کا راز بھی شاید یہی ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ شہر میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود وہ ایک سیدھے سادے اور کھرے پختون ہیں اور ان کے طور اطوار سے پختون ولی جھلکتی ہے۔

ان کا اپنا نام پرویز خان جب کہ ادبی نام پرویز مہجور ہے۔ وہ 14 جنوری 1952ء کو زرین خان کے ہاں نوشہرہ کے علاقے خویشگی میں پیدا ہوئے، ان کی صرف ایک ہمشیرہ ہیں۔ پرویز مہجور نے ابھی زندگی کی چار بہاریں بھی پوری طرح نہیں دیکھی تھیں کہ ایک سدا بہار خزاں نے ان کو آلیا۔ وہ ابھی چار سال ہی کے تھے کہ ان کے والد کو کسی نے قتل کر دیا اور یوں وہ انگلی ان کے ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ گئی جس کو پکڑ کر انہوں نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا تھا۔

تاہم کچھ عرصہ بعد جرگے کے کہنے پر ان کے چچاؤں نے صلح کر لی اور یوں دو خاندان دشمنی کی چکی کے پاٹوں میں آنے سے بچ گئے۔ پرویز مہجور کو گاؤں کے ایک سکول میں داخل کر دیا گیا اور اس وقت علم سے جڑنے والا سلسلہ نہ صرف اب تک برقرار ہے بلکہ ان کا اوڑھنا بچھونا بھی بن گیا ہے۔

وہ شروع سے ہی ذہین تھے اور تعلیم کے میدان میں قدم جما جما کر آگے بڑھنے لگے۔ میٹرک اپنے گاؤں کے ایک ہائی سکول سے 1967ء میں کیا، اس کے بعد نوشہرہ کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان 1969ء میں پاس کیا۔ ان دنوں صدر ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی وہ اس کا حصہ رہے اور بہت سے مواقع پر طلباء کے جلوسوں کی قیادت بھی کی۔ والد کی وفات کے بعد ذریعہ معاش زرعی اراضی کا ایک ٹکڑا تھا جس سے آمدنی بہت کم تھی اور گزارا مشکل سے ہوتا، تاہم ان کی والدہ بہت باہمت اور پرعزم خاتون تھیں، وہ لوگوں کے کپڑے سی کر گھر کا خرچہ چلاتی رہیں اور ان کو تعلیم حاصل کرنے کے تمام مواقع فراہم کیے۔

پرویز مہجور کی سوچ شروع سے ہی عمر کی نسبت بڑی تھی اور بچپن میں دوستوں کے ساتھ جو باتیں کرتے وہ ان کی سمجھ میں نہ آتیں۔ وہ بچپن میں زیادہ شرارتی نہیں تھے، تاہم کچھ مثبت اور تعمیری شرارتیں ضرور کیں۔ ان کی والدہ ان سے بہت پیار کرتیں تاہم وہ انتہائی سخت مزاج بھی تھیں یہی وجہ تھی کہ پرویز بچپن میں بھی کسی غلط سرگرمی کی طرف متوجہ نہ ہو سکے۔ ان کے گھر میں مذہبی ماحول تھا اور وہیں سے ان کی نماز پنچگانہ کی پابندی برقرار ہے۔

ان کو ویرانوں اور کھنڈرات سے بہت لگاؤ ہے، بچپن میں ان کو تلاش کر کے اور وہاں جا کر سکون محسوس کیا کرتے۔ والدہ چوں کہ سخت  مزاج تھیں اس لیے ان کے ہاتھ سے مار بھی بہت کھائی، ایک مرتبہ کوئی شرارت کر کے بھاگے تو ان کی والدہ نے قینچی دے ماری جس سے ان کی کمر پر بہت بڑا زخم پڑ گیا، جس پر ان کی والدہ بہت دیر تک روتی رہیں۔

وہ دوستوں کے ساتھ جنگلوں اور ویرانوں کی سیر وغیرہ کو جایا کرتے تھے مگر انہوں نے شکار کبھی نہیں کیا کیوں کہ ان کو پرندے ہوا میں اڑتے اور چہچاتے ہوئے ہی اچھے لگتے تھے، خون میں لت پت نہیں۔ طبیعت کی یہ نازکی آج بھی ان میں موجود ہے اور آج بھی مرغی تک ذبح نہیں کر سکتے۔

کبھی ضرورت پڑے تو کسی سے ذبح کرواتے ہیں۔ تنہائی پسند ہیں اور بچپن میں بھی زیادہ تر اکیلے ہی رہے ہیں۔ 1969ء میں ایف اے کرنے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے اور گاؤں میں ہی ان کی تقرری ہوئی۔ 1978ء میں پرائیویٹ طور پر بی اے کیا، 1981ء میں ایم اے پشتو جب کہ 1986ء میں ایم اے اردو کیا۔ 2000ء میں پشاور یونیورسٹی سے پشتو میں پی ایچ ڈی کی اور یوں ڈاکٹر کا لاحقہ ان کے نام کا مستقل حصہ بن گیا۔ اپنی کامیابی کا تمام تر کریڈٹ اپنی والدہ کو دیتے ہیں کیوں کہ انہوں نے دن رات ایک کر کے ان کی کامیابی کی راہ ہموار کی ۔ ان ہی کی دعاؤں کے بل پر آگے بڑھتے گئے۔

بچپن میں انہوں نے تقریباً وہ تمام روایتی کھیل کھیلے جو عموماً دیہات وغیرہ میں کھیلے جاتے ہیں تاہم ان کو’’ لنڈے‘‘ کا کھیل بہت پسند تھا اور وہ اس کے ایک مانے ہوئے کھلاڑی بھی رہے۔ انہوں نے زندگی میں کبھی منشیات کا استعمال نہیں کیا، لڑکپن میں ایک مرتبہ چلم کا صرف ایک کش لگایا تھا جس کے بعد طبیعت خراب ہو گئی، اس وقت سے آج تک کسی نشہ آور چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ وہ ابھی بہت چھوٹے تھے کہ ان دنوں گاؤں کے ایک دکاندار محمود صادق کے پاس اخبار آیا کرتا اور وہ سکول جانے سے پہلے اخبار پڑھنے کے لیے پہنچ جایا کرتے۔

اس لیے ان کو ملکی حالات کے بارے میں بہت معلومات تھیں جس کی بناء پر وہ بڑوں کے ساتھ بھی ملکی معاملات پر خوب بحث  کرتے اور دوسرے دیہات سے بھی لوگ ان کے تبصرے سننے کے لیے آیا کرتے۔ انہیں کتابوں سے بھی بہت لگاؤ تھا جو شاعری کی طرف راغب کرنے کا باعث بنا۔ وہ ابھی آٹھویں جماعت میں ہی تھے کہ کسی کے  عشق میں گرفتار ہو گئے اور ان پر اس کا ایسا رنگ چڑھا کہ وہ گھنٹوں ویرانوں میں بیٹھ کر خلا میں گھورا کرتے، اس دوران ان پر اشعار کی آمد ہوتی جن میں ہجر کا رنگ بہت نمایاں ہوتا۔ انہوں نے اپنے ایک دوست کو شعر سنائے تو اس نے ان کو مجنوں و مہجور قرار دیا جو بعد میں ان کے نام کا حصہ بنا۔

ان کے بچپن، جوانی بلکہ پوری زندگی پر دریائے کابل کا بہت اثر ہے کیوں کہ ان کا گاؤں اس کے کنارے واقع ہے، وہ خوشی اور غمی کے کسی بھی موقع پر اس کے کنارے جا کر اس کی موجوں اور خنک ہوا کے ساتھ ان کو بانٹ لیا کرتے تھے۔ وہ دریائے کابل کو اپنے بچپن کا دوست قرار دیتے ہیں، انہوں نے بہت سی نظمیں اور غزلیں دریائے کابل کے کنارے ہی کہیں جن میں اس کی سحر انگیزی کا رنگ بھی ملتا ہے۔ خود کو ایک سست رفتار شاعر کا نام دیتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں ان کے مخصوص انداز تخاطب کو دیکھتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام نے اپنے ساتھ ملایا اور نائب صدر بنا دیا، تاہم وہ شروع سے باچا خان، غنی خان اور ولی خان سے متاثر تھے اور ان کی لگن جلد ہی ان کو عوامی نیشنل پارٹی میں لے آئی۔

وہ حیات خان شیرپاؤ کو بھی ایک بلند پایہ سیاست دان گردانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے پائے کے مدبر اور سیاست دان تھے۔ ان کے بقول حیات شیر پاؤ کے علاوہ وہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر پھوٹ پھوٹ کر روئے اور ان دونوں لیڈروں کی موت کو ملک و قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہیں۔

بھٹو دور میں پرویز مہجور کو جیل بھی جانا پڑا اور وہ مفتی محمود اور قاضی حسین احمد کے ساتھ ایک بیرک میں قید رہے۔ 1969ء میں انہوں نے پہلی پشتو ادبی تنظیم’’پختو ادبی ٹولنہ‘‘ کے نام سے بنائی اور کافی عرصہ تک اس کے جنرل سیکرٹری رہے۔ بہترین اور انقلابی شاعری کی وجہ سے انہیں مشاعروں کے ساتھ ساتھ جلسوں میں بھی مدعو کیا جاتا۔ ان کو سردی کا موسم بہت پسند ہے جب کہ ابھرتے ہوئے سورج کا منظر بہت بھاتا ہے۔ اس کے علاوہ گرمیوں کی لمبی دوپہر کو بھی اپنے لیے سحر انگیز قرار دیتے ہیں۔

ان کو اپنے ملک کے علاوہ افغانستان اور خاص طور پر اس کا شہر کابل بہت پسند ہے اور متعدد بار وہاں جا بھی چکے ہیں۔ تمام گھر والے ان سے بہت خوش ہیں کیوں کہ وہ ایک معتدل طبیعت کے مالک ہیں۔ تصوف کی تاریخ، اس کے رموز واصطلاحات سے اچھی طرح واقف ہیں، خصوصاً بازیدانصاری المعروف پیرروشن کی روشنائی تحریک اور اس سے وابستہ شاعروں کی تاریخ پرگہری نظررکھتے ہیں، اس سلسلے میں انہوں نے پشتوکے پہلے معلوم شاعر ملاارزانی خویشکی کی زندگی اور فن پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ حق دار ہونے کے باوجود ایوارڈز نہ ملنے کے سوال پر کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں رشوت، چاپلوسی اور گروپنگ کی وباء ایوارڈز کی تقسیم تک بھی پہنچ چکی ہے اور چوں کہ وہ ان چیزوں سے دور رہے اس لیے ایوارڈز سے بھی محروم ہیں۔

پرویز مہجور کو خدا نے چار بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا ہے۔ وہ کسی سیاسی گروپ سے وابستہ نہیں تاہم قوم پرستی اور وطن پرستی ان کی رگ رگ میں رچی بسی ہے۔ سیر و سیاحت کے لیے کسی آباد جگہ کی بجائے ویرانوں اور جنگلوں میں جاتے ہیں ۔

بہار کی نسبت خزاں میں زیادہ دل کشی محسوس کرتے ہیں اور اسے اپنا پسندیدہ موسم قرار دیتے ہیں۔1971ء میں اکبر بگٹی نے ان کے گاؤں خویشگی میں نیپ میں شمولیت کا اعلان کیا جس کو ایک یادگار لمحہ قرار دیتے ہیں۔ ملک کی پسماندگی اور مسائل کی اصل وجہ آمریت کو قرار دیتے ہیں، ان کے مطابق ملک کے لیے مشکلات کا دروازہ صدر ایوب نے کھولا، ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو آمریت کے خوف سے نکالا تاہم کچھ عرصہ بعد خود اسی کا شکار ہو گئے۔ ان کا اکثر کوئٹہ آنا جانا رہتا ہے، مری اور مینگل قبائل سے خصوصی مراسم ہیں۔ موسیقی کے بہت شوقین ہیں اور صحرا کی کوئل ریشماں کی آواز میں ایک خاص کشش محسوس کرتے ہیں۔

گھر میں دوستانہ ماحول قائم کر رکھا ہے تاہم مذہبی و مشرقی روایات بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی تحقیق سے انسانیت اور اپنی زبان کی خدمت کر سکیں۔ اپنی قوم کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ترقی پسند شاعری اور شعراء کو دل جمعی سے پڑھتے ہیں اور اس ادب کو بہترین قرار دیتے ہیں جو بامقصد ہو اور فن کے اصولوں پر بھی پورا اترے۔ جدید پشتو شاعری میں اجمل خٹک، قلندرمومند اور رحمت شاہ سائل کے بعد درویش درانی کو نئی نسل کا بہترین شاعر گردانتے ہیں۔ فلموں کے بہت شوقین رہے، پہلی فلم ’’دامن‘‘ اپنے ایک کزن کے ساتھ دیکھی۔

زمانہ طالب علمی میں ایک پرچے میں فلم کے حوالے سے اتنا جامع اور دلچسپ مضمون لکھا اور اس میں فلم کی پوری کہانی لکھی جس پر کل نمبرز بیس کے بجائے ان کے ٹیچر اسحاق نے ان کو بائیس نمبر دیئے، آج بھی اپنے سکول ٹیچر بخت روان کو بہت یاد کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی کو اپنے لیے مشغل راہ کہتے ہیں۔ صوفیانہ کلام کے ساتھ ساتھ ایسی شاعری اور موسیقی پسند کرتے ہیں جس میں ثقافتی رنگ ہو۔ عطاء اللہ نیازی اور نور جہاں کے پرانے گانے شوق سے سنتے ہیں۔ رفیق شنواری کی شاعری اورموسیقی دونوں کے دلدادہ ہیں، ستار سیکھنے کی بہت کوشش کی لیکن سیکھ نہیں پائے۔

اپنی شادی کو لو اور ارینجنڈ دونوں قرار دیتے ہیں کیوں کہ اس میں ان کی اور گھر والوں دونوں کی پسند شامل تھی۔ کھانا بنانا نہیں جانتے جب کہ کھانے میں سب کچھ پسند کرتے ہیں۔ گوشت اور سبزیاں شوق سے کھاتے ہیں۔ ویسے تو ان کا کام ہی تحقیق اور مطالعہ ہے، تاہم فارغ وقت میں بھی یہی کرتے ہیں۔ گھر میں مختلف موضوعات پر کتابوں کی اچھی خاصی لائبریری بنا رکھی ہے۔ کاظم خان شیدا، حمزہ شنواری، غنی خان کا کلام سن کر مسرور ہو جاتے ہیں۔ ہر قسم کا اسلحہ چلانا جانتے ہیں اور اسے دور حاضر کی ضرورت کہتے ہیں۔ جمالیات، رومانویت اور تصوف کو ایک دوسرے کا عکاس گردانتے ہیں، وہ ملکی حالات سے قطعی مطمئن نہیں اور اسے ایک بہت بڑی سازش کا نام دیتے ہیں اور وطن کی سلامتی کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔

ہر غلط بات پر ان کو غصہ آجاتا ہے، تاہم اتنی ہی جلدی اتر بھی جاتا ہے جس پر اکثر دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔ لطیفے سننا اور سنانا ان کو اچھا لگتا ہے۔ خواب، علم نجوم اور ہاتھ کی لکیروں پر کسی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ گھر کے لیے شاپنگ سب مل کر کرتے ہیں۔ تصنیف ’’تاریخ جمالیات‘‘ کو اپنی ہی داستان قرار دیتے ہیں۔ انتھراپالوجی کی تحقیق بڑے شوق سے کرتے ہیں۔ ان کے مطابق نصاب میں ترمیم اور اصلاح کی گنجائش موجود ہے۔

ان کے تئیں خودداری اور انا کسی شاعر، ادیب کی شخصیت کی خشت اول ہے، اس کے بغیر اس کی شخصیت کی عمارت نہ تومضبوط ہوسکتی ہے اور نہ ہی دلاویز۔ وہ بلاشبہ دل والے ہیں اور دل والوں کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی خوشیوں میں تو سارے جہاں کوشریک کرلیتے ہیں مگر اپنے غموں کی آگ کواپنی ذات تک ہی محدودرکھتے ہیں، اس شمع کی مانند جوروشنی کی شعاعیں توچاروں طرف بکھیرتی ہے مگر اپنے آنسوصرف اپنے دامن میں جمع کرتی رہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔