ایثار اسلامی معاشرت کا روشن باب

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 14 فروری 2020
اسلام صرف عبادات کا ہی دین نہیں بل کہ حسن معاشرت بھی اس کی روشن قندیل ہے۔ فوٹو : فائل

اسلام صرف عبادات کا ہی دین نہیں بل کہ حسن معاشرت بھی اس کی روشن قندیل ہے۔ فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ کی محبّت، معرفت، خوش نودی اور رضا حاصل کرنے کے لیے دوسروں کی ضروریات کو اپنی ذاتی ضروریات و حاجات پر ترجیح دینا ایثار کہلاتا ہے۔

ویسے تو یہ سخاوت ہی کی ایک قسم ہے لیکن عام طور پر سخاوت اور ایثار میں یہ فرق ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ سخاوت تب کی جاتی ہے جب اپنے پاس مال و زر خاطر خواہ مقدار میں موجود ہو جب کہ ایثار خود بھوکے پیاسے اور شدید حاجت مند ہونے کے باوجود اپنے مسلمان بھائی کی ضروریات کو پورا کرنے کو کہتے ہیں، اس اعتبار سے یہ جُود و سخا، فیاضی اور دریا دلی کا اعلی ترین درجہ ہے۔

یہ عمل اسلامی معاشرت کا روشن باب ہے۔ دیگر اوصاف حمیدہ اور صفات حسنہ کی طرح ایثار بھی اہل ایمان کی خاص پہچان اور تبلیغ دین کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ اس کی بہ دولت معاشرہ بدحالی سے خوش خالی، بدامنی سے امن، تنزلی سے ترقی، بے سکونی سے راحت اور بے حسی سے احساس کی طرف گام زن ہوتا ہے یعنی غم مٹتے اور خوشیاں جنم لیتی ہیں۔ آج کی جدید دنیا باہمی محبت کے لیے ہزار جتن کر رہی ہے لیکن اسلامی طرز معاشرت اور اسلامی تعلیمات پر عمل کیے بغیر یہ خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا، کیوں کہ دین اسلام بقائے باہمی کا نہ صرف یہ کہ نظریہ پیش کرتا ہے بل کہ اس نظریے کو اپنانے کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں ایک اہم سبق ایثار و ہم دردی کا بھی ہے۔ اس کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بہت تلقین کی گئی ہے۔

قرآن کریم نے اہل ایمان (انصار ِمدینہ) کے دیگر اوصاف کے تذکرے کے ساتھ جذبۂ ایثار و ہم دردی کو سراہتے ہوئے اس کی خوب تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے، مفہوم: ’’ وہ خود بھوکے پیاسے اور شدید حاجت مند ہونے کے باوجود اپنے آپ پر اپنے مسلمان بھائیوں (کی ضروریات پورا کرنے) کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الحشر)

نوٹ: اگرچہ یہ آیت کریمہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی، لیکن احکامات قرآنیہ کا اسلوب یہ ہے کہ اس سے مقصود پوری امت کو تعلیم دینا ہوتا ہے۔

اس آیت کے شان نزول کے حوالے سے حضرت ابوہریرہؓ سے ایک طویل حدیث مروی ہے۔ جس میں ہے کہ ایک شخص رسول اﷲ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آ کر عرض کی کہ یا رسول اﷲ ﷺ! مجھے بھوک نے ستایا ہوا ہے۔ آپؐ نے اپنے تمام گھروں سے معلوم کرایا، وہاں سے کچھ نہ ملا تو آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے سے فرمایا کہ کوئی ہے جو ان کی ایک رات کی مہمانی قبول کرے۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ میں مہمانی کروں گا۔ ان کو گھر لے گئے اور بیوی سے فرمایا کہ یہ حضورؐ کے مہمان ہیں ان کی مہمان نوازی میں کمی نہ ہونے پائے اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھنا۔

بیوی نے کہا خدا کی قسم بچوں کے لیے کچھ تھوڑا سا رکھا ہے اور کچھ بھی گھر میں نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ بچوں کو بہلا کر سُلا دینا اور جب وہ سو جائیں تو کھانا لے کر مہمان کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اور تو چراغ درست کرنے کے بہانے سے اٹھ کر اس کو بجھا دینا۔ چناں چہ بیوی نے ایسا ہی کیا اور دونوں میاں بیوی اور بچوں نے فاقے سے رات گزاری۔ اور قرآن کریم کی آیت یْؤثِرْونَ عَلٰی اَنفْسِہِم ( وہ اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو) نازل فرمائی۔ (صحیح بخاری)

اسی آیت کے ذیل میں امام نسفیؒ نے تفسیر مدارک التنزیل میں ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ ابو زید کہتے ہیں مجھ سے اہل بلخ کے ایک نوجوان نے پوچھا کہ آپ کا زْہد کیا ہے ؟ تو میں نے جواب دیا کہ جب مل جاتا ہے تو کھا لیتے ہیں اور جب نہیں ملتا تو صبر کرتے ہیں۔ تو وہ مجھے کہنے لگا کہ یہ تو ہمارے ہاں بلخ کے کتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ زہد یہ ہے کہ جب ہمیں نہیں ملتا تو ہم صبر کرتے ہیں اور جب ہمیں ملتا ہے تو ہم ایثار کرتے ہیں۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ ﷺ نے بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ جو کہ دو پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا تھا، اسے عنایت فرمایا، وہ شخص آپؐ کی اس دریا دلی، فیاضی، سخاوت اور ایثار وہم دردی سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ اپنی قوم میں جا کر کہنے لگا : ’’ اے لوگو! اسلام لے آؤ کیوں کہ (اس دین کی طرف بلانے والے) محمّد ﷺ (اس قدر سخی ہیں اور) اتنا دیتے ہیں کہ وہ اپنے فقیر ہونے کی بھی پروا نہیں کرتے۔‘‘ (صحیح مسلم )

رسول اﷲ ﷺ کا ایثار و ہم دردی صرف اپنی ذات کی حد تک محدود نہ تھا بل کہ آپؐ نے اپنے اہل و عیال اور قریبی متعلقین کو بھی اس کا سختی سے پابند بنا کے ساری دنیا کے لیے تاقیامت یہ واضح پیغام دیا کہ ایثار و ہم دردی جیسی انسانی خدمت کو محض سیاسی مفادات اور بیان بازی کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے بل کہ یہ وہ پھول ہیں جن کی بہ دولت اپنی عملی زندگی کے چمن میں بہاریں لائی جاتی ہیں۔

حضرت علیؓ کی ذکر کردہ ایک طویل روایت میں ہے ایک بار میں اور سیدہ فاطمہؓ دونوں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ ! چکی پیستے پیستے فاطمہؓ کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔ (حالیہ غزوے کے) مال غنیمت میں جو لونڈیاں آئی ہیں، ان میں سے چند ایک ہماری خدمت کے لیے مقرر فرما دیں۔ تو آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’ خدا کی قسم میں تمہیں نہیں دے سکتا۔ میں تمہیں کیسے دے دوں؟ جب کہ اصحاب صفہ بھوکے بیٹھے رہیں۔ (فی الحال) میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو میں ان پر خرچ کر سکوں، میں ان غلاموں کو بیچوں گا اور ان کی رقم اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔‘‘ (مسند احمد)

غور فرمائیے! باجود یہ کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہ خوبی معلوم تھا کہ آپؐ کی لاڈلی صاحب زادی کن مشکل حالات اور تنگ دستی و فاقہ کشی جیسی آزمائش سے دوچار ہے، مگر اس سب کے باوجود رسول اﷲ ﷺ نے ان پر اصحاب صفہ کو ترجیح دی۔

دن رات میں ہمیں کئی بار ایسے لمحات میسر آتے ہیں جن میں ہم اس اسلامی حکم پر آسانی کے ساتھ عمل پیرا ہوسکتے ہیں لیکن معمولی سی غفلت اور بے پروائی کی وجہ سے ہم ان لمحات سے فائدہ حاصل نہیں کرتے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے شب و روز پر نگاہ ڈالیے تو بیسیوں ایسے مواقع مل جائیں گے۔

چند ایک پیش خدمت ہیں۔ بلوں کی ادائی کے لیے قطار بناتے وقت۔ کسی مقامی جگہ پر پانی وغیرہ پیتے کے وقت۔ کسی دکان وغیرہ سے سودا سلف لیتے وقت۔ کسی تقریب وغیرہ میں شرکت کے وقت۔ سفر کے دوران بس، وین اور ٹرین وغیرہ میں سیٹ پر بیٹھتے وقت۔ اسپتال وغیرہ میں پرچی یا دوائی لیتے وقت۔ کسی مجلس میں گفت گو کے وقت۔ کسی اجتماعی پروگرام میں آتے جاتے وقت۔ ال غرض روزمرہ زندگی میں ہر ایسے موقع پر جہاں آپ اور کوئی دوسرا مسلمان بھائی دونوں برابر کے شریک ہوں تو وہاں اپنے بھائی کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے اسے ترجیح دیں اس سے دلوں میں محبّت بھی پیدا ہوگی اور انسانی معاشرہ اسلامی طرز کے مطابق بھی ڈھلے گا۔

یہ مواقع ہم سے تھوڑا سا ایثار چاہتے ہیں۔ معمولی سی قربانی چاہتے ہیں اگر ہم سب بالخصوص دین دار طبقہ یہ تہیہ کر لیں کہ ہم ایثار و ہم دردی کی صفت کو اپنائیں گے تو یقین مانیے کہ دنیا اس کا یقین کر لے گی کہ اسلام صرف عبادات کا ہی دین نہیں بل کہ حسن معاشرت بھی اس کی روشن قندیل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔