کورونا وائرس پر سب سے بڑی تحقیق پاکستان میں جاری ...ابتدائی رپورٹ جلد پیش کی جائے گی!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 20 اپريل 2020
آئندہ 2 ہفتوں میں اس کی رپورٹ جاری کریں گے: شرکاء کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو

آئندہ 2 ہفتوں میں اس کی رپورٹ جاری کریں گے: شرکاء کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کی 60 سے زائد ویکسینزپر کام ہو رہا ہے اور ماہرین پر امید ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک ویکسین ضرور کامیاب ہوگی۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میںبھی اس ویکسین کی تیاری، پہلے سے موجود ادویات پر تحقیق، متبادل طریقہ علاج ویگر پر کام ہورہا ہے۔

ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی ادویات کے حوالے سے سب سے بڑی تحقیق پاکستان میں ہورہی ہے، اس کے علاوہ پلازمہ و دیگر طریقے بھی آزمائے جا رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے علاج اور ویکسین کے حوالے سے پاکستان میں ہونے والے کام کے بارے میں جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت ترجمان، طبی ماہرین اور محققین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مسرت جمشید چیمہ
(ترجمان پنجاب حکومت و چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ پنجاب اسمبلی)

کورونا وائرس دنیا کو بہت کچھ سکھا کر جائے گا۔ پاکستان کی بات کریں تو اب ہمارے ملک میں بھی ریسرچ پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ یہ انتہائی اہم شعبہ ہے جو نظر انداز ہورہا تھا مگر اب ایسا نہیں ہوگا، میرے نزدیک اس اہم اور وسیع شعبے کیلئے الگ وزارت ہونی چاہیے۔سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہماری پالیسیوں کا بنیادی جزو ہونا چاہیے۔

اس فورم میں سامنے آنے والے حقائق اور تجاویز وزیراعظم تک پہنچاؤں گی تاکہ اس پر کام آگے بڑھایا جاسکے اور حکومت بہترین کام کرنے والے اداروں کی سرپرستی کرے۔ کورونا وائرس پر تحقیق اور کام کرنے والے ماہرین لیجنڈ ہیں، ان کو ستارہ امتیاز ملنا چاہیے۔ ہم ان کی حوصلہ افزائی کریں گے تو تحقیق کے شعبے میں مزید لوگ آگے آئیں گے۔

ریسرچ کے حوالے سے قانون سازی پر بھی غور کیا جائے گا۔ مقامی سطح پر تیار N-95ماسک کو 25اپریل سے مارکیٹ میں پیش کریں گے۔ایک وینٹی لیٹر کو 4 سے 5 مریضوں کیلئے استعمال کرنے پر بھی کام جاری ہے، اس سے فائدہ ہوگا۔ حکومت پنجاب کورونا وائرس کے حوالے سے وسیع پیمانے پر کام کر رہی ہے، BSL3 سطح کی لیبارٹریوں کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب نے 65 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے، اب ہر DHQ میں ایک لیبارٹری قائم کی جاری ہے جس کے بعد کورونا وائرس کے تشخیصی ٹیسٹ کی صلاحیت 3200 سے بڑھ کر 7 ہزار روزانہ ہوجائے گی۔

مکمل لاک ڈاؤن سے بحران پیدا ہوجائے گا، 250کے قریب علاقوں سے کورونا کے زیادہ کیسز آئے ہیں لہٰذاانہیں مکمل سیل کردیا گیا ہے۔ احساس پروگرام کے تحت پنجاب میں 12 لاکھ خاندانوں کو امدادی رقم فراہم کی جاچکی ہے، ملک بھر میں 1 کروڑ 25 لاکھ غرباء کو پہلے فیز میں امدادی رقم دی جائے گی، خدانخواستہ اگر لاک ڈاؤن دیر تک جاری رہا تو امداد کادائرہ مزید وسیع کریں گے۔

پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز)

یونیورسٹیوں کا کام صرف بچوں کو تعلیم دینا اور امتحان لینا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کام ریسرچ کرنا اور لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا بھی ہے۔ جب کورونا وائرس کی وباء آئی تو بطور ہیلتھ کیئر ورکر اور ایشیاء کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہونے کی وجہ سے لوگ ہماری طرف دیکھ رہے تھے لہٰذا ہم نے کوشش کی کہ بہترین کام کریں تاکہ لوگ مایوس نہ ہوں۔ ہم حکومت کا بازو بنے اور بہترین سفارشات بھی دیں۔ آفت کے شروع میں جب سینی ٹائزر کی قلت ہوئی تو ہم نے خود سینی ٹائزر تیار کر لیا جو غرباء میں مفت تقسیم بھی کیا گیا۔

اس کے بعد ماسک کا مسئلہ بنا تو ہم نے N95 ماسک بھی تیار کر دیا جو بلیک میں 3 سے 4 ہزار روپے کا بک رہا تھا ہم نے 200 روپے کا فروخت کیا۔ اس کے علاوہ طبی عملے کی حفاظتی کٹ PPE کی بہت زیادہ ضرورت تھی کیونکہ طبی عملے کی جان کو بھی کورونا وائرس سے خطرہ تھا، یہ صف اول میں اس سے لڑ رہے ہیں۔

بلوچستان میں ڈاکٹرز نے کٹس نہ ملنے پر ہڑتال بھی کر دی تھی۔ ہم نے فوری طور پر عالمی ادارہ صحت کی منظور شدہ کٹس کو دیکھا اور پھر مقامی سطح پر ان کی تیاری شروع کردی۔ ہم ڈاکٹرز کیلئے ایسی حفاظتی کٹس بنا رہے ہیںجو عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ معیار سے بھی بہتر ہیں، ہم 70 ڈالر میں ملنے والی کٹ 525 روپے میں تیار کررہے ہیں۔ ہم نے اس حوالے سے فنڈز اکٹھے کیے، دوا ساز کمپنیوں اور کارپوریٹ سیکٹر سے ہمیں 8 کروڑ روپیہ اکٹھا ہوا۔ اس وقت روزانہ 9 ہزار حفاظتی کٹس تیار کی جارہی ہیں جبکہ اب تک پاکستان اور افغانستان میں 20 لاکھ کٹس فراہم کی جاچکی ہیں۔

کسی بھی فرد یا ادارے کو ضرورت ہو تو وہ ہماری ویب سائٹ پر فارم پرُ کرتا ہے اور اسے گھر پر فراہم کر دی جاتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کی ویکسین کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیان دیا کہ کلوروکین اس مرض کا علاج ہے۔ اس کے بعد ہائڈروکسی کلورو کین کی قلت ہوگئی اور مہنگے داموں اس کی گولیاں فروخت ہونے لگی۔ اس مرض کے علاج کے حوالے سے ابھی کچھ معلوم نہیں کہ اس پر کیا اثر کرتا ہے اور کیا نہیں۔ ہم نے اس کی ادویات کے حوالے سے تحقیق شروع کی جسے پروٹیکٹ سٹڈی کا نام دیا گیا۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی تحقیق ہے اور اس وقت دنیا کی نظریں ہم پر لگی ہوئی ہیں۔ ہم اس تحقیق کیلئے ساڑھے 9 ہزار انرول کر رہے ہیں، جنہیں 7 گروپس میں تقسیم کرکے ان پر مختلف ادویات کا ٹرائل کیا جارہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں ہمارے 19 سینٹرز ہیں جہاں یہ تحقیق جاری ہے۔

یہ سٹڈی 4 ماہ کی ہے مگر چونکہ لوگ اس بارے میں جاننا چاہتے ہیں لہٰذا آئندہ 2 ہفتوں میں 100 مریضوں کی ابتدائی رپورٹ پیش کی جائے گی جو بڑا بریک تھرو ہوگا۔ہم اس سٹڈی کے علاوہ 17 مختلف تحقیقات کر رہے ہیں۔ میں اور ڈاکٹر طاہر شمسی پلازمہ پر بھی کام کر رہے ہیں۔

وہ سندھ اور بلوچستان جبکہ میں پنجاب، خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر دیکھ رہا ہوں۔ ہم کورونا کے ان مریضوں سے پلازمہ لیتے ہیں جو دو ہفتہ قبل صحت یاب ہوچکے ہیںاور یہ پلازمہ کورونا کے مریضوں کو لگایا جاتا ہے۔ جو مریض خطرناک حالت میں ہیں ان کو مکمل پلازمہ لگایا جا رہا ہے جبکہ بعض مریضوں کو ہم پلازمہ میں سے IVIG نکال کر لگا رہے ہیں، یہ دنیا میں پہلی مرتبہ ہورہا ہے، ابھی معلوم نہیں کہ اس کا کیا رزلٹ آئے گا۔

ہم نے دنیا کے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کے تشخیصی ٹیسٹ کی صلاحیت بڑھانے پر تحقیق کی، 100مریضوں کو 10 ، 10 کے گروپوں میں تقسیم کرکے ان کے ٹیسٹ کرنے سے یہ صلاحیت 10 گنا بڑھائی جاسکتی ہے، جرمنی نے ہماری اس تحقیق سے فائدہ اٹھا کر یہ ماڈل اپنے ملک میں لاگو کردیا ہے، ہمیں بھی اس پر کام کرنا ہوگا، اگر دیر کی گئی اور مریضوں کی تعداد زیادہ بڑھ گئی تو اس کا فائدہ نہیں ہوگا۔  کلونجی سے علاج ہمارے دین میں ہے، ہم اس پر بھی کام کررہے ہیں اور دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ طریقہ علاج سائنسی ہے۔ ٹیلی میڈیسن کے بعد خواتین کیلئے ’’پنک ٹیلی میڈیسن‘‘ پورٹل قائم کردیا گیا ہے جس کا تمام سٹاف خواتین پر مشتمل ہے، ہمارے 7 ہزار رضاکار ڈاکٹرز ٹیلی میڈیسن پر خدمات دے رہے ہیں۔

اس کا افتتاح صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کیا، کچھ کالز بھی لیں اور مریضوں کی رہنمائی کی۔ پورے ملک میں اس وقت ہمارے 39 ٹیلی میڈیسن سینٹرز ہیںمگر افسوس ہے کہ سندھ میں ٹیلی میڈیسن نہیں ہے،ہم نے ان سے بارہا رابطہ کیا، ہم سندھ کو سروسز دینے کیلئے تیار ہیں مگر وہ سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف اس لیے نہیں چاہتے کہ یہ پنجاب کا ایک ادارہ ہے، میرے نزدیک اس معاملے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے کورونا وائرس کی ویکسین تیار کر لی ہے۔ سارہ گلبرٹ نے ویکسین تیار کی ہے مگر اسے فی الحال کسی سے بات چیت کی اجازت نہیں ہے۔ وہ اب ویکسین کے جانوروں اور کلینکل ٹرائل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ساتھ جائنٹ وینچر کیلئے ہمارے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے منظوری دے دی ہے لہٰذا اب ان سے بات چیت جاری ہے۔

جائنٹ وینچر کے بعد جائنٹ پیٹنٹ، ویکسین کا ٹرائل اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ ممکن ہوسکے گا۔ Doxilکے نام سے ایک دوا پہلے آتی تھی جو اب یہاں نہیں ملتی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا خیال ہے کہ یہ دوا پھیپھڑوں کو بچانے کیلئے کررگر ثابت ہوگی۔ اس پر تحقیق کیلئے ہم جائنٹ سٹڈی کرر ہے ہیں۔ جب سے فرانس کو معلوم ہوا ہے کہ اس دوا پر ریسرچ شروع ہوگئی ہے تو اس نے اس کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی ہے۔

اب ہم یہ دوا چین سے منگوا رہے ہیں۔ چینی یونیورسٹیوں کا ایک کنسورشیم ہے، ہم اس کے رکن ہیں۔ ان کے ساتھ مشترکہ تحقیق چل رہی ہے وہ ہمارے ڈاکٹرز، ریسرچرز وغیرہ کی ٹریننگ کر رہے ہیں جس سے خاطر خواہ فائدہ ہورہا ہے۔آج کے بعد میڈیکل کی دنیا میں جو ہوگا، کورونا وائرس کی ویکسین، ادویات کا اس میں بڑا کردار رہے گا۔ یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی دوا ہوگی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اس پر کام کر رہی ہیں۔ مائیکرو سافٹ نے اس ویکسین کیلئے ٹریلین ڈالرز مختص کردیے ہیں،ا سے معلوم ہے کہ اس ویکسین سے وہ کئی گنا کما سکتا ہے۔

 پروفیسر ڈاکٹر اللہ رکھا
(سربراہ شعبہ فارنزک سائنسزیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز)

پاکستان میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے مگر دیگر ممالک کی طرح یہاں ریسرچ کلچر نہیں ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے دنیا تیار تھی اور نہ ہی ہم مگر اب تمام شعبہ جات اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق دنیا بھر میں اس وائرس پر کام کر رہے ہیں۔کورونا وائرس پر مختلف حوالوں سے ریسرچ ہورہی ہے جس میں سب سے پہلی چیز تشخیص ہے کہ کس طرح اس کی تشخیص کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ہر ملک اس پر کام کررہا ہے کہ وہ مقامی سطح پر اس کی تشخیص کا طریقہ کار بنا سکے تاکہ وہ کسی بھی بین الاقوامی کمپنی پر تشخیصی کٹ کیلئے انحصار نہ کرے۔

پاکستان میں بھی سب سے پہلے بڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں میں تشخیصی کٹ بنانے کے حوالے سے کام ہورہا ہے تاکہ ہم وسیع پیمانے پر سستے ٹیسٹ کرسکیں۔ جتنے زیادہ ٹیسٹ کریں گے، اسی قدر ہم اس وائرس سے بہتر طریقے سے نمٹ سکیں گے۔ ہمارا ادارہ اور دیگر ادارے کورونا وائرس کی تشخیصی کٹ کو عالمی معیار کے مطابق validate کر نے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح پوری دنیا نے کی ہے۔ اس حوالے سے 2 ، 3 چیزیں اہم ہیں جن میں سب سے اہم رزلٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری تیار کردہ کٹ اور عالمی کٹ کا رزلٹ ایک جیسا ہی ہونا چاہیے۔

اگر ہم اس کے 100ٹیسٹ کریں تو ان کا رزلٹ ایک جیسا ہی ہونا چاہیے۔ دوسری چیز یہ کہ اگر ہم نے ایک ادارے میں کٹ تیار کی اور اس کے بعد اسے کسی دوسرے ادارے میں بھجوا دیا تو وہاں پر بھی اس کٹ کو ویسا ہی رزلٹ دینا ہے جیسا اس نے یہاں دیاتیسری چیز یہ ہے کہ یہ کٹ انتہائی حساس ہونی چاہیے تاکہ کم تعداد میں موجود وائرس کی بھی تشخیص کرسکے۔

یہی وجہ ہے کہ کٹ کی تیاری میں وقت لگتا ہے اور اس کے ڈویلپمنٹ پراسس کو بہترین بنانا پڑتا ہے۔ آئندہ 2 سے 6 ہفتوں میں ہم اپنی تشخیصی کٹ استعمال کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے کورونا وائرس کے سٹرکچر پر سٹڈی کے حوالے سے mutation browser بنا یا ہے جس میں ہم دنیا بھر سے کورونا وائرس کے حوالے سے آنے والی معیاری انفارمیشن اکٹھی کر رہے ہیں اور پھر اس کا دسمبر2019ء میںووہان میں سامنے آنے والے کورونا وائرس کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔اس حوالے سے algorithmبنایا گیا ہے تاکہ اس کی مدد سے لوگ ڈیٹا کو سمجھ سکیں۔

اس تحقیق اور موازنہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وائرس میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ کورونا وائرس جس فیملی کا حصہ ہے ا س کی خاصیت یہ ہے کہ وہ تیزی سے تبدیل ہوتا ہے لہٰذا تشخیص، ویکسین کی تیاری وغیرہ میں سائنسدانوں کیلئے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ اس وائرس میں کیا تبدیلیاں ہوررہی ہیں اور پھر اسی لحاظ سے انہیں  پروٹوکولز تبدیل کرنا پڑتے ہیں۔ موجودہ کورونا وائرس کے حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ اس وائرس میں ابھی تک زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ہمارے اس browserپر کورونا وائرس کے حوالے سے موجود انفارمیشن سائنسدانوں، کورونا وائرس پر تحقیق کرنے والوں، ڈاکٹرز، فارما کمپنیوں سمیت سب کے لیے سودمند ہے اور وہ اس سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔