کشن چند بیوس … شاعر ، ماہر تعلیم اور سوشل ورکر

لیاقت راجپر  اتوار 22 مارچ 2020

کشن چند بیوس اپنے وقت کے بہترین استاد، شاعر، حکیم اور سوشل ورکر تھے۔ انھیں اپنی مادری زبان سے بہت پیار تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ انگریزی، فارسی اور عربی بولنے اور لکھنے میں ماہر تھے۔

اس زمانے میں سندھی اور انگریزی کے علاوہ ہر طالبعلم کے لیے لازمی تھا کہ وہ عربی یا پھر فارسی کا مضمون پڑھے اور ہندو طلبا کے لیے ہندی مضمون پڑھنا ہوتا تھا مگر اکثر ہندو طالبعلم عربی اور زیادہ تر فارسی کا مضمون پڑھتے تھے۔سندھ میں فارسی اور اردو بھی بڑی مقبول رہی ہیں اور سندھ کے کئی شاعروں نے اردو میں شاعری کی ہے۔

کشن کا شاعری میں تخلص بیوس تھا ان کی شاعری زیادہ تر خلافت تحریک، ہاری حق دار تحریک، کانگریس اور ہندو مسلم اتحاد پر مبنی تھی۔ وہ ٹیگور سے بڑے متاثر تھے ٗ مہاتما گاندھی کی پیروی کرتے سادھے کپڑے پہنتے تھے۔ سادہ اور کم کھانا کھاتے،، ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے ٗ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ٗ رنگ و نسل سے بالاترہوکر غریبوں کی مدد کرتے۔ 1929 میں لاڑکانہ میں ایک وبائی بیماری نے شہر کی بڑی آبادی کو نقصان پہنچایا ، اسپتالوں میں مریضوں کو رکھنے کی جگہ نہیں تھی، ادویات کم پڑ گئیں، لوگ رشتے داروں کی لاشیں اٹھانے سے گھبرا رہے تھے اس وقت دوسرے سماجی ورکروں کے ساتھ مل کر کشن بھی لاشیں اٹھا کر قبرستان اور شمشان گھاٹ جاتے تھے ۔

بیوس نے 15 سال کی عمر سے شعر کہنا شروع کیے اپنی شاعری میں انھوںنے عوام کے دکھوں کو زبان عطا کی ۔ مزدور طبقہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر توجہ دی اور پھر سماج میںاپنا عملی کردار بھی ادا کیا۔

علم و ادب سے بھی انھیں عشق تھا اس لیے وہ تدریسی عمل سے فارغ ہوکر مشاعروں میں شرکت کرتے تھے ۔ آنند شیوا منڈلی میں قائم لائبریری میں وہ روزانہ بیٹھتے تھے اور وہاں شاعری سے پیار کرنے والوں کو شاعری کے بارے میں لیکچر بھی دیا کرتے تھے جس میں شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شاعری کی تشریح بیان کرتے تھے۔

1944 کے پانچویں آل سندھ مشاعرے میں انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھی زبان کو مضبوط بنانے کے لیے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں اور دوسری زبانوں کے اثر سے بچانے کے لیے اس کی حفاظت کریں مگر اس کے لیے کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی جس کی وجہ سے وہ مایوس ہوئے۔ بیوس نے اپنی شاعری میں نئے نئے تجربے کیے اور اس میں کافی جدت لائے جس میں خاص طور پر نئی اصطلاحات اور تشبیہات شامل تھیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے اپنی شاعری کو مزید آسان لفظوں میں لکھا تاکہ عام ان پڑھ بھی حب الوطنی کے جذبے سے باخبر ہوسکے اور ان کا علم و ادب اور سماجی کاموں کا پیغام بڑی آسانی کے ساتھ لوگوں تک پہنچ جائے۔ان کی شاعری کی وجہ سے ادیب انھیں سماج سدھار اور ترقی پسند شاعر کے نام سے پکارنے لگے ٗ ان کی کوششوں کی وجہ سے لوگ فارسی سے سندھی شاعری کی طرف تیزی سے آنے لگے جس سے یہ فائدہ ہوا کہ شاعر اپنے اشعار میں فارسی کے بجائے اب سندھی الفاظ زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے لگے ۔ بیوس کی ایک نظم تھی ’’غریب جی جھونپڑی‘‘ جسے میٹرک کے نصاب میں شامل کیا گیا ۔

کشن 19 مارچ 1885 میں لاڑکانہ میں پیدا ہوئے تھے ان کے والد بیوس کے بچپن میں ہی انتقال کرگئے تھے اس لیے وہ اپنی تعلیم آگے جاری نہ کرسکے لہٰذا نھوں نے سندھی فائنل کا امتحان پاس کیا جس کی وجہ سے انھیں سندھی استاد کی نوکری مل گئی ۔ پرائمری اسکول کی نوکری کے دوران انھوں نے تین سال کا ٹیچر کا کورس کیا ٗ 1902 میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر فائز کردیے گئے۔ دوران ملازمت دادو، سکھر، جیکب آباد میں رہے۔

ایک بار کسی پروگرام میں انھوں نے جسمانی سزا کو طلبا کے لیے ایک مضر عمل قرار دیا تھا جس سے طلبا اور طالبات کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت کو نقصان ہوتا ہے اور ان میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کم ہوجاتا ہے۔ ان کی نظر میں طالبعلم ایک پھول کی مانند نرم اور نازک ہوتا ہے جس کو پیار، ذمے داری اور تعلیمی اصولوں کے مطابق پڑھانا چاہیے کیونکہ والدین کے بعد استاد ہی ان کا آئیڈیل ہوتا ہے۔ وہ طلبا کو بڑی عزت دیتے تھے اور احترام سے ان کا نام پکارتے تھے جس میں ایک محبت کا عکس نظر آتا تھا۔ اگر کبھی کشن کاکسی اسکول سے ٹرانسفر کردیا جاتا تو طالبعلم اور ان کے والدین ان کا تبادلہ رکوانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔

بیوس کے شاگردوں میں اس وقت کے مقبول اور معروف لوگ تھے جس میں ہری دلگیر، رام پنجوانی، ہوند راج دکھیاری وغیرہ شامل تھے جو بڑے شاعر اور ادیب تھے۔ وہ 1940 میں تاریخی اسکول شاہ محمد پرائمری اسکول لاڑکانہ سے بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے اس موقع پر طلبا، والدین اور شہریوں میں ایک دکھ کی لہر چھائی ہوئی تھی مگر انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی طلبا کے لیے علم و ادب سیکھنے اور حاصل کرنے کے لیے دروازے کھول رکھے تھے اور وہ بغیر فیس کے طالبعلموں پڑھاتے رہے اور علم کی روشنی پھیلاتے رہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے اپنا خاندانی پیشہ یعنی حکمت شروع کردی جس میں مالی فائدہ کم اور انسانی خدمت بہت زیادہ عمل دخل تھا۔ اب وقت کے ساتھ ساتھ حکمت میں بھی بڑا نام کمانے لگے اور خاص طور پر غریب لوگوں کا ایک ہجوم ان کے دوا خانے پر نظر آتا تھا۔ وہ مرض کی تشخیص کرنے میں ماہر تھے اور نبض پر ہاتھ رکھتے ہی مرض کو پہچان لیتے تھے۔ وہ غریب اور محتاج لوگوں کا علاج بالکل مفت کرتے تھے اور دوائیاں بھی اپنی طرف سے دیتے تھے۔

اس سلسلے میں اس نے ایک بھاگیا ہیلتھ اسکیم شروع کی جس سے غریبوں کا علاج و معالجہ کی سہولتیں بالکل مفت حاصل ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک اور بھلائی کا کام شروع کیا جس کا نام شاہی واڑو نام رکھا اور اس پروگرام کے تحت لاڑکانہ کے نواحی علاقے بہارپور میں جو گھاڑ واہ کے قریب تھا وہاں پر لوگ اپنی صحت مند گائے اور بھینسیں بہت ہی کم ریٹ پر رکھتے تھے جہاں پر ان کی پرورش صحت مند ماحول اور اچھے چارے سے کی جاتی تھی۔

مویشیوں کے مالک وہاں سے اپنے استعمال کے لیے دودھ بھی حاصل کرتے تھے اور خرچہ نکالنے کے بعد منافع بھی حاصل کرتے تھے۔ اس اسکیم کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو بہتر، خالص اور سستا دودھ اور مکھن بھی ملے اور مویشی بھی صحت مند رہیں اور بیماریاں ان سے دور رہیں۔ ایسے لوگ اب کہاں سے لائیں جو انسانوں کا بھلا چاہتے تھے، تعلیم و تربیت دینے کے لیے کوشاں ہوتے تھے شام کے وقت مفت پڑھایا کرتے تھے، کوئی بے ایمانی، کرپشن نہیں کرتے تھے۔ وہ سادہ لوح انسان صرف انسانیت کے لیے کام کرتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔