کراچی کے مسائل حل کرنے کیلئے سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت

عامر خان  بدھ 19 اگست 2020
پیپلز پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ فوٹو : فائل

پیپلز پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ فوٹو : فائل

کراچی:  کراچی اس وقت ملک کی سیاست کا محور بن گیا ہے۔ پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان نے شہر کے مسائل کا نوٹس لیتے ہوئے مختلف کیسوں کی سماعت کے دوران اہم ریمارکس دیئے۔اس کے بعد عدالت میں ہی اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے اس بات کا عندیہ دیئے جانے کے بعد وفاق کراچی کے حوالے سے مختلف آپشنز پر غور کر رہا ہے مگر پیپلز پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے واضح طور پر کہا کہ وفاق نے کراچی کو اپنی کالونی بنانے کی کوشش کی تو مخالفت کریں گے، کراچی سے متعلق غیرآئینی کام کو عدالتی کور ملا تو یہ سندھ پر حملہ ہوگا۔پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں بھی کراچی کا مسئلہ زیر بحث رہا اور پارٹی قیادت کا انتہائی سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ خواب پورا نہیں ہوگا کہ کراچی کا ریونیو اسلام آباد استعمال کرسکے، کیونکہ کراچی سندھ کا حصہ ہے، ہمیشہ رہے گا۔

ابھی یہ معاملات زیر بحث ہی تھے کہ یہ اطلاعات سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ کراچی کے مسائل کے حل کیلئے پاکستان تحریک انصاف ،پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ذرائع کا اس حوالے سے دعویٰ تھا کہ 13 اگست کو اسلام آباد میں وزیراعلی سندھ نے صوبے کے دو وزرا کے ہمراہ، ایک اہم شخصیت اور تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد فیصلوں کی منظوری پر مشاورت کے لیے وقت مانگا گیا تھا۔یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ اس کمیٹی کے چیئرمین وزیراعلی سندھ ہوں گے جبکہ ان کے علاوہ وفاقی وزیر اسد عمر، علی زیدی اور امین الحق کمیٹی کے رکن ہوں گے۔

مزید یہ کہ سعید غنی، ناصر شاہ کمیٹی میں صوبائی حکومت کی نمائندگی کریں گے تاہم وزیراعلیٰ سندھ نے ایک پریس کانفرنس اس بات کی وضاحت کی ہے کہ  پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان کراچی کے بارے میں مل کر کام کرنے کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ان کاکہنا تھاکہ ہم صرف ایک بات کہتے ہیں کہ ہم آئین اور قانون کے حساب سے کام کریں گے۔

مراد علی شاہ اس پریس کانفرنس میں کافی جارحانہ موڈ میں نظرآئے۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی آئین میں موجود ایگزیکٹو اختیارات کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ باتیں اس وقت شروع ہوئیں جب کراچی میں برسات ہوئی اور حالات خراب ہوئے، ملک کے اور حصوں میں بھی برسات ہوئی اور وہاں بھی یہی حالت تھی بلکہ اس سے زیادہ خراب تھی کیونکہ کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سرمایہ کاری کی ہے اور اس سے حالات بہتر ہوئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف اس معاملے کو لے کر کافی متحرک نظر آرہی ہے۔پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ کراچی کی ترقی اور بہتری کے لئے ہم نے پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملا کر کڑوا گھونٹ پیا ہے تاکہ کراچی کے عوام کو کچھ ریلیف مل جائے۔ 12سال سے صوبہ سندھ اور خصوصا کراچی کے ساتھ پیپلز پارٹی سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے۔ ہماری سوچ ہے کہ جمہوری طریقے سے عوام کے مسائل حل ہوں ۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بھی وضاحت کی ہے کہ کراچی پر کوئی خصوصی کمیٹی نہیں صرف اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ورکنگ کمیٹی تشکیل پائی ہے۔اس کمیٹی کا مینڈیٹ صرف کراچی کی صفائی تک محدود ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی میں ایک ڈیزاسٹرہوا اسلئے وفاق نے این ڈی ایم اے اور فوج کو متحرک کیا ہے۔ اس تمام تر صورت حال میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ  ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی اس وقت مختلف مسائل کا سامنا کر رہا ہے اور حالیہ بارشوں کے بعد شہر میں نالوں اور علاقوں کی صفائی نہ ہونے کے بعد صورتحال انتہائی خراب ہوگئی تھی۔

سپریم کورٹ نے کراچی رجسٹری میں کیس کی سماعت کرتے ہوئے شہریوں کی مدد کے لیے وفاق کے آنے کو سندھ حکومت کی ناکامی قرار دیا تھا۔عدالت عظمیٰ کے احکامات کے بعد ہی کراچی میں وفاق کی مداخلت کے حوالے سے خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں تاہم وزیراعلیٰ سندھ اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی کمیٹی قائم بھی کی گئی ہے تو اس کا دائرہ کار محدود ہے۔اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت نہیں کہا جا سکتا ہے۔

سید مراد علی شاہ نے پریس کانفرنس میں جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے اور جس انداز میں واضح کیا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کسی کے ساتھ شیئر نہیں کریںگے اس سے سب کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ کوئی غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام وفاق کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ جمہور ی نظام کی بھلائی اسی میں ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں اور کوئی کسی کے کام میں مداخلت نہ کرے۔ان تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اتفاق رائے سے شہر کی اسٹیک ہولڈرز جماعتیں مل کر کام کرنے پر آمادہ ہوتی ہیں تو یہ کراچی کے لیے نیک شگون ہوگا لیکن اس کے لیے تینوں میں جماعتوں میں باہمی اعتماد رشتہ قائم کرنا انتہائی ضروری ہوگا۔

پاکستان پیپلزپارٹی سندھ نے وفاق کی جانب سے کراچی میں مداخلت،18ویں ترمیم پر حملے ، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف 19اگست کو صوبے بھر میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔اس ضمن میں پارٹی کے صوبائی صدر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی نظریں کراچی کے ریونیو پر ہیں۔ ہم سندھ کے کسی شہر کو کسی کی کالونی نہیں بننے دیںگے۔ مبصرین کے مطابق پیپلزپارٹی کے لیے کراچی کا ایشو انتہائی حساس ہے اوروہ ہر سطح پر اس حوالے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتی ہے۔صوبے بھر میں احتجاج سے پیپلزپارٹی وفاق کو پیغام دینا چاہتی ہے کہ کراچی میں کسی قسم کی مداخلت صوبے کے عوام کو قابل قبول نہیں ہوگی۔

وزیراعلی سندھ نے  8.3 ملین بچوں کوپولیو کے قطرے پلانے کے لیے او پی وی کے تحت مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اس موقع پر سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ  پاکستان اور افغانستان کے علاوہ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہے جو کہ کافی تکلیف دہ ہے۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کیلئے حکومت سے تعاون نہیں کر رہے۔ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث پولیو مہم تعطل کا شکار تھی۔ اب صوبائی حکومت کی جانب سے دوبارہ اس کا آغاز کیا گیا ہے۔ پولیو فری پاکستان کے لیے زندگی کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے قریب واقع کینجھر جھیل میں کشتی الٹنے سے ایک ہی خاندان کی 10 خواتین اور بچے جاں بحق ہوگئے۔ جن میں دو ماؤں سمیت ان کی تین تین بیٹیاں اور ڈیڑھ سالہ بچی بھی شامل ہے جب کہ دو خواتین اور ایک بچی کو بچا لیا گیا۔تفریحی خصوصا ساحلی مقامات پر ماضی میں درجنوں واقعات ہوچکے ہیں لیکن سندھ حکومت اور سول انتظامیہ کی جانب سے ان مقامات پر حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔حالیہ افسوس ناک واقعہ کے بعد ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے کینجھرجھیل سمیت دیگر تفریحی مقامات کے لیے ایس او پیز بنائی جائیں اور حفاظتی انتظامات کے لیے ہنگامی اقدام کیے جائیں تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔

ملک بھرکی طرح سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی ملک کا 73واں جشنِ آزادی جوش وخروش سے منایاگیا۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل ، وزیرِ اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور دیگر نے بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی۔ مزار پر پھول رکھے اور فاتحہ خوانی کی۔ جشن آزادی کے موقع پر مزار قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی پر وقار تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا۔

پاکستان نیول اکیڈمی کے کیڈٹس نے مزار قائد پر گارڈ کے فرائض سنبھال لیے۔کورونا وائرس کی صورت حال قابو میں آنے کے بعد شہر قائد کے باسیوں نے پرجوش انداز میں جشن آزادی منایا ۔ پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے لوگ خوبصورتی سے سجائے گئے مقامات پر یادگار وقت گزار تے رہے ۔کراچی کی شاہراہوں پر بہت گہما گہمی دیکھنے میں آئی، شہر کے بیشتر مقامات پر آزادی کے دن کی مناسبت سے رونقیں عروج پر ر ہیں۔ شہر کی مساجد میں نمازِ جمعہ کے اجتماعات میں ملک کی سلامتی، خوش حالی اور ترقی کے لیے دعا بھی مانگی گئی۔ پولیس و ٹریفک پولیس اور رینجرز  اہلکار بھی شہر میں بیجز پہنے پرچم لگائے، پرچم کے رنگوں کے ماسک پہنے ڈیوٹی انجام دیتے نظر آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔