ڈرے ڈرے سپر اسٹارز

خرم علی راؤ  جمعـء 3 جنوری 2020

ہندوستانی فلمی دنیا پر ہمیشہ سے مسلمان فنکاروں نے راج کیا ہے اور اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ یوسف خان المعروف دلیپ کمار کو انڈین آل ٹائم گریٹ ایکٹرز میں اول مقام حاصل ہے ، یوسف خان نہ صرف بہت بڑے اداکار بلکہ بہت بڑے انسان بھی ہیں ۔

جب دلیپ صاحب شہرت اور مقبولیت کے عروج پر تھے اور بجا طور پر ہندوستانی فلمی صنعت کے صاحبِ عالم تھے تو ان کے دور میں بھی ہندو مسلم فسادات ہوا کرتے تھے اور مشہور مصنف اور ادیب خان آصف مرحوم نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایسے مواقعے پر دلیپ صاحب اپنی مقبولیت ، محبوبیت اور اپنے پرستاروں کی محبت کو استعمال کرتے ہوئے ان فسادات کی آگ بجھانے میں نہ صرف خود بھرپور کردار ادا کیا کرتے تھے بلکہ اپنے فلمی اثر ورسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ساتھی فنکاروں کو بھی اس کار خیر میں شریک کرکے ہزاروں لوگوں کو فسادات کی آگ سے بچانے کی سعی کیا کرتے تھے۔ جب حکومت پاکستان نے انھیں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز تمغہ امتیاز دینے کے لیے پاکستان مدعوکیا ، تو اس وقت بھی ہندوستان پر بی جے پی کی ہی حکمرانی تھی اور اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے۔

بال ٹھاکرے نے جوکہ وہاں کے مشہور قوم پرست رہنما تھے اور بڑے تیزوتند اور خونخوار قسم کے نیتا تھے انھوں نے اس بات پر ایک طوفان اٹھا دیا کہ دلیپ صاحب پاکستان نہ جا پائیں اور تمغہ امتیاز وصول نہ کریں لیکن یوسف صاحب اٹل جی سے مشورے کے بعد پاکستان آئے اور اپنا ایوارڈ وصول کیا جو انھیں انسانی خدمات انجام دینے پر دیا گیا تھا۔ فسادات کے زمانے میں ان کی کوٹھی کے وسیع و عریض لان میں تنبو اور قناتیں لگاکر کئی کئی روز تک فسادات کے سیکڑوں متاثرین کو نہ صرف پناہ دی جاتی تھی بلکہ ان کے طعام و قیام کے انتظامات بھی کیے جاتے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ ان متاثرین میں مسلمانوں کی اکثریت کے ساتھ ساتھ ہندو ،سکھ ، دلت اور عیسائی بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ ہندوستانی فلمی دنیا کے سب سے بڑے سپر اسٹار کا احوال تھا۔

وقت کے رنگ دیکھیے کہ آج بھی تقریبا دو دہائیوں سے ہندوستانی فلموں کا راج سنگھاسن تین مسلمان فنکاروں کے درمیان گھومتا رہتا ہے کبھی عامر خان نمبر ون ،کبھی شاہ رخ خان اورکبھی سلمان خان، ان کے علاوہ سیف علی خان بھی اول درجے کے ہیروز میں شمارکیے جاتے ہیں لیکن آج کے خانزکو اگر ڈرے ہوئے سپر اسٹارزکہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

دیکھیے نا بی جے پی سرکار نے شہریت ترمیمی بل پاس کر لیا ، سارے ہندوستان میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور اس بل کا سیدھا سیدھا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہندوؤں کے علاوہ دیگر اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کا ہندوستانی شہریت پر یا تو بالکل حق نہیں بنتا یا پھر بہت ساری ناروا اور مشکل تفتیش کے بعد بنتا ہے۔ اس امتیازی قانون نے سارے ہندوستان میں آگ لگا دی ہے۔ اس کا ایک فوری اور حقیقی نقصان تو بی جے پی سرکار اور مودی جی کو ریاست جھاڑکھنڈ میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں زبردست شکست کی صورت میں پہنچ ہی گیاہے۔ جلسے ، جلوسوں ، مظاہروں کی اس بڑھتی ہوئی لہر پر قابو پانے کے لیے مودی سرکار نے ریاستی طاقت کا بے رحمانہ استعمال شروع کر دیا ہے۔

جس کے بعد یہ سارا معاملہ تشدد اور انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے۔آپ مودی سرکارکی اس سارے معاملے میں حواس باختگی ،گھبراہٹ اور پریشانی کا اندازہ اس بات سے بخوبی کرسکتے ہیں کہ مودی مہاشے نے سیلابی ریلے کی طرح امڈتے ہوئے ،آئے ہوئے اور مسلسل بڑھتے ہوئے رد عمل پر جس سے بی جے پی کی ٹانگیں محاورتاً نہیں حقیقتاً لرزتی جا رہی ہیں اورمودی سرکار کا سنگھاسن بظاہر ڈولتا نظر آرہا ہے تو اس سارے منظر نامے میں بی جے پی سرکار نے وہی پرانا راگ الاپنا شروع کردیا ہے اور توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان دشمنی کا اور جنگ کا ماحول بنانا شروع کر دیا ہے جو اس کی شاید ایک اور حماقت ثابت ہوگی۔

لیکن اس سارے معاملے پر ہندوستانی فلموں میں حق سچ کے لیے کشتوں کے پشتے لگا دینے والے ہندو اور مسلم سپر اسٹارز خاص طور پر خانزکی مسلسل خاموشی اس بات کی غماز ہے کہ وہ کتنے ڈرے ہوئے ہیں۔ بس ابھی چند دن پہلے صرف سیف علی خان نے اور وہ بھی صحافی کے سوال پوچھنے پر ایک ڈرا سہما سا فراری اور جان چھڑاؤجواب دیا کہ وہ ابھی اس سارے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایک آدھ بات کرکے چپ سادھ لی جس پر انھیں سوشل میڈیا میں بہت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن بڑے والے خان ہیروز تو گویا بالکل صم بکم بنے ہوئے اس سارے معاملے سے جیسے لاتعلق اورگم صم سے ہیں۔

چلو ہندو سپر اسٹارزکی تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ تقریبا سب ہی لاکھ خود کو سیکولر اور رنگ و مذہب سے ماورا ظاہر کرنے کے باوجود وہ اندر سے کٹر ہندو ہوتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال سابق سپر اسٹار امیتابھ بچن نے پیش کی کہ جب انھوں نے پنڈتوں اور سادھوؤں کے کہنے پر اپنے بیٹے ابھیشک بچن اور ایشوریا رائے کی شادی پرنحوست کے ڈر سے کسی مسلمان دوست اورکولیگ کو مدعو نہیں کیا تھا ، لیکن ان خانزکو توکچھ بولنا چاہیے اور اگر وہ اس خاموشی اور اس بنیادی انسانی حقوق کے سرا سر منافی بل پر اپنے رد عمل سے گریزکی کوئی بھی وجہ پیش کریں گے یا اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے کوئی بھی جوازگھڑیں گے تو انھیں یاد رہنا چاہیے کہ دلیپ صاحب نے بھی کم وبیش ایسے ہی حالات اور مواقعے پر بنا ڈرے نہ صرف اپنا رد عمل دیا بلکہ اس نفرت انگیز سوچ کے خلاف کسی بھی نقصان کو خاطر میں لائے بغیر عملی جدوجہد بھی کی تو وہ کام یہ موجودہ سپر اسٹارز کیوں نہیں کررہے یا کرسکتے تو اس کی بس ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ مہان بھارت میں مسلمانوں کو اتنا ڈرا دیا گیا ہے کہ اس سطح کی مشہور، بارسوخ اور بااثر شخصیات کو بھی دم مارنے کی جرات نہیں، حالانکہ ان تینوں اداکاروں میں عامر خان سماجی بھلائی کے اپنے ٹی وی پروگراموں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور مختلف ملکی معاملات میں اکثر و بیشتررائے زنی کرتے رہے ہیں۔

دراصل لگتا یہ ہے کہ اب وقت کا دھارا مودی سرکار کے خلاف ہوگیا ہے اور بی جی پی سرکارکا خراب وقت شروع ہوگیا ہے، نیز پچھلے چند برسوں میں پے در پے اقلیت اور مسلمان دشمنی پر مبنی اقدام کرتے کرتے اور ان اقدامات پرکوئی خاطر خواہ رد عمل نہ آنے پر بی جے پی بہت پر اعتماد ہوگئی تھی کہ یہ بل بھی ٹھنڈے پیٹوں جنتا ہضم کرلے گی مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے بات ہاتھ سے اس طرح نکلتی جارہی ہے جیسے ریت مٹھیوں سے پھسلتی جاتی ہے۔

ظلم کا غیر انسانی نظام ٹوٹنا شروع ہوگیا ہے اورشاید مظلوم کشمیریوں کی آہیں اور بد دعائیں رنگ لانا شروع ہوگئی ہیں اور ان مظاہروں اور حالات کی وجہ سے مصنوعی طریقوں سے تخلیق کردہ سیکولر انڈیا کے چہرے سے نقاب سرک گیا ہے اور دنیا کے سامنے ہندو توا کی اصل شکل آگئی ہے اور یہ سارے حالات عالمی سطح پر ہندوستان کے لیے زبردست خفت اور بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ تو ان مہان کلاکاروں کو سیکھنا یہ ہے کہ ڈرنا چھوڑیئے اور حق سچ کی بات کیجیے اور آپ کی ہی فلمی دنیا کی بڑی مشہور فلمی کہاوت ہے نا کہ ’’ جو ڈرگیا سمجھو مرگیا‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔