غریبوں کی موت پر امیروں کی مذمت

احسن اقبال خان  منگل 21 جنوری 2020
اپنے مال کا کچھ حصہ ان غربا، یتیموں اور مسکینوں کےلیے مخصوص کرنا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

اپنے مال کا کچھ حصہ ان غربا، یتیموں اور مسکینوں کےلیے مخصوص کرنا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

ہمیں اس بات پر مکمل یقین رکھنا چاہئے کہ انسان تب ہی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے جب اللہ کے ہاں اس کا وقتِ مقرر پورا ہوچکا ہوتا ہے۔ اسی لیے انسان کا مر جانا کوئی حیرت کی بات نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ لیکن کبھی کبھار انسان کچھ اس انداز سے اپنی زندگی ختم کر ڈالتا ہے کہ اپنے رفقا و اقربا کو غموں کے سمندر میں ڈبو جاتا ہے۔ لیکن اس طرح وہ اپنی زندگی کیوں ختم کرتا ہے، پس پردہ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ وہ وجوہات تحقیق کی روشنی میں ظاہر ہوتی ہیں، اور بعض دفعہ مرنے والا دنیا والوں کو بتا جاتا ہے کہ مجھے اس کام پر کس چیز نے برانگیختہ کیا۔ چنانچہ ہمیں چاروں اطراف سے ان اسباب کی عدم دستیابی پر مذمت سننے کو ملتی ہے جو متوفی کو میسر نہ تھے۔

چند روز پہلے کی بات ہے میڈیا کی تمام اقسام سے ہمیں کراچی کے علاقہ ابراہیم حیدری کے رہائشی ایک غریب باپ کی خودکشی کرنے کی دردناک خبر موصول ہوئی۔ اور بڑے زور و شور سے یہ بات بھی بتائی گئی کہ چار بچوں کے باپ نے غربت سے تنگ آکر یہ قدم اٹھایا ہے، اور ساتھ ہی وزیراعظم کے نام لکھے گئے ایک خط کے تذکرے بھی ہونے لگے، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پھر ہمارے لوگ اس سانحے کا ذمے دار صرف حکومت کو ٹھہرا کر پرزور مذمت کرنے لگے، اور کچھ لوگوں نے موقع کو غنیمت سمجھ کر سیاست چمکانے کی بھی خوب کوشش کی۔

آج کل انٹرنیٹ کا دور ہے۔ کسی ایک بات کو سرچ کرو تو اس کے بے شمار لنک ہماری اسکرین پر ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ جملہ ’’چار بچوں کے باپ کی خودکشی‘‘ بے شک اردو میں ہی لکھ کر گوگل پر سرچ کرلیا جائے، تو نکلنے والے نتائج کم از کم ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرا دیں گے کہ کتنے ہی ایسے باپ ہیں جو چار بچوں کے تھے، وہ خودکشی کر چکے ہیں۔ طریقہ کار سب کا الگ الگ ضرور تھا، لیکن خودکشی کرنے کی وجہ آپ کو تقریباً ایک ملے گی اور وہ بے روز گاری اور غربت سے تنگی ہے۔ چند کا ذکر سپرد قلم کرتا ہوں۔

مؤرخہ 7 فروری 2019 کی خبر ہے کہ ’’پولیس کے مطابق چوہنگ کا رہائشی صدیق، جو چار بچوں کا باپ تھا، گزشتہ تین ماہ سے صدیق کے پاس گھر چلانے کےلیے کوئی ڈھنگ کا روزگار نہیں تھا اور اکثر گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ لڑائی رہتی تھی۔ جس کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر صدیق نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔‘‘

5 ستمبر 2019 کی خبر ہے کہ ’’بیماری اور بے روزگاری سے تنگ فرید ٹاؤن کے چار بچوں کے باپ محمد ایوب بٹ نے نہر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔‘‘

مؤرخہ 3 دسمبر 2019 کی خبر ہے کہ ’’لاڑکانہ میں چار بچوں کے معذور باپ نے بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرلی‘‘۔ تفصیلات کے مطابق دڑی تھانہ کی حدود میں بلاول کالونی کے رہائشی اللہ بخش سومرو نے خود کو مبینہ طور پر گھر میں لگے درخت سے لٹکا کر خودکشی کی۔ واضح رہے اسی روز معذور افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کےلیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں دن منایا جارہا تھا۔

ان تمام واقعات کے رونما ہونے کے بعد بہت سے لوگ مذمت کرتے نظر آتے ہیں، جن میں حکومتی نمائندے بھی شامل ہیں، فیکٹریوں کے مالک بھی، سرکاری عہدیدار بھی اور پرائیویٹ کاروباری بھی۔ لگژری انداز سے زندگی گزارنے والے بھی اور خیموں کے اندر رہنے والے بھی، ڈراموں اور فلموں کے ایکٹر بھی اور ڈائریکٹر بھی، لکھاری بھی اور قاری بھی۔ غرض یہ کہ ہر شعبہ سے متعلق انسان ان واقعات پر غم زدہ نظر آتا ہے۔

لیکن کیا صرف غم زدہ ہوجانا اور غریبوں کی موت پر امیروں کا مذمت کرنا اس طرح کے واقعات کے سدباب کےلیے کافی ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی خواہشات کو ترک کرکے کسی کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔ اپنے مال کا کچھ حصہ ان غربا، یتیموں اور مسکینوں کےلیے متعین کرنا چاہیے۔ ہوا میں اڑ کر زندگی گزارنے سے بہتر سے زمین پر دھیرے سے چل کر زندگی کو بسر کیا جائے کہ زمین والوں کی ضرورت کا ہمیں کچھ احساس ہو سکے۔

بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا سنت رسولؐ بھی ہے۔ آپؐ نے غربا اور مساکین سے مدد پر بہت زور دیا ہے۔ ایک دفعہ آپؐ نے دعا فرمائی اے اللہ! مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھ اور مسکینی ہی میں موت دے اور میرا حشر بھی مساکین کے ساتھ فرما۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وجہ دریافت کی، تو آپؐ فرمانے لگے مساکین جنت میں اغنیا سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ اے عائشہ! آپ مسکین کو کھجور کو ٹکڑا ہی کیوں نہ دیں لیکن اسے خالی ہاتھ مت لوٹانا۔ اے عائشہ! مسکینوں سے محبت کرتی رہیں، اور ان کو اپنے قریب رکھیں، اللہ قیامت کے دن آپ کو اپنے قریب رکھے گا۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ اور ایک جگہ آپؐ نے فرمایا مجھے اپنے کمزوروں میں تلاش کرو، تمہیں اپنے ضعفا کی وجہ سے روزی دی جاتی ہے اور مدد کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ اللہ نے ہمیں غربا اور مساکین کا درد عملی طور پر سمجھانے کی خاطر رمضان کا مہینہ دیا، جس میں انسان کچھ وقت کےلیے روزہ رکھتا ہے، بھوک بھی لگتی ہے، پیاس بھی لگتی ہے۔ لیکن یہ امید بھی ہوتی ہے کہ غروب آفتاب کو افطار کرلیں گے۔ لیکن دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو نجانے کب سے بھوکے ہیں، اور انہیں کسی خاص وقت کی امید بھی نہیں کہ انہیں کچھ کھانے کو ملے گا، یا ان کو کوئی کھلائے گا۔ ایسے بے سہارا لوگوں کی امید بننے کی ضرورت ہے۔

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ غربت کی وجہ سے غریب کی موت پر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں، اور سوچیں کہ کیا اس کا ذمے دار صرف کوئی خاص طبقہ ہے یا ہر وہ شخص جس نے سب کچھ دیکھتے، سنتے آنکھوں کو بند رکھا۔ تو اس سوچ و فکر سے جو نتیجہ اخذ ہو اس پر بنیاد رکھتے ہوئے صرف قولاً مذمت نہ کیجئے بلکہ عملی مذمت کرتے ہوئے ان بے کسوں کی مدد کرنے میں اپنے وسعت کے مطابق حصہ ڈالئے کہ غریب کی مدد سے زمین والے بھی خوش ہوں گے، پیارے نبیؐ کی عظیم سنت ہر عمل بھی ہوگا، آسمان والا بھی رحمتیں برسائے گا، اور یہ بھی ممکن ہوجائے گا کہ آئندہ اس طرح کے کسی واقعے پر مذمت کرنے کی نوبت بھی نہ آئے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔