کورونا، بھوک اور حکمران

محمد اکمل  منگل 7 اپريل 2020
اس میں کوئی شک نہیں کہ امداد کی تقسیم کا نظام حکومت کی سطح پر ایک جدید آئی ٹی کے بنیادی طریقے سے ہونا چاہیے۔ فوٹو: فائل

اس میں کوئی شک نہیں کہ امداد کی تقسیم کا نظام حکومت کی سطح پر ایک جدید آئی ٹی کے بنیادی طریقے سے ہونا چاہیے۔ فوٹو: فائل

کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے باعث غریبوں بالخصوص سفید پوشوں کی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

امریکا، اٹلی، اسپین اور جرمنی شروع میں اس مسئلہ کو اہمیت نہیں دے رہے تھے، اب یہی ممالک کورونا کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں، حالاں کہ یہ ترقی یافتہ ممالک ہیں، الغرض نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر کے ممالک اس وبا سے پریشان ہیں، لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس نازک صورت حال میں بھی ہمارے حکمران آپس کے اختلافات میں  اس مسئلے پر سیاسی پوائنٹ اسکو رنگ کر رہے ہیں۔

مرکزی حکومت نے عمران خان کی سربراہی میں ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا ہے جو ممکنہ طور پر دس اپریل تک فعال ہوگی، بالفرض اگر ایسا ہو بھی جائے، تو 10 اپریل تک غریبوں بے روزگاروں اور سفید پوشوں کی بھوک کون مٹائے گا، کیوں کہ یہ کام تو NDMA ،PDMA ایدھی، چھیپا اور دیگر اداروں سے بھی لیا جا سکتا ہے، جو کہ امداد کو متاثرہ لوگوں تک پہنچا سکتی ہیں۔

اگر حکومت یہی کام مستحقین کی شناخت  کا فول پروف سسٹم بناتی تو زیادہ بہتر ہوتا، لیکن اس طرف حکومت کی توجہ نہیں ہے، اس کے علاوہ یونین کونسل اور جنرل کونسل جو کہ عوام کے منتخب کردہ نمائندے ہیں، ان کے ذریعے بھی مستحقین کی نشان دہی کر کے امداد دی جا سکتی ہے اور عمران خان اس بات کے بھرپور حامی رہے ہیں کہ فنڈ ز کا استعمال بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے ہونا چاہیے، لیکن چوں کہ ایسا کرنے سے حکومت اپنے قد کاٹھ میں اضافہ نہیں کر پائے گی اس لیے یہاں بھی عمران خان نے یو ٹرن لیا، مگر انہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ لاک ڈاؤن میں گزرنے والا ایک ایک دن عوام کے لیے اور حکومت کے لئے بہت اہم ہے۔  یہ نہ ہو کہ ٹائیگر فورس تو بن جائے مگر امداد لینے والی فورس کم یا پھر ختم ہوجائے، لہذا خان صاحب کو چاہیے کہ انتظار کے بہ جائے فوری امداد کی فراہمی کا سلسلہ شروع کر دیں، ٹائیگر فورس بنتی رہے گی۔

دوسری طرف صوبائی حکومتیں جن میں سندھ حکومت ہے کورونا وائرس سے بچاؤ کے اعلانات تو اچھے کیے ہیں لیکن بھوک سے بچنے کا کچھ نہیں کیا سوائے اس کے کہ ایک کلو آٹا، آدھا کلو چاولگھی اور اس پر پیپلز پارٹی کے راہ نماؤں کے چَھپے ہوئے پوسٹر ان غریبوں کی غربت اور مفلسی کا منہ چڑا رہے ہیں۔ کراچی میں لوگوں کو راشن کے لیے بھکاریوں کی طرح قطار میں لگنے کے باوجود صرف دھکے مل رہے ہیں۔ لیکن سائیں سرکار بھی یاد رکھے، غریب بھوک کے مقابلے میں کورونا سے مرنا پسند کر لے گا، کیوں کہ شاید اپنی بھوک تو وہ برداشت کر لے، مگر اپنے بلکتے ہوئے بھوکے بچے نہیں دیکھ سکے گا۔

مخیر حضرات بھی پیشہ ور بھکاریوں کو ہی دے رہے ہیں، جو مبینہ طور پر سڑکوں پر اوزار لیے مستریوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں، بہت کم لوگ ایسے ہیں جو باقاعدہ محنت سے تلاش کر کے سفید پوش اور حق داروں تک امداد  پہنچا رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امداد کی تقسیم کا نظام حکومت کی سطح پر ایک جدید آئی ٹی کے بنیادی طریقے سے ہونا چاہیے، لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جب تک یہ سسٹم تیار نہیں ہوتا تب تک کا ایڈہاک پلان ہونا چاہیے، ورنہ حالات قابو سے باہر ہونے کا اندیشہ ہے۔

’سوشل میڈیا‘ کی اگر بات کی جائے تو ہم نے بطور قوم بہت ہی غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہی، جھوٹی من گھڑت خبریں منٹوں میں پھیل رہی ہیں اور ہر کوئی بغیر تصدیق کیے ان پیغامات کو پھیلانا اپنا فرض سمجھ رہا ہے۔ اسی طرح خبری چینلوں کو بھی سنسنی پھیلانے والی خبروں کے بہ جائے عوام کو حوصلہ دینے والی خبریں دینا چاہئیں۔ ’بریکنگ نیوز‘ اور کورونا کے شکارمریضوں پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی معروف لوگوں کو کورونا میں مبتلا ہونے کی خبریں چیخ پکار کے ساتھ نہیں بتاناچاہئیں، بلکہ مناسب انداز میں بھی یہ خبریں دی جا سکتی ہیں تاکہ لوگ نفسیاتی طور پر مایوسی کا شکار نہ ہوں۔

آخر میں مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ یہ وقت دینے کا ہے اور خدارا پیشہ وروں کے بہ جائے گھروں میں بیٹھے ہوئے سفید پوشوں اور مستحقین کو ڈھونڈیے اور ایسے دیں کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ ہم نے ہمت جرات اور حوصلے کا مظاہرہ کرنا ہے اور اس مشکل صورت حال سے بہ خیروخوبی نکلنا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔