کورونا، ویکسین اور قومی تقاضے

ایڈیٹوریل  جمعرات 23 جولائی 2020
ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا کا واحد علاج ویکسین ہے

ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا کا واحد علاج ویکسین ہے

کورونا وائرس کی ویکسین کے اسی سال کے اختتام پر تیار ہونے اور مارکیٹ کیے جانے کا امکان پیدا ہوگیا ہے، چین کی تیار کردہ ویکسین برازیل میں آزمائش کے لیے پیش کی گئی ہے اور صحت ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسرے ٹرائل کے دوران اسے محفوظ اور موثر قرار دیا جارہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں اربوں ڈالر مالیت سے بننے والی ویکسین کب دکھی انسانیت کے لیے دنیا بھر میں دستیاب ہوگی۔

ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا کا واحد علاج ویکسین ہے، یہ اطلاعات بھی گردش میں ہیں کہ دنیا کی تیز ترین ویکسین مدافعتی ردعمل میں کامیاب ثابت ہوئی ہے، مسیحا اس کی تاثیر کا جائزہ لے رہے ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ کورونا وائرس ایک خطرناک اور گھناؤنا وائرس ہے جسے بچ کر نہیں جانے دیا جائے انھوں نے دعویٰ کیا کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود امریکا ویکسین کی ریسرچ میں سب سے آگے ہے اور بھارت کا نمبر دوسرا ہے۔

اس وقت عالمی صحت حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت کورونا کیسز کا مرکز بنا ہوا ہے، بھارتی حکومت کی بے تدبیری کے باعث ہلاکتوں اور کیسز کے پھیلاؤ کی شرح بہت زیادہ ہے، صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ چینی ہیکرز نے کووڈ 19 کی ریسرچ کو چوری کرنے کی کوشش کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کورونا کی شدت سے چھٹکارہ پانے کی کوششوں سے مستفید ہونے کے ثمرات سے استفادہ کرنا چاہتی ہے، متاثرہ ملکوں کے مریض وبا کے وحشیانہ حصار سے نکلنے کو بے تاب ہیں، پاکستان نے کورونا سے نمٹنے میں بلاشبہ درست و غلط کئی فیصلے کیے اور ان کے سنگین نتائج بھی بھگتے ہیں، وفاقی حکومت اول دن سے لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھی، وزیر اعظم عمران خان کا استدلال تھا کہ کورونا کو روکنا بھی ہے اور غربت کے آگے دیوار بھی قائم کرنی ہے۔

وہ پاکستان کے محدود صحت وسائل کے حوالہ سے ملکی معیشت، دیہاڑی دار مزدور، اوسط طبقے کے محنت کشوں اور ملازمین کے مسائل کے ساتھ ساتھ بیروزگاری کے ہولناک نتائج سے بھی عوام کو آگاہ کرتے رہے لیکن سیاسی محاذ آرائی، اپوزیشن اور حکومت کے درمیان الزام تراشی نے سب سے زیادہ جس صوبے کو کورونا کی جنگ میں اسٹریٹجی کے انتشار کا نشانہ بنایا وہ صوبہ سندھ تھا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ لاک ڈاؤن کی پالیسی کو سندھ انتظامیہ کا بنیادی پتھر کہتے رہے، یہیں سے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے، پھر لاک ڈاؤن کی تعریف اور اس کی معروضیت پر بحث چلی، وفاق کی طرف سے اسمارٹ لاک ڈاؤن کا نظریہ سامنے آیا، اسے بھی سندھ انتظامیہ کے موقف اور طرز عمل میں سختی کی وجہ سے وفاق کو کسی قسم کی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی، اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کے متاثرین کو اس سے شدید مشکلات کا سامنا ہوا، لاکھوں غریب مزدور کام پر نہیں جاسکے، علاقے سیل ہوئے، کاروبار بند ہوا، تجارتی سرگرمیاں معطل ہوگئیں، تاجروں نے ہڑتال کی دھمکیاں دیں۔

معاشی معاملات میں باقاعدگی کے بجائے بگاڑ نمودار ہوا، ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا، اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ مالیاتی اور قرضہ جاتی اعداد و شمار کی تفصیلات عوام کے لیے سوہان روح بن گئیں، بہرحال یہ قدرت کی طرف سے ایک بریک تھرو ہے کہ پاکستان میں کورونا کیسز میں کمی آئی ہے، وزیر اعظم نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ احتیاط کریں۔

عید کے دوران سماجی فاصلہ اور فیس ماسک کے استعمال میں غفلت نہ برتیں، سندھ حکومت بھی بار بار انتباہ کرتی چلی آرہی ہے کہ کیسز میں کمی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کورونا کو شکست ہوگئی ہے، بات بلاشبہ اسی نکتہ کی طرف لوٹ گئی ہے کہ وفاق اور صوبوں میں بے مثال اتفاق رائے، اشتراک عمل اور کورونا متاثرین کے لیے صحتیابی کے حتمی مشترکہ مقاصد کے حصول میں دنیا کو یقین دلایا جائے کہ قوم ایک پیج پر ہے، اور اس عفریت سے مقابلہ کرنے کے لیے جتنے بھی وسائل دستیاب ہونگے عوام کے لیے ہی استعمال کیے جائیں گے۔ اس لیے اب کورونا پر کوئی پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہونی چاہیے، اس مہلک وبا نے پاکستان کے معاشی مصائب میں اضافہ کیا ہے، غربت بڑھ گئی ہے، مہنگائی کی شرح بے حد و حساب ہوگئی ہے۔

سپریم کورٹ نے کورونا از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والوں کو سزائے موت ہونی چاہیے۔ عدلیہ نے کہا کہ ڈی جی سول ایوی ایشن عہدے کے اہل نہیں، جعلی لائسنس پر دستخط کرنے والے جیل جائیں گے۔ این ڈی ایم اے اور سول ایوی ایشن پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ تین مرتبہ حکم دینے کے باجود این ڈی ایم اے معلومات فراہم نہیں کر رہا، لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ہی ختم کرنا پڑے گا، شاید کورونا میں بہت کچھ غلط ہوا جس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں5 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس نے کہاکہ اصل مسئلہ قوانین پر عمل نہ ہونا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اداروں کو شفاف انداز میں چلنا چاہیے۔ صرف زبانی نہیں، دستاویز سے شفافیت دکھانی پڑے گی۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ انسانی صحت کے دشمن کسی رحم کے مستحق نہیں اور جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والوں کو سزائے موت ہونی چاہیے، دوران سماعت سول ایوی ایشن حکام بھی پیش ہوئے، چیف جسٹس نے کہا پوری دنیا میں ہمارا جعلی لائسنس کا سکینڈل مشہور ہوا، بہت سے اور سکینڈل پہلے سے مشہور تھے۔ پاکستان میں تمام برائیاں ایئرپورٹ سے آتی ہیں، لگتا ہے یہ آج آپ پر انکشاف ہو رہا ہے، ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا ہم اصلاحات لا رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا ہمیں کہیں اصلاحات نظر نہیں آرہیں، پائلٹوں کو لائسنس دینے کے وقت تمام کمپیوٹر بند ہو گئے، شرم کا مقام ہے پائلٹوں کے لائسنس جعلی نکلے۔ سی اے اے نے عوام کی زندگیاں داؤ پر لگا دیں، کسی افسر کے خلاف کارروائی نہیں کی۔

بھیانک جرم کرنے اور کرانے والے آرام سے تنخواہیں لے رہے ہیں۔ بدنامی میں پاکستان زمین کی تہہ تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کو دنیا کا کرپٹ ترین ملک کہا جاتا ہے، ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا فرانزک آڈٹ کے مطابق 262 لائسنس جعلی ہیں۔28 لائسنس منسوخ کرکے 189  کے خلاف کارروائی شروع کردی، چیف جسٹس نے کہا کہ سی اے اے کا تمام عملہ سمجھوتہ کر چکا ہے، تمام افسروں کو حصہ پہنچ رہا ہے، جعلی لائسنس دینے والے تمام افسران کو برطرف کریں۔ ان پر دستخط کرنے والے جیل جائینگے۔ حکومت کی منظوری سے معاملہ ایف آئی اے کو بھجوائیں گے۔

حکومت کو ٹھنڈے دل و دماغ سے کورونا کی شدت میں کمی کو سامنے رکھتے ہوئے بعد از کورونا صورتحال کا ماسٹر پلان ترتیب دینا چاہیے، یہ منصوبہ بندی کورونا کے ماہرین کی مشاورت سے ہونی چاہیے، عوام کے فہمیدہ حلقوں کو اس بات کا یقین دلایا جائے کہ حکومت کو عوام کی صحت عزیز ہے، کورونا کی غارت گری کا سدباب صرف اسی طرح ممکن ہیں کہ وبا کی روک تھام کے لیے ہر ممکن سہولتیں عوام کی ماہرین اور اسپتالوں کی پہنچ سے دور نہ ہوں، مالی معاملات کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے اور ڈاکٹروں کو جو فرنٹ لائن پر قومی جنگ لڑ رہے ہیں کسی قسم کی دشواری یا فنڈز کی کمی کا مسئلہ پیش نہیں آنا چاہیے، اگر کورونا نے سرینڈر بھی کرلیا تو بھی حکومت کا درد سر ختم نہیں ہوگا، بلکہ عمل کے لیے جو سپیس حکومت کو ملے گی اس میں ملکی معیشت کی تعمیر ہوسکتی ہے، عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور روزگار مہیا کرنے کی تدبیر ہونی چاہیے جب کہ سیاست میں سنجیدگی، تعاون، افہام و تفہیم اور سیاسی بالغ نظری اور کشادہ دلی کے ساتھ عوام کو ریلیف دینے کی کوشش ہونی چاہیے۔

مویشی منڈیوں کی صورتحال مزید ٹھوس انتظامات اور اقدامات کا تقاضہ کرتی ہے، کوئی دو رائے نہیں کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، قربانی کے جانوروں کی خریداری کے لیے منڈیوں میں وہ گہماگہمی اور جانوروں کے انتخاب اور خریداری کی رفتار سست ہے، قربانی کے جانور خریدنے والوں کا کہنا ہے کہ بیوپاریوں نے دام بے پناہ بڑھا دیے ہیں، ایک عام آدمی کے لیے قربانی کا سستا جانور خریدنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے، یوں تو ہر قسم کے خوبصورت، صحت مند اور تازہ و فربہ گائیں، بیل، بکرے، بھیڑیں اور اونٹ موجود ہیں مگر مہنگائی کی شکایت ہر شہری کے لبوں پر ہے، ارباب اختیار کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ سنت ابراہیمی کی ادائیگی میں ہر مومن مسلمان کو استعداد کے مطابق قربانی کی سہولت ملنی چاہیے، بیوباری حضرات اپنا فائدہ ضرور پیش نظر رکھیں مگر قربانی کے جانوروں کی قیمتیں مناسب رکھی جائیں۔

اب دن ہی کتنے باقی رہ گئے ہیں، اس لیے قربانی کے خواہش مندوں کی پریشانی کا خیال کریں ان کے دلی اطمینان کے لیے ریٹ میں کمی کریں۔ دوسری طرف حکومت کو عیدالاضحی اور اس کے بعد محرم الحرام کے دوران سیکیورٹی کے انتظامات کو شفاف اور موثر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، صوبائی حکومتوں کی جانب سے تھریٹ الرٹ پر مستعدی اور چابک دستی میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے، دہشتگری کے خدشات پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، ملک دشمنوں سے خبردار رہنے کا وقت ہے، عوام اپنی صفوں میں مکمل اتحاد و اتفاق برقرار رکھیں، یہ وقت کا تقاضہ ہے۔ قوم حالت جنگ میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔