یہ جنگ کس کی ہے!

نصرت جاوید  جمعرات 14 نومبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پاکستان کا ان دنوں اصل بحران یہ ہے کہ ہمیں جو سیاسی رہنما ملے ہیں وہ کتابیں تو دور کی بات ہے اخبارات بھی غور سے نہیں پڑھتے۔ ان کے مداحین کی اکثریت نے ’’خدا حافظ‘‘ کی جگہ ’’اللہ حافظ‘‘ کہنے کی عادت اپنانے کے بعد خود کو ’’صالح مسلمان‘‘ بنا لیا ہے۔ کتابوں سے رجوع وہ بھی نہیں کرتے۔ اپنے اسمارٹ فونوں اور لیپ ٹاپ کو تحقیق کے لیے کم اور اپنے گرانقدر خیالات کو غلط اور زیادہ تر غیر مہذب زبان میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ’’علم‘‘ کا سب سے بڑا منبع مجھ جیسے سیاپا فروش ہیں جنھیں ’’سرخی پائوڈر‘‘ لگا کر ٹیلی وژن اسکرینوں پر ’’نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز‘‘ کے لیے مختص پروگراموں کو چلا کر Ratings لینا ہوتی ہے۔ ’’علم‘‘ کے بھرپور فروغ کے اس موسم میں سڑک چلتے کسی راہ گیر کو روک کر پوچھ لیجیے۔ ایسے لوگوں کی بے پناہ اکثریت آپ کو فوراََ بتا دے گی کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ’’پرائی جنگ‘‘ ہے۔ جنرل مشرف نام کے ایک فوجی آمر نے اس جنگ کو ہم پر مسلط کیا تھا۔ جیسے ہی ہم ’’امریکا کی اس جنگ‘‘ سے باہر آ گئے پورے ملک میں امن و سکون آ جائے گا۔ مسجدیں، امام بارگاہیں، صوفیاء کے مزار اور دیگر پاکستانیوں کی عبادات گاہیں محفوظ ہو جائیں گی۔ غیر ملکی سرمایہ کار اپنے ذاتی طیاروں میں یہاں پہنچ کر قطاروں میں کھڑے ہو کر ہماری حکومت سے معلوم کرنا شروع کر دیں گے کہ وہ کونسے بڑے منصوبے ہیں جو مناسب رقوم نہ ملنے کی وجہ سے فائلوں سے نکل کر زمین پر نظر نہیں آ رہے۔

’’پرائی جنگ‘‘ کا سیاپا سن سن کر میرے تو کان پک گئے ہیں۔ خون کھولتا رہتا ہے۔ بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے گزشتہ 3 برس سے ہر صبح ناشتے کے بعد ایک گولی ضرور کھانا ہوتی ہے۔ اس وقت سے بہت خوف آتا ہے جب مجھے رات کو سونے سے پہلے بھی یہی گولی ایک خواب آور گولی کے ساتھ نگلنا ضروری ٹھہرے۔ صرف اپنے دل کی بھڑاس کو کم کرنے کے لیے جان کی امان پاتے ہوئے سوال صرف یہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان بن جانے کے بعد جب ہم نے اقوام متحدہ کارکن بننا چاہا تو وہ کون سا واحد ملک تھا جس نے اسے روکنا چاہا۔ آپ کی سہولت کے لیے یہ اشارہ ضرور کر دیتا ہوں کہ وہ ملک ہمارا ’’ازلی دشمن‘‘ بھارت نہیں تھا۔ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں سے ہم جست لگا کر 1960ء کی دہائی میں چلے جاتے ہیں اور بس یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’پختونستان چوک‘‘ کون سے ملک کے دارالخلافہ میں قائم تھا جہاں ایک مخصوص دن سرکاری سطح پر ایک تقریب ہر سال منعقد ہوا کرتی تھی اور وہ اس ملک کے سرکاری ریڈیو سے براہِ راست نشر ہوا کرتی تھی۔ اب ایک جست اور لگاتے ہیں اور 1970ء کی دہائی تک پہنچ جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ان دنوں پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ اس وقت کے سرحد میں ان کی حکومت نہ تھی۔ وزیر اعلیٰ مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود ہوا کرتے تھے۔ ایک اور جماعت تھی نیشنل عوامی پارٹی۔ خان عبدالولی خان اس کے سربراہ تھے اور وہ ’’سیکولر‘‘ جماعت ’’دیوبندی اسلاف‘‘ کی نمایندہ جمعیت العلمائے اسلام کے ساتھ ایک مخلوط حکومت بنائے ہوئے تھی۔ ایسا ہی معاملہ بلوچستان کا تھا۔ بھٹو صاحب نے مگر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کو برطرف کر دیا اور مولانا مفتی محمود نے احتجاجاََ استعفیٰ دے دیا۔

ہمارے ہاں اُکھاڑ پچھاڑ ہوئی تو افغانستان میں بھی ظاہر شاہ کی بادشاہت ختم کر کے اس کا ایک انتہائی قریبی رشتے دار سردار دائود وہاں کا خود ساختہ صدر بن گیا۔ دائود نے خود کو مستحکم کرنے کے لیے اپنے اقتدار کے پہلے چند مہینوں میں افغانستان کے روایتی حلیف یعنی سوویت یونین سے تعلقات کو مزید وسعت دی۔ اس کی وجہ سے وہ چند دنوں کے لیے اپنے یہاں کے نام نہاد کمیونسٹوں کی سرپرستی بھی کرتا رہا۔ افغانستان کے ’’اسلام پسندوں‘‘ نے خود کو مجبور اور تنہا پایا۔ منور حسن صاحب سے پہلے قاضی حسین احمد جماعت ِ اسلامی کے امیر ہوا کرتے تھے۔ اپنے انتقال سے چند روز قبل قاضی صاحب نے بڑے فخر کے ساتھ یہ کہانی پوری تفصیل سے اپنے طویل مضامین میں لکھ ڈالی تھی کہ برہان الدین ربانی، گل بدین حکمت یار اور اور احمد شاہ مسعود نے کس طرح ان سے روابط استوار کیے۔ قاضی صاحب نے انھیں اس وقت کے IGFE مرحوم نصیر اللہ بابر تک پہنچایا۔ ان لوگوں کے پیروکاروں کو اٹک کے قلعے میں جنگی تربیت دی گئی۔ ظاہر ہے یہ تربیت بھارت کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے نہیں افغانستان میں دائود حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دی گئی تھی۔ جواز اس کا یہ تھا کہ افغانستان ہمارے بلوچ اور پشتون ’’علیحدگی پسندوں‘‘ کی مدد کر رہا تھا۔ پھر دائود بھی نہ رہا اور اس کے بعد کی کہانی سے آپ پوری طرح واقف ہیں۔

اس کہانی کی ابتداء مگر بہت کم لوگوں کو یاد ہے۔ افغانستان میں جب نام نہاد ’’انقلابِ ثور‘‘ آیا تو اس وقت کے پاکستان قومی اتحاد میں شامل جماعت اسلامی اور نواب زادہ نصر اللہ خان کی PDP نے مشترکہ طور پر مطالبہ کیا کہ افغانستان جیسے ’’برادر اسلامی ملک‘‘ میں ’’کمیونسٹ حکومت‘‘ کو تسلیم نہ کیا جائے۔ ایران میں لیکن رضا شاہ ابھی تک شہنشاہ تھا۔ اسے امریکا نے پاکستان، ایران، افغانستان اور خلیجی ممالک کے معاملات کو قابو میں رکھنے کے لیے ’’علاقائی تھانیدار‘‘ متعین کر رکھا تھا۔ اس نے جنرل ضیاء پر زور دیا کہ نور محمد ترہ کئی سے روابط بڑھائے جائیں۔ مگر امام خمینی نے شاہ کو فارغ کرا دیا۔ روسی کمیونسٹ اپنے ہمسایے میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ سے گھبرا گئے۔ انھوں نے افغانستان کو اپنے حلقہ اثر میں اور زیادہ شدت کے ساتھ جکڑنا چاہا اور بالآخر 27 دسمبر 1979ء کی رات اپنی فوجوں کو بھیج کر ببرک کارمل کو افغانستان کا صدر بنا دیا۔

ببرک کارمل کی حکومت بن جانے تک امریکا کو افغانستان میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ روسی قبضے کے بعد بھی صدر کارٹر نے پاکستان کو صرف 400 ملین ڈالر کی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ضیاء الحق نے اسے حقارت سے ’’مونگ پھلی‘‘ ٹھہرا کر مسترد کر دیا۔ کارٹر کے بعد ریگن آیا تو پوری طرح سمجھ گیا کہ ضیاء الحق جیسے غازی کی مدد سے وہ روس کے ساتھ ویت نام کا بدلہ لے سکتا ہے۔ مختصر لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ افغانستان کے ساتھ جنگ 1947ء سے ہماری ’’اپنی‘‘ رہی ہے۔ ہماری اس جنگ میں ’’امریکا‘‘ کو بلکہ ہم نے بڑی ہوشیاری سے شامل کیا۔ وہ شامل ہوا تو سعودی عرب سے بھی ریال بوریوں میں بھر کر آنا شروع ہو گئے۔ امریکی اسلحے اور ڈالر کے ساتھ جب تک افغانستان میں ہم روسیوں کے خلاف لڑتے رہے تو یہ ’’جہاد‘‘ کہلایا۔ جنرل مشرف نے افغانستان میں وہی کچھ کرنا چاہا جو اس کے پیشرو آمر نے کیا تھا تو اسے ’’پرائی جنگ‘‘ قرار دے دیا گیا۔ خدارا سچ بولیے۔ ہم افغانستان میں ’’اپنی مرضی‘‘ کی حکومت دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب تک ایسے نہیں ہو گا یہ جنگ ’’ہماری‘‘ ہی رہے گی۔ امریکا تو 2014ء کے آخر تک اس پورے قضیے سے لاتعلق ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔