بلدیہ عظمی کا نابینا ملازم بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا

ساجد رؤف  بدھ 27 نومبر 2013
مقتول کی جگہ بھتیجے کو ملازمت دی جائے، اہلخانہ کی بلدیہ عظمیٰ کے حکام سے اپیل ۔ فوٹو : فائل

مقتول کی جگہ بھتیجے کو ملازمت دی جائے، اہلخانہ کی بلدیہ عظمیٰ کے حکام سے اپیل ۔ فوٹو : فائل

کراچی: شہر میں جاری قتل غارت گری کے دوران نامعلوم دہشت گردوں نے بلدیہ عظمیٰ کے نابینا ملازم کو بھی نہیں بخشا ، اتوار اور پیر کی درمیانی شب لیاقت آباد میں نامعلوم مسلح ملزمان نے فائرنگ کر کے بلدیہ عظمیٰ کے ملازم کو قتل کردیا اور فرار ہو گئے۔

مقتول کے اہلخانہ نے بلدیہ عظمیٰ کے حکام سے مقتول کی جگہ بھتیجے کو محکمے میں ملازمت دینے کی اپیل کردی،تفصیلات کے مطابق شہر میں پولیس اور رینجرز کے تابڑ توڑ ٹارگٹڈ آپریشن اور چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں تو وہیں دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں تیز ی لے آئے ہیں، ایسا ہی ایک واقعہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب لیاقت آباد تھانے کی حدود میں پیش آیا جہاں نامعلوم دہشت گردوں نے گھات لگا کر بلدیہ عظمیٰ کے محکمہ باغات کے نابینا ملازم45 سالہ شہاب عرف بھولو کو قتل کرکے فرار ہو گئے۔

مقتول مکان نمبرA-10/27 سکندر آباد لیاقت آباد میں اپنی بوڑھی ماں اور بھتیجے کے ہمراہ ایک کمرے کے مکان میں رہائش پذیر تھا، واقعے کے بعد پولیس نے روایتی انداز اپناتے ہوئے مقتول کے قتل کا مقدمہ نامعلوم مسلح ملزمان کے خلاف درج کر کے تفتیش شروع کردی۔

انھوں نے بتایا کہ پولیس کو جائے وقوع سے ایک خالی خول ملا ہے جسے تجزیے کے لیے لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے، انویسٹی گیشن افسر سر فراز خواجہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ فوری طور پر واقعے کی وجوہات کا علم نہیں ہوسکاتاہم فل الحال تفتیش شروع کی گئی ہے اور تفتیش کے دوران معلوم ہوگا کہ واقعہ کی وجوہات کیا ہیں۔

دوسری جانب واقعے کو2 روز گزر جانے کے باوجود مقتول کی بوڑھی ماں اب بھی اپنے لخت جگر کی راہ تک رہی ہے اور بیٹے کی تصویریں دیکھ کر شدت غم سے نڈھال ہو جاتی ہے، والدہ کا کہنا ہے کہ ان کا مقتول بیٹا ان کا بہت خیال رکھتا تھا اور ہمیشہ ان کی خدمت کیا کرتا تھا، انھوں نے بتایا کہ واقعے کے روز مقتول شہاب شام کی چائے پی کر گھر سے نکلا تھا اور پھر واپس نہیں آیا، ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی قیمت پر ان کا لخت جگر کو واپس لا دو، مقتول کے بھتیجے وقار احمد عرف وکی نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان کے مقتول چچا7بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور ان کے دیگر چچا شادیوں کے بعد علیحدہ ہو گیے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے مقتول چچا کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی اور نہ ہی کسی سیاسی و مذہبی جماعت سے ًان کی وابستگی تھی، انھوں نے بتایا کہ ان کے چچا سماجی کاموں میں بڑھ چڑ کر حصہ لیا کرتے تھے، زیر تعمیر مساجد کے لیے چندا جمع کرنے اور نعتیں پڑھنے کا شوق تھا، انھوں نے بتایا کہ ان کے چچا کے جانے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ گھر کی کفالت کا پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔