کراچی آپریشن: آگے بڑھیے یا راستہ چھوڑ دیجیے

اقبال یوسف  منگل 17 دسمبر 2013

کراچی میں آپریشن کو تین ماہ ہو رہے ہیں، بلا شبہ اس دوران بڑی اہم پیش رفت بھی ہوئی ہے، سیکڑوں ڈاکو، دہشت گرد، ٹارگٹ کلر، بھتہ خور، لینڈ مافیا کے مجرم اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہزار سے زائد افراد گرفتار ہوئے لیکن صرف 43 افراد کے مقدمات عدالتوں میں گئے جس سے آپریشن کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہفتے میں دو دن سکون اور پھر وہی منظم دہشتگردی، قتل و غارتگری کے واقعات شروع ہو جاتے ہیں جو 1992 کے آپریشن اور پھر 1995 کے آپریشن میں تھے۔ آج 2013کے آپریشن کے کپتان سید قائم علی شاہ کے بیانات اور دعوے جب کہ 1995کے ڈپٹی کپتان مرحوم سید عبداﷲ شاہ (ڈپٹی کپتان اس لیے تحریر کیا کہ اس آپریشن کے کپتان مرحوم جنرل نصیر اﷲ بابر تھے) کے بیانات ایک ہی جیسے ہیں۔ ملاحظہ فرمایے سید عبداﷲ شاہ کا بیان جو مورخہ 15جولائی 1995کے اخبارات میں شایع ہوا اس نوعیت کے ہیں ’’آخری دہشتگرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا، ہم مجرموں کی پناہ گاہیں ختم کر دینگے‘‘ اس طرح اس وقت کے وزیر داخلہ کا بیان ہے ’’قتل و غارت جاری رہی تو بڑا آپریشن ہو گا‘‘۔ دہشتگردوں کی قیادت سے ملنے والی زنجیر توڑ دینگے۔ ’’6 ماہ میں کراچی کو دہشتگردی سے پاک کر دیا جائے گا۔‘‘ قائم علی شاہ دسمبر 2013 میں وہی بیانات دے رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا‘‘ اسی طرح وزیر داخلہ چوہدری نثار علی بیان دیتے ہیں ’’آپریشن کا دوسرا مرحلہ سخت ہو گا‘‘ اور پھر فرماتے ہیں کہ ’’6 ماہ میں کراچی کو دہشت گردی سے پاک کر دیا جائے گا۔‘‘

بیانات میں مماثلت مسئلہ نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہر آپریشن جذبہ حب الوطنی اور نیک نیتی کے ساتھ شروع کیا گیا لیکن سیاسی مصلحت کے تحت غیر جانبداری کا راستہ ترک کر کے امتیاز اور مفاہمت کی پالیسی شروع کر دی جاتی ہے اس لیے آج کی صورتحال میں کسی طرح مکمل کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کراچی میں خصوصاً اور پورے ملک میں عموماً بدامنی، دہشتگردی اور قتل و غارتگری میں بیرونی قوتوں کا ہاتھ رہا ہے، آج بھی ہے اور اب اس میں شدت آ رہی ہے۔ ہم سب حقائق سے آگاہ ہیں، تڑپتے ہیں، خون کھولتا ہے، فرط جذبات میں ’’ہر گز نہیں بخشیں گے‘‘ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن پھر دائیں بائیں دیکھنے لگتے ہیں۔ یہی پالیسی ملک دشمن قوتوں کو تازہ دم کر دیتی ہے، ہم اپنے دشمن کو پہنچانتے ہیں، جانتے ہیں مگر مانتے نہیں بلکہ وقتی مفادات کے لیے یکسر پالیسی تبدیل کر لیتے ہیں پھر اپنی حماقتوں پر خود ہی ماتم کرتے ہیں۔

کراچی میں امن و امان کی بدترین صورتحال چند ماہ یا چند سال کی پیدا کردہ نہیں ہے، یوں تو کراچی کو برباد کرنے کی سازش پاکستان کی ابتدائی تین دہائیوں 1947 سے 1970 تک ہوتی رہی لیکن سقوط ڈھاکا کے بعد ’’یہود اور ہنود‘‘ دونوں کی مشترکہ سازش کے تحت کراچی کو نشانہ بنایا گیا کیونکہ دشمنوں کا خیال تھا کہ سقوط ڈھاکا کے بعد بقیہ پاکستان بھی چار پانچ حصوں میں تقسیم ہو جائے گا لیکن اس سوچ کے برخلاف پاکستان کے محب وطن عوام اور جرأت مند پر عزم قیادت نے شکستہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا آغاز کر دیا اور پاکستان مستحکم ہونے لگا۔ یہ صورتحال دشمنوں کے مقاصد کو تاراج کر رہی تھی چنانچہ سندھ میں لسانی فسادات کرائے گئے، شہری اور دیہی تقسیم کی آگ کو شدت کے ساتھ ہوا دی گئی، چنگاریاں سلگتی ضرور رہیں لیکن شعلہ نہیں بن سکیں۔ اسلامی سربراہ کانفرنس پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد اور بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر برق رفتاری کے ساتھ کام سے یہود و ہنود کے ناپاک عزائم کو دھچکا لگا اور دشمن نے اپنی کارروائی کا دائرہ وسیع کر کے اپنی سازشیں تیز کر دیں۔ صوبہ سرحد میں حیات محمد خان شیرپائو کو بم دھماکے میں قتل کر کے وہاں کشیدگی کا آغاز ہوا، دوسری طرف بین الاقوامی سازش کے تحت شاہ فیصل کو شہید کر دیا گیا، انور سادات کا قتل، بومدین کا قتل اسی سازش کا تسلسل ہے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو سقوط ڈھاکا کے بعد سے اس سازش کو سمجھ رہے تھے اور نئے پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہے تھے وہ جانتے تھے کہ 2000 میں جب ہانگ کانگ عوامی جمہوریہ چین کے پاس واپس چلا جائے گا تو بین الاقوامی تجارت کے لیے یورپ اور وسط ایشیا کے لیے کراچی کی بندرگاہ انتہائی اہمیت کی حامل ہو جائے گی، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا اس لیے انھوں نے کراچی کو سب سے زیادہ اہمیت دی، پورٹ قاسم کی نئی بندرگاہ اس کے قریب ہی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون پاکستان اسٹیل کشادہ شاہراہوں، نئے عظیم رہائشی منصوبوں اور مواصلات کے نئے منصوبوں کا آغاز اسی وژن کے تحت ہی کیا گیا تا کہ کراچی بتدریج ترقی کرتا جائے اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھتی جائے یہ صورتحال پاکستان دشمن ’’یہود و ہنود‘‘ کے مذموم منصوبوں کے خلاف تھی، دشمن نے اپنی سازشوں کو تیز کیا۔ 1976 کے وسط میں پاکستان میں انتہا پسند مذہبی قوتوں اور بھٹو دشمن قوتوں کو استعمال کیا گیا اور ہمارے کئی لبرل سیاستدان اور ادارے غیر شعوری طور پر اس سازش کے اسیر ہوتے گئے، مارچ 1977 کی انتخابی مہم میں نظام مصطفیٰ کا نعرہ لگایا گیا اور انتخابات کے بعد بھٹو مخالف تحریک کے لیے کراچی کو مرکز بنا لیا گیا۔

آج پورے ملک میں جو دہشتگردی ہے، مذہبی انتہا پسندوں نے اس کا آغاز 1977 سے کیا تھا، آج اس کی انتہا پورے ملک میں نظر آ رہی ہے۔ مخالفین میں کامیاب مذاکرات ہوئے لیکن پھر بھی مارشل لاء لگا دیا گیا۔ ضیاء حکومت نے اپنے اقدام کی حمایت میں مذہبی قوتوں کو ساتھ ملایا اور اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل، سیاسی کارکنوں پر مظالم کی انتہا اسی سازش کا تسلسل تھا جس کے تحت شاہ فیصل اور اسلامی رہنمائوں کا قتل کیا گیا۔ بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد جنرل ضیاء نے مذہبی قوتوں کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا جن کی حمایت سے ضیاء کے مارشل لاء کو تقویت ملی تھی۔ جنرل ضیاء نے اسلام کے نام پر ایسی اصلاحات کا آغاز کیا جو اسلام سے متصادم تھیں اور فرقہ واریت کے فروغ کے سبب بنیں۔ 1980 میں افغانستان پر روس کی یلغار نے پاکستان دشمن قوتوں کی سازشوں کو مزید وسعت دی۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے ’’افغان جہاد‘‘ شروع کر دیا اور اس آگ کو مسلم نوجوانوں کا ایندھن فراہم کیا گیا۔ یہی آگ پھیلی اور آج سارا پاکستان جل رہا ہے۔

1990 کی دہائی میں جو بین الاقوامی سرمایہ کاری کراچی کے لیے ہونے تھی وہ متحدہ عرب امارات میں ہوئی اور دبئی ہانگ کانگ بن گیا۔کراچی آپریشن کو 3 ماہ ہو رہے ہیں، ہزاروں چھاپے، ہزاروں محاصروں، گرفتاریوں کے باوجود فتنہ کم ہو رہا ہے نہ ختم ہو رہا ہے کیونکہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن رہے ہیں۔ کراچی آپریشن باقاعدہ شروع ہونے سے صرف 3 دن قبل اچانک کراچی کے مختلف تھانوں میں تقریباً 150 افراد کو حراست میں لیا جاتا ہے، رات 12 بجے تک یہ گرفتاریاں مکمل ہوئیں اور دوسرے دن تمام افراد رہا کر دیے جاتے ہیں۔ کیا یہ لوگ واقعی بیگناہ تھے؟ اگر تھے تو اس بات کی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کس نے ان کی گرفتاریوں کا حکم دیا اور اس کے مقاصد کیا تھے؟ کراچی میں جاری آپریشن میں جن خطرناک مجرموں کی گرفتاری اور ان کے اقبال جرم کی نوید سنائی جاتی ہے، ان کو فی الفور عبرتناک انجام تک کیوں نہیں پہنچایا جا سکتا؟ ان کی فہرست اور تصویریں کیوں میڈیا کو جاری نہیں ہوتیں؟ ایک بار پھر آپریشن کے 90 دن مکمل ہونے پر اپنی تمام کارگزاری کا جائزہ لیں اور فیصلہ کریں کیونکہ مکمل امن کے قیام کے لیے تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لیے آگے بڑھو یا راستہ چھوڑ دو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔