شب برأت کی فضیلت

مولانا عبدالنعیم  بدھ 8 اپريل 2020
’’جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کرو۔‘‘

’’جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کرو۔‘‘

شعبان ایک بابرکت مہینہ ہے۔ نبی کریمؐ اس مہینے میں اکثر روزہ رکھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں رسول اکرمؐ کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رہتے، یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ آجاتا۔ ماہ شعبان کی پندرہویں رات شب برأت کہلاتی ہے۔ برأت کے معنی دُوری اور چھٹکارے کے ہیں۔

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: ’’شب برأت کو شب برأت اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں دو قسم کی برأت ہوتی ہے۔ ایک برأت تو بدبختوں کو خداتعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ دوسری برأت خدا کے دوستوں کو ذلّت اور خواری سے ہوتی ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے لیے اس روئے زمین پر عید کے دو دن ہیں۔ اس طرح فرشتوں کے لیے دو راتیں (شب برأت، شبِ قدر) عید کی راتیں ہیں۔ مسلمانوں کی عید دن میں رکھی گئی کیوں کہ وہ رات کو سوتے ہیں اور فرشتوں کی عید رات میں رکھی گئی کیوں کہ وہ سوتے نہیں۔‘‘

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کرو، اس لیے کہ اس رات میں اﷲ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوع فجر تک قریب کے آسمان پر نزول فرماتے اور ارشاد فرماتے ہیں: کیا ہے کوئی! مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں، کیا ہے کوئی! مجھ سے رزق کا طالب میں اس کو رزق عطا کروں، کیا ہے کوئی! کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت دوں، کیا ہے کوئی ایسا۔۔۔؟ کیا ہے کوئی ایسا۔۔۔ ؟ اﷲ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔

حضرت ابُوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: بے شک اﷲ متوجہ ہوتے ہیں نصف شعبان کی رات میں، پس اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کی روایت میں زانی کا ذکر بھی آیا ہے اور حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں رشتے داری توڑنے والا، تخنوں سے نیچے ازار لٹکانے والا، اپنے ماں باپ کا نافرمان اور شراب کے عادی کا تذکرہ بھی آیا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی۔ جمعے کی رات، ماہ رجب کی پہلی رات، نصف شعبان کی رات، عیدین کی رات۔

علامہ امام ابُوالقاسم جاراﷲ محمود بن عمر زمخشریؒ اپنی تفسیرِ کشاف میں لکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے شب برأت کی رات کو چھے فضیلتیں بخشی ہیں۔

1: اس رات تمام حکمت والے کام فرشتوں میں بانٹ دیے جاتے ہیں تا کہ وہ اس کے مطابق اپنے پورے سال میں فرائض سرانجام دیں۔

2 : اس میں عبادت سے جو ثواب ملتا ہے وہ دوسری راتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ چناں چہ ایک حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس رات میں ایک سو نوافل پڑھے گا اﷲ اس کے پاس ایک سو فرشتے بھیجے گا ان میں سے تیس فرشتے اسے جنّت کی خوش خبری سنائیں گے اور تیس فرشتے اسے دوزخ کے عذاب سے امان کی خوش خبری سنائیں گے اور تیس فرشتے اس سے دنیا کی آفات و بلّیات کو دور کریں گے اور اس باقی دس فرشتے شیطان کے فریب و دھوکے کو دور کریں گے۔

3 : اس رات کو حضور ﷺ کی امت پر خاص رحمت اترتی ہے۔ چناں چہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ اس رات میں میری اُمّت کے اتنے لوگوں پر خاص رحمت فرماتا ہے، جتنے بنی کلب قبیلے کی بکریوں کے بال ہیں۔

4 : اس رات بخشش ہوتی ہے۔ چناں چہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اس رات میں اﷲ تعالیٰ سب مسلمانوں کو بخش دیتا ہے مگر اس رات کاہن اور جادوگر اور دل میں بغض و دشمنی رکھنے والے، شراب کے عادی، ماں باپ کے نا فرمان اور زنا کے عادی کی بخشش نہیں ہوتی۔ (جب تک یہ لوگ سچے دل سے توبہ کر کے باز نہ آجائیں)۔

5 : اس رات میں رسول اکرم ﷺ کو تمام اُمّت کی شفاعت دی گئی وہ اس طرح کہ جب شعبان کی تیرھویں رات کو آپؐ نے امت کے بارے میں اﷲ سے شفاعت مانگی تو تہائی امت کے حق میں بخشش کی شفاعت کی اجازت دے دی گئی۔ پھر آپؐ نے چودہ شعبان کو مزید بقیہ امت کی بخشش کی اجازت مانگی تو آپؐ کی بقیہ امت کی بخشش کا وعدہ بھی فرمایا گیا۔ جو شخص سرکش ہوکر اﷲ اور رسولؐ کی اطاعت سے ایسے بھاگے جیسے اونٹ اپنے مالک کے ساتھ زور آزمائی کرکے رسی چھڑا کر بھاگ جائے اس کی شفاعت نہ فرمائیں۔ یعنی بدعقیدہ ہو جائے یا ایسا بدعمل کہ نیکی کو کوئی اہمیت نہ دے اور نہ اس بات کا احساس کرے کہ خدا اور رسول ﷺ کی عملی بغاوت کر رہا ہے، بل کہ اپنے اس بُرے عمل پر بغاوت اور سرکشی پر خوش ہو اور نیکی کا مذاق اڑائے تو وہ سرے سے اسلام سے خارج ٹھہرا۔

6: علامہ زمخشریؒ لکھتے ہیں کہ ہر شب برأت میں اﷲ تعالیٰ زم زم کے کنویں میں بھی برکت نازل فرماتا رہتا ہے۔

اﷲ ہم سب کو اس عظیم رات کے فیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔