پی ٹی آئی کے کارکنوں کو مایوسی سے نکالنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت

رضوان آصف  بدھ 1 جولائی 2020
اتحادی نگاہیں پھیر رہے ہیں لیکن سب سے اہم یہ کہ اپنوں کا شکوہ دل سے نکل کر اب زبان پر آگیا ہے۔ فوٹو: فائل

اتحادی نگاہیں پھیر رہے ہیں لیکن سب سے اہم یہ کہ اپنوں کا شکوہ دل سے نکل کر اب زبان پر آگیا ہے۔ فوٹو: فائل

 لاہور:  وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے چند روز قبل اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اعزاز میں دیئے گئے عشایئے میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہمارے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے‘‘۔ان کے اس بیان نے میر ظفر اللہ جمالی کی یاد دلا دی۔

26 جون2004 کی جس شب جمالی صاحب نے وزارت اعظٰمی کے عہدے سے استعفی دیا تھا اسی روز صبح کے اخبارات کی لیڈ نیوز وزیر اعظم کا یہ بیان تھا کہ’’میں کہیں نہیں جا رہا،وزیر اعظم ظفر جمالی‘‘۔تحریک انصاف حکومت کے پایہ تخت اب پہلے جیسے مضبوط نہیں رہے۔ اتحادی نگاہیں پھیر رہے ہیں لیکن سب سے اہم یہ کہ اپنوں کا شکوہ دل سے نکل کر اب زبان پر آگیا ہے اور وہ کھلے عام اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

ویسے تو کسی بھی سیاسی جماعت نے حکومت میں آنے کے بعد اپنے کارکنوں اور چھوٹے رہنماوں کو زیادہ محبت اور قربت نہیں بخشی لیکن اس وقت جو حالت زار تحریک انصاف کے کارکن اور رہنما کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔عام کارکن کی بات کرنے سے پہلے ٹکٹ ہولڈرز اور تنظیمی عہدیداروں کی حالت کا تذکرہ بھی اشد ضروری ہے۔ جن ٹکٹ ہولڈرز کو الیکشن سے قبل عمران خان اپنی طاقت اور اپنا سرمایہ قرار دیتے تھے اب وہ ’’راندہ درگاہ‘‘ قرار پا چکے ہیں ،ان کے ساتھ اچھوت جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

وزراء ان کا کام کرنا تو دور کی بات ان کا فون سننا بھی گوارہ نہیں کرتے ۔چند ایک ٹکٹ ہولڈر جو اپنی انفرادی ساکھ اور افسروں تک رسائی رکھتے ہیں وہ اپنے کام براہ راست کروا لیتے ہیں۔ اس وقت دوطرز کی تحریک انصاف موجود ہے ۔پہلی ان لوگوں پر مشتمل ہے جو نوازے جا چکے ہیں جو منتخب اراکین اسمبلی ہیں یا پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں کم ازکم ضلعی سطح کے صدر یا جنرل سیکرٹری ہیں اور یا پھر وہ لوگ ہیں جنہیں پارٹی کے اندر موجود دھڑے بندی کی وجہ سے حکومتی محکموں میں چیئرمین، وائس چیئرمین  جیسے عہدوں سے نوازا گیا ہے ۔

دوسری تحریک انصاف ان پر مشتمل ہے جنہوں نے بحیثیت کارکن سالہا سال سے کپتان کے دعووں اور وعدوں پر اندھا یقین کیا، لانگ مارچ ہو یا دھرنا، لاک ڈاون ہو یا جلسہ ہر جگہ اپنی جیب سے خرچ کر کے پارٹی کے ساتھ حق وفاداری نبھانے کی کوشش کی ہے لیکن گزشتہ دو برس سے ان کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔

سب سے پہلے حکومتی تحریک انصاف کی بات کریں تو الیکشن جیتنے کی شام سے ہی ہر منتخب رکن اسمبلی خود کو وزیر سمجھنے لگ گیا تھا۔ حکومت کی تشکیل سازی میں بھی زیادہ تر وزراء ایسے لوگوں کو بنایا گیا جن کا پارٹی کی لئے کسی قسم کا نمایاں کام نہیں تھا اور آج یہی وزراء حکومت کی ناقص کارکردگی کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ تحریک انصاف کے ہر طاقتور رہنما نے اپنے چہیتوں کو نوازا ہے۔ اندر کی خبر رکھنے کی ذمہ دار ایجنسیوں سمیت سرکاری محکموں کے حکام اور میڈیا بخوبی جانتا ہے کہ غیر سرکاری عہدوں پر تعینات سیاسی افراد کی اکثریت(چند لوگ واقعی پارسا ہیں)نے کیا لوٹ مار مچا رکھی ہے۔

بالکل یہی صورتحال بعض وزراء کی بھی ہے جن کے بارے میں آئے روز نت نئی کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں لیکن ارباب اختیار اتنے بے بس ہیں کہ ان کے خلاف ایکشن لینے کی ہمت آج تک تو ہوئی نہیں۔ ٹکٹ ہولڈرز کے ساتھ روز اول سے سوتیلا پن برتا جا رہا ہے نہ تو وزیر ان کی بات سنتے ہیں اور نہ ہی افسر شاہی ان کے کہنے پر کوئی کام کرتی ہے ۔جس ٹکٹ ہولڈر کی ’’اوپر‘‘ تک رسائی ہے یا وہ اپنی سیاسی یا مالی طاقت کے لحاظ سے تحریک انصاف کی بیساکھی کا مرہون منت نہیں ہے وہ تو اپنے کام اپنے زور بازو پر کروا لیتے ہیں۔

ٹکٹ ہولڈرز کو ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز کا وعدہ کیا گیا لیکن کسی’’ذہین‘‘ نے یہ فارمولہ طے کردیا کہ فنڈز صرف اسی ٹکٹ ہولڈر کو ملیں گے جس نے 85 فیصد سے زائد ووٹ لیے ہوں گے ۔اس فارمولہ نے اکثریت کو فنڈز کیلئے’’نا اہل‘‘ بنا ڈالا ہے۔مثال کے طور پر لاہور جو گزشتہ 35 برس سے مسلم لیگ(ن) کا سب سے مضبوط گڑھ رہا ہے اور تمام تر کمزوری کے باوجود آج بھی یہاں ان کا زور ہے وہاں کے ٹکٹ ہولڈرز کیلئے بھی 85 فیصد ووٹ کی شرط کا مطلب یہی ہے کہ’’اسے ہماری جانب سے انکار ہی سمجھا جائے‘‘۔

لاہور سمیت سنٹرل پنجاب بشمول فیصل آباد وغیرہ میں تو یہ شرح 70 فیصد سے بھی کم رکھنا چاہیے تھی۔لاہور میں ابھی تک گنتی کے چھ یا سات افراد کو ترقیاتی فنڈز ملے ہیں۔مرحوم نعیم الحق اپنی زندگی میں جمشید اقبال چیمہ سمیت چند دوسرے من پسند افراد کیلئے فنڈز کی زبانی منظوری تو کروا گئے تھے لیکن ان کی وفات کے بعد ان لوگوں کو ایک پیسہ بھی نہیں ملا۔ تنظیمی عہدیداروںکی بات کی جائے تونچلی سطح پر تقرریوں کے نوٹیفیکیشن اندھے کی ریوڑیوں کی مانند بانٹے جا رہے ہیں اور یہ نوٹیفیکیشن لینے والے بھی کاغذ کا ٹکڑا لیکر خوش ہوجاتے ہیں ۔

ماسوائے چند بڑے تنظیمی عہدوں کے باقی کے سب تنظیمی عہدیدار’’فارغ‘‘ ہیں ۔ عام کارکن کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا تھا جب جہانگیر ترین کو ’’ٹارگٹ ‘‘ کیا گیا ،کارکن نے گزشتہ دس برس میں جس شخص کو دن رات اپنی صحت اور کاروبار کی پرواہ کیئے بغیر عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کیلئے انتھک محنت کرتے دیکھا، اپنی جیب سے اربوں روپے خرچ کرتے دیکھا ،حکومت بنانے کیلئے اراکین اسمبلی کی تعداد پوری کرنے کیلئے جدوجہد کرتے دیکھا اب یہی کارکن جہانگیر ترین کو کیسے ’’چور‘‘ تسلیم کرلے اسے بھی معلوم ہے کہ یہ سب کچھ ایک بڑی سازش کا نتیجہ ہے۔ یہ تو بھلا ہو گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور سینئر وزیر عبدالعلیم خان کا جنہوں نے اپنی حد تک کارکنوں کی دلجوئی کیلئے ان سے رابطہ برقرار رکھا ہوا ہے۔

گورنر پنجاب ویسے بھی عوامی آدمی ہیں اور یہی ان کی خوبی بھی ہے اور طاقت بھی انہوں نے کورونا لاک ڈاون کے دوران 13 لاکھ خاندانوں میں 5 ارب روپے سے زائد مالیت کا راشن اور ادویات تقسیم کی ہیں۔ اسی طرح عبدالعلیم خان اور ان کے قریبی ساتھی شعیب صدیقی نے لاہور میں نہ صرف اپنے حلقوں بلکہ دیگر حلقوں کے کارکنوں اور رہنماوں کے ساتھ روابط برقرار رکھے ہیں اور جو کچھ ان کیلئے ہو سکتا ہے وہ کرتے ہیں۔

اعجاز چوہدری نے صدر سنٹرل پنجاب کی حیثیت سے اچھا ’’ٹیک آف‘‘  کیا تھا لیکن ضلعی  وتحصیل تنظیموں کی صورتحال بہت خراب ہے،اول تو کوئی تنظیمی سرگرمی نہیں ہو رہی اور اگر کرنے کا سوچا جاتا ہے تو تمام تنظیم کو جمع کر کے ’’چندہ‘‘ جمع کرنے کی تنظیمی رسم ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نچلی سطح کے کارکن اور رہنما کو مایوسی سے باہر نکالا جائے، عزت اور اہمیت دی جائے کیونکہ اگر مستقل قریب میں ’’تبدیلی‘‘ آ گئی تو پھر نئے دھرنے کیلئے انہی کارکنوں سے قربانی مانگی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔