آپ کے پانچ لاکھ نکلے ہیں!!…

محمد فیصل شہزاد  ہفتہ 7 دسمبر 2013

ابھی گھر سے قدم نکالا ہی تھا کہ بیگم کی آواز نے قدم جکڑلیے۔ ’’سنیے…‘‘

’’اف… یہ عورتیں! گھنٹوں ان کی باتیں سنتے رہو، مگر گھر سے نکلتے نکلتے بھی انھیں ضرور کچھ یاد آجاتا ہے۔‘‘ ہم زیر لب بڑبڑاتے واپس ہوئے۔ دیکھا تو ان کا موبائل گنگنا رہا تھا، جسے وہ ہماری طرف بڑھا رہی تھیں اور ایسا تب ہوتا تھا جب کسی اجنبی نمبر سے کال آتی تھی۔ کال ریسیو کی تو دوسری طرف ایک صاحب تھے جو بڑے خوشگوار لہجے میں ہمارا نام کنفرم کر رہے تھے۔

’’آپ فیصل شہزاد بات کر رہے ہیں؟‘‘

’’جی… آپ کون؟‘‘ ہم نے جواب دیا۔

’’فیصل صاحب! ہم موبائل کمپنی کی طرف سے بات کر رہے ہیں، انعامی قرعہ اندازی میں آپ کا پانچ لاکھ کا انعام نکلا ہے۔ آپ کو بہت بہت مبارک ہو، انعام وصول کرنے کے لیے آپ کو ہمارے اسی نمبر پر کال بیک کرنی ہوگی، آپ کو طریقہ تفصیل سے سمجھا دیا جائے گا۔‘‘

یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب فراڈ ہے، ایک لمحے کے لیے تو دل کی دھڑکن تیز ہو ہی گئی۔ آدمی بھی کتنا کمزور ہے اور بیٹھے بٹھائے ایک بڑی رقم کی نوید سننا خصوصاً اس شخص کے لیے تو بے حد خوشگوار احساس ہے جو دسمبر 2013 کے پاکستان میں رہتا ہو، جہاں ٹماٹروں کی اوقات انار سے بڑھ گئی ہے اور آلو میاں سیب سے مہنگے ہوگئے ہیں۔ ہم چند لمحے خاموش رہے، اس کی وجہ حیرت تھی کہ بے شک اس طرح کے میسیج اور فون اب پرانا طریقہ واردات ہوگیا ہے لیکن اس شخص نے ہمارا نام کنفرم کیا تھا، جو واقعی بڑی اچنبھے کی بات تھی، اس لیے کہ صارفین سے متعلقہ معلومات تو کمپنی کے خفیہ ریکارڈ میں رہتا ہے جہاں تک ہر کس و ناکس کی رسائی نہیں ہوتی پھر اس فراڈیے کو کس طرح نام مل گیا؟ وہ صاحب سمجھے کہ ہم اتنی بڑی خوشخبری سن کر ہوش کھو بیٹھے ہیں، اس لیے چہکتے ہوئے بولے: ’’سوچیے نہیں! جلدی سے ہمیں دوبارہ کال کیجیے، تاکہ آپ کو طریقہ بتایا جاسکے۔‘‘

ہم نے سوچا کہ انعام نکلنے کی خبر ہمیں سنا رہا ہے مگر خوش خود ایسے ہو رہا ہے جیسے اس کی لاٹری نکلی ہو۔ ہم نے بڑے ادب سے کہا: ’’حضرت! ہمیں وہ انعام نہیں چاہیے، ہماری طرف سے وہ آپ رکھ لیجیے۔‘‘

اب خاموش ہونے کی باری اس کی تھی۔ اگلے لمحے ہی کال منقطع ہوچکی تھی۔ بیگم نے ’انعام‘ کا لفظ سنا تو ان کے کان کھڑے ہوگئے۔ ’’کیسا انعام؟ کس کا نکلا انعام؟‘‘

ہم نے بتایا کہ کم بخت کوئی دھوکے باز تھا، ہم نے اپنا انعام اسے دے دیا تو شاید اتنی سخاوت کا سن کر ہی بے ہوش ہوگیا اور فون کٹ گیا۔ کہنے لگیں: ’’کیا پتا واقعی کوئی انعام نکلا ہو ورنہ… ورنہ وہ آپ کا نام کیوں لیتے؟‘‘

’’جاگتے میں خواب مت دیکھا کرو نیک بخت! یہاں کوئی کسی کو اپنا بخار نہیں دیتا، جیب میں چند سو روپے یار لوگوں سے برداشت نہیں ہوتے تو لاکھوں روپے ایسے ہی کون دے دے گا اور پھر یہ بھی تو دیکھوکہ ایک عام نمبر سے فون آیا تھا، اگرکمپنی سے آتا تو عام نمبر کے بجائے کمپنی کا سروس نمبر لکھا ہوا آتا۔ یہ سارے دھوکے باز ہیں، صبح سے شام تک لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور دو چار بدقسمت بدھو ان کے ہتھے چڑھ بھی جاتے ہیں۔‘‘

’’لیکن پھر آپ کا نام…‘‘ ان کی سوئی اسی پر اٹکی ہوئی تھی۔

’’ہاں اس پر تو ہمیں بھی حیرت ہے، لیکن یہ ناممکن نہیں… پچھلے دنوں خبر پڑھی تھی کہ بڑے بڑے بینکوں کے ملازمین اپنے کھاتے داروں کی ذاتی معلومات بیچتے ہیں تو اسی طرح کسی نے یہ کام بھی کر لیا ہوگا، ویسے یہ ہے بڑی پریشان کن بات، موبائل کمپنی سے شکایت کرنی پڑے گی، اس لیے کہ ان کی بھی ساکھ کا معاملہ ہے کہ ان کے نام سے، انھی کے ایک نمبر سے لوگوں کا نام پوچھ کر دھوکا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘

عام لوگوں کو بغیر کسی محنت کے بیٹھے بٹھائے لاکھوں روپے کی کوئی لاٹری یا انعام کا مل جانا یورپ یا امریکا میں تو سنا ہے لیکن ہمارے ہاں صرف انعامی بانڈز ہی کے ذریعے لوگوں کے انعام نکلتے ہیں، باقی سب دھوکا ہے۔  بہرحال آج سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت جس تیزی سے دنیا تبدیل ہو رہی ہے اور ذرایع مواصلات و کمیونیکشن میں ترقی ہو رہی ہے، اسی تناسب سے دھوکا دہی کے پرانے طریقوں کی جگہ تیزی سے نئے طریقے وجود میں آرہے ہیں۔ اب نہ جیب کترے ہیں اور نہ ہی راہ چلتے ٹھگ، اب تو موبائل اور انٹرنیٹ ٹھگوں کے گروہ پیدا ہوگئے ہیں، جو اس صفائی سے آپ کے جذبات سے کھیلتے ہوئے آپ کی جیب کاٹتے ہیں کہ ’الو‘ بننے کا آخر تک احساس نہیں ہوتا۔ پچھلے چند ماہ میں ایسے چار پانچ واقعات ہمارے سننے اور دیکھنے میں آگئے۔ لائنز ایریا کراچی میں ہمارے ہم زلف کے پڑوسیوں کے لٹنے کا قصہ تو ابھی پچھلے ماہ ہی کا ہے جب انھیں اسی طرح موبائل سے کال آئی اور غریب میاں بیوی اس دھوکے میں آگئے۔

انھیں ایک نمبر پر کال کرنے کو کہا گیا اور پھر قصہ مختصر دونوں چار ہزار روپے سے محروم ہوگئے، جن میں سے پندرہ سو قرض لیا گیا تھا۔ ایک اور وکھرا قصہ پچھلے ہفتے کا ہی ہے، جب ہمارے دفتر کے ایک ساتھی کے موبائل پر ایک sms آیا جس میں انھیں نام سے مخاطب کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ مشہور برانڈ کی انٹرنیشنل قرعہ اندازی میں آپ کا پچاس ہزار برطانوی پونڈز کا انعام نکلا ہے۔ انعام حاصل کرنے کے لیے نیچے دیے گئے ای میل ایڈریس پر یہ نمبر لکھ کر ایک جوابی میل کیجیے۔ نیچے ایک کوڈ نمبر اور ای میل بھی لکھا ہوا تھا۔ فراڈ کا اندازہ ہونے کے باوجود چونکہ طریقہ کار نیا تھا، پھر نام سے بھی مخاطب کیا گیا تھا، اس لیے پچاس ہزار پونڈ اس کی آنکھوںکے سامنے ناچنے لگے۔ کیلکولیٹ کیا تو کروڑوں کا عدد دیکھ کر رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔ کانپتے ہاتھوں سے ای میل کیا تو فوراً ہی ایک جوابی ای میل آگئی جس میں نہایت متاثر کن انگریزی میں طویل مگر ایسے شاطرانہ انداز میں ہدایات دی گئی تھیں کہ جعل سازی کا مطلق شبہ نہ ہو۔

ہمیں دکھایا تو انھیں مفت کا مشورہ دیا کہ ہدایات پر بالکل عمل نہیں کرنا اور گوگل پر سرچ بھی کر لو، کیوں کہ اتنی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی دنیا بھر میں موبائل قرعہ اندازی کے ذریعے اتنی بڑی رقم بانٹتی پھرے تو ضرور نیٹ پر بھی تفصیلات ہوں گی اور اگر دھوکا ہوگا جو کہ یقیناً ہے تووہ بھی سامنے آجائے گا۔ وہی ہوا، گوگل پر سرچ کرنے کے بعد اگلے ہی لمحے سارا کچا چٹھا سامنے آگیا۔ سیکڑوں پاکستانی نوجوانوں کو بالکل یہی پیغام ملا تھا جس کا ذکر انھوں نے نیٹ پر کیا تھا۔ دھوکا بالکل ظاہر تھا، کمپنی کو اچانک پاکستانیوں سے ایسی کیا ہمدردی ہوگئی کہ پچاس ہزار برطانوی پونڈ سیکڑوں کی تعداد میں کراچی سے مردان تک لوگوں کو بانٹنے لگی۔ ہم نے سوچا کہ واقعی جب تک اس دنیا میں حرص و حماقت باقی ہے اور جب تک احمقوں کے سر پر بغیر ہاتھ پاؤں ہلائے راتوں رات دولت مند بننے کا بھوت سوار رہے گا، عیار اور شاطر کبھی بھوکے نہیں مر سکتے۔ اب حکومت سے تو درخواست ہے کہ سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرے اور موبائل کمپنی اور مشہور برانڈز جن کے نام پر دھوکا کیا جارہا ہے انھیں بھی چاہیے کہ جو ٹھگ ان کا نام لے کر لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں، ان کا سراغ لگائیںکہ یہ ان کی ساکھ کا معاملہ ہے۔

اچھا نصیحت نامہ ختم، اب ہمارا مطالبہ ہے کہ کم ازکم ہمیں وہ پانچ لاکھ تو دے ہی دیے جائیں، جن کی نوید ہمیں سنائی گئی تھی، ہمیں ٹماٹر اور آلو لے کر اسٹاک کرنے ہیں، اس سے پہلے کہ یہ کم ظرف سبزیاں بالکل ہی اپنی اوقات بھول جائیں اور سونے چاندی کے بھاؤ تک آ جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔