- وسیم اکرم نے پانڈیا کے ساتھ سلوک کو ’برصغیر‘ کا مسئلہ قرار دے دیا
- فخرزمان میچ فنش نہ کرنے پر کف افسوس ملنے لگے
- ہیڈ کوچ اظہر محمود نے شکست میں بھی مثبت پہلو تلاش کرلیے
- راشد لطیف نے ٹیم کی توجہ منتشر ہونے کا اشارہ دیدیا
- اسرائیلی بمباری میں شہید حاملہ خاتون کی بعد از وفات پیدا ہونے والی بیٹی بھی چل بسی
- تصویر کو شاعری میں بدلنے والا کیمرا ایجاد
- اُلٹی چلنے والی گاڑی سوشل میڈیا پر وائرل
- امریکا میں شرح پیدائش کم ترین سطح پر آگئی
- نظام انصاف ٹھیک ہونے تک کچھ ٹھیک نہیں ہوگا:فیصل واوڈا
- پہلا ٹی ٹوئنٹی: ویسٹ انڈیز نے پاکستان ویمن ٹیم کو ایک رن سے شکست دے دی
- خیبر پختونخوا: صوبائی وزراء اور مشیروں کی مراعات میں اضافے کی سمری تیار
- فوج سے جلد مذاکرات ہوں گے، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بات ہوگی، شہریار آفریدی
- چین میں پاکستان کیلئے تیار ہونے والی پہلی ہنگور کلاس آبدوز کا افتتاح
- وزیراعظم کی ہدایت پر کرپشن میں ملوث ایف بی آر کے 13 اعلیٰ افسران عہدوں سے فارغ
- پتوکی کے دو بے گناہ نوجوان بھارت سے رہا ہوکر پاکستان پہنچ گئے
- بی آر ٹی کا مالی بحران سنگین، حکومت کا کلومیٹر کے حساب سے کرایہ بڑھانے کا فیصلہ
- محموداچکزئی کے وارنٹ گرفتاری جاری، 27 اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم
- چینی صدر اور امریکی وزیرخارجہ کی شکوے شکایتوں سے بھری ملاقات
- لاہور؛ 10 سالہ گھریلو ملازمہ پراسرار طور پر جھلس کر جاں بحق، گھر کا مالک گرفتار
- اغوا برائے تاوان کی واردات کا ڈراپ سین؛ مغوی نے دوستوں کے ساتھ ملکر رقم کا مطالبہ کیا
آپریشن ٹکہ ٹوکہ
اب یاد نہیں وہ کون بزرگ تھے جو لمبے لمبے مضامین لکھاکرتے تھے، ان سے ایک دوست نے شکایت کی کہ آپ بہت طویل لکھتے ہیں، ذرا مختصرلکھاکریں تو انھوں نے جواب دیاتھا کہ مختصرلکھنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ بظاہر ایک لطیفہ لگتاہے لیکن اصل میں ایک بہت بڑا ’’حقیقہ‘‘ہے۔ مختصر لکھنے اور کہنے کے لیے وقت بھی چاہیے، سمجھ بھی، علم بھی اور ہنر بھی۔دنیا کے دو بڑے ان ’’فلسفیوں‘‘کے بارے میں تو آپ کومعلوم ہی ہوگا جن کی کماحقہ قدرکرنے کے لیے لوگوں نے ان کو پاگل خانے پہنچایا تھا۔اور پھر ان کا شغل تھا ہنسنا ہنسانا۔جس کے لیے انھوں نے یہ طریقہ ایجاد کیاتھاکہ ایک کہتا، صحفہ فلاں تو دوسرا ہنس پڑتا، ہنستا چلاجاتا اور پھربولتا۔اور صحفہ نمبر فلاں تو پہلے والا بھی ہنسنے اور قہقے لگانے لگتا۔آخر میں یہ عقدہ یوں کھلاکہ دونوں نے لطیفوں کی ایک ہی کتاب پڑھی ہوئی تھی۔ یہ ایک ہنر یا فن یاکمال ہے جسے بزرگوں نے ’’سمندر‘‘کو کوزے میں بند کرنا کہاہے اور یہ بہترین مثال ہے۔
سمندر کو تو سب دیکھتے ہیں، اس میں کشتیاں جہاز چلاتے ہیں، مچھلیاں پکڑتے ہیں اور نہ جانے کیا کیاکرتے ہیں لیکن اس سمندرکو ’’کوزے‘‘ میں ’’مرتکز‘‘ کرنا ہرکسی کاکام نہیں۔ مثلاً ہمارے پاکستان میں انصاف کی باتیں سدا سے ہوتی چلی آرہی ہیں۔ سستا انصاف، دہلیز پر انصاف، یہ انصاف وہ انصاف۔لیکن اسے صرف ایک لفظ ’’پٹائی‘‘ کے پٹارے میں ڈالنا ہرکسی کاکام نہیں تھا۔انگریزی زبان میں یہ ’’سمندر کو کوزے‘‘ میں بند کرنے کا رواج عام ہے۔یواین او۔آئی ایم ایف، یوکے، یوایس ایس آر،سی آئی اے،ایف بی آئی۔کہ سنتے ہی گویا ذہن میں دبستان کھل جاتاہے۔یا ہمارے پاکستان میں واپڈا،پی آئی اے۔پی ٹی وی،بی آرٹی ،پی ڈبلیو ڈی سارے کوزے ہی ہیں جن میں سمندر مع مگرمچھوں کچھووں، شارکو اور آکٹوپسوں بلکہ سمندری قزاقوں تک سب کے سب موجود ہوتے ہیں۔نپرا،پیمرا لوگرا بوگرا موگرا کانام ہی کافی ہے۔ ان تمام نادید اورناشنیدہ کاموں کے لیے جویہ کرتے ہیں اور ذرا بھی نہیں شرماتے، اسے ہم شارٹ ہینڈ کی طرز پر ’’شارٹ ٹاک’’بلکہ ٹک ٹاک یا ٹک ٹوک بھی کہہ سکتے ہیں۔
یہ آخری لفظ پشتو میں بہت زیادہ مروج ہے۔ ٹک ٹوک،ٹکہ ٹوکہ بڑے وسیع معنی سمندر ہیں مثلاً کوئی کچھ بھی کام کررہاہو۔پوچھو تو۔کچھ نہیں بس ٹک ٹوک کر رہاہوں۔ہم نے بہت کوشش کی کہ’’ٹک ٹوک‘‘کا اردو میں ترجمہ کریں لیکن نہیں ہوسکا ،کم سے کم دو درجن اردو الفاظ کو ٹک ٹوک کرکے کاٹ پیس کرچھان پھٹک کر اور کوفتہ کر کے اس کا جوہر نکالیں تب کہیں جاکر ٹک ٹوک کاکچھ ادھا ادھورا مفہوم اس میں آسکے گا، پہلے تو دنیا میں ہونے والے نہ ہونے والے کردہ ناکردہ تمام ’’کاموں‘‘ کو ٹک ٹوک کہاجاسکتاجولیڈر کررہے ہیں، حکومت کررہی ہے، تاجرکررہے ہیں، شاہ وگدا کررہے ہیں سب’’ٹک ٹوک‘‘ ہیں جوکچھ حاصل ہے۔روپیہ پیسہ زر وجواہر پونڈ روپیہ ریال بھی ٹک ٹوک ہے۔
کسی عرب ملک کاشاہی خاندان اور پاکستان کا تباہی خاندان سب کے سب ٹک ٹوک ہیں۔ عمران خان، محمودخان،عاطف، شوکت خان مراد سعید خان، فیصل وڈا خان،فواد چوہدری یہاں تک فردوس عاشق اعوان اور زرتاج گل بھی جوکہہ رہے ہیں کررہے ہیں بھر رہے ہیں سب’’ٹک ٹوک‘‘میں آتے ہیں بلکہ اگر اسے مزید مختصر اور چھوٹے کوزے میں ڈالنا ہو تو ’’ٹکہ ٹوکہ‘‘ کرلیجیے۔کسی بھی کسان سے مزدور سے معمار سے دکاندار سے یہاں تک قاتل ومسیحا اور سنار ولوہار سے پوچھئے۔ کیا کر رہے ہو؟جواب ہوگا بس’’ٹکہ ٹوکہ‘‘کررہے ہیں۔ ’’ٹکہ ٹوکہ‘‘ کی اس ہمہ گیریت کولے کرہم نے اور ہمارے ’’ٹٹوئے تحقیق‘‘ نے ایک تحقیقی پراجیکٹ ’’آپریشن ٹکہ ٹوکہ‘‘ لانچ کیا تاکہ دیکھیں کہ دنیا میں ایسی کوئی چیز یاکام یا مقام بھی موجود ہے یا نہیں جہاں’’ٹکہ ٹوکہ‘‘نہ ہو۔لیکن افسوس کہ تاحال ہمیں کوئی سراغ نہیں ملا بلکہ’’ٹکہ ٹوکہ‘‘ نہیں ملا ہے اور ابھی تک ہم’’ٹکہ ٹوکہ‘‘کررہے ہیں کہ اور کچھ نہ ہو توکم ازکم’’ٹکہ ٹوکہ‘‘تو چلتارہے۔
دنیا جہاں کے تمام ’’ٹکہ ٹوکہ‘‘دیکھنے کے بعد اچانک ہمارے ٹٹوئے تحقیق نے ٹکہ ٹوکہ بلند کیا اور نعرہ لگایا ’’آئی گاٹ اٹ، آئی گاٹ اٹ۔ہم نے ڈانتے ہوئے کہا یہ کیا ’’ٹکہ ٹوکہ‘‘ہے، ٹٹو کا پتر بن اور جو کچھ’’ٹکہ ٹوکہ‘‘ہے صاف صاف ٹکہ ٹوکہ یعنی بیان کر۔بولا،کیوں نہ اپنے اس وطن عزیز حیرت انگیز عبرت انگیز لطف انگیز،سب کچھ انگیز کانام’’ٹکہ ٹوکہ‘‘ نہ رکھ لیا جائے کہ دنیا کا کوئی ایسا’’ٹکہ ٹوکہ‘‘نہیں جو یہاں موجود نہ ہو، پایا نہ جاتاہو اور کیا نہ جارہاہو۔پھرگویا ہمارا امتحان لیتے ہوئے پوچھا۔ذرا بتائے کہ زمین آسمان سارے جہان اور زمان ومکان میں ایسا کچھ ہے۔جو یہاں نہ ہو۔ہم نے بہت سوچا واقعی ایسا کچھ بھی نہ تھا جو یہاں ہوتا نہ ہو موجود نہ ہو یا پایانہ جاتاہو پیدا نہ ہوتاہو۔یعنی سارا ٹکہ ٹوکہ یہاں موجود اور حاضر ہوتا ہے۔کوئی بھی نام لو، وہ اس پر پھبتا ہے، کوئی بھی کام کرو، وہ اس پر جچتاہے۔کہتے ہیں سمندرمیں ہر وہ مخلوق ہوتی ہے جو تصور میں آسکتی ہے اور یہاں بھی وہی حال ہے۔ سوہم بھی سارا سمندر اسی کوزے میں اپنی تمام مخلوقات، موجودات اور پیدائشات، آلائشات، افزائشات کے ساتھ موجود ہیں، ٹکہ ٹوکہ زندہ باد، باقی سب مردہ باد۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔