سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں ماحولیاتی آلودگی کا تدارک

محمد ریاض علیمی  جمعـء 11 دسمبر 2020
حضور نبی کریمؐ نے صفائی کے جو اصول بتائے ہیں ان میں گلیوں، محلوں اور راستوں کی صفائی بھی شامل ہے۔ فوٹو : فائل

حضور نبی کریمؐ نے صفائی کے جو اصول بتائے ہیں ان میں گلیوں، محلوں اور راستوں کی صفائی بھی شامل ہے۔ فوٹو : فائل

ماحول کے لغوی معنی اردگرد کے ہیں یعنی ہر وہ چیز جو جان دار پر اپنا اثر رکھتی ہو اسے ماحول کہتے ہیں۔

مجموعی طور پر زمین، فضا اور پانی کو ماحول کہتے ہیں جس میں تمام حاتیاتی، طبیعاتی اور کیمیائی اجزاء و عناصر شامل ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہے اسے ماحول کہا جاتا ہے۔ عام طور پر ماحول کا اطلاق ہمارے ارد گرد موجود تمام اشیاء پر ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ وسیع مفہوم کا حامل ہے جس سے مراد پوری دنیا ہے۔

بعض مفکرین نے ماحولیاتی آلودگی کو ہوا کی آلودگی، پانی کی آلودگی ، زمینی آلودگی، مٹی کی آلودگی تک محدود کردیاہے۔ لیکن معاشرتی آلودگی، اخلاقی آلودگی، سیاسی آلودگی، تعلیمی آلودگی اور معاشی آلودگی کو ماحولیاتی آلودگی میں شامل نہیں کیا جاتا۔اگر بہ نظرِ غائر ماحول اور ماحولیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ آلودگی محض ہوا، پانی اور مٹی تک محدود نہیں رہتی بل کہ اس میں وہ تمام اقسام کی آلودگی شامل ہوتی ہے جو ہمارے ارد گرد پائی جاتی ہیں۔

اگرچہ یہ بات یقینی ہے کہ ہوا، پانی اور مٹی کی آلودگی انسانی صحت کو شدید متاثر کرتی ہے۔ لیکن اس بات سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی آلودگی بھی انسانی کردار کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ مختصر یہ کہ انسان ماحول کی خرابی سے دو طرح سے متاثر ہوتا ہے ایک ذہنی اور اخلاقی طور پر اور دوسرا جسمانی طور پر۔

مختلف آلودگیوں کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں، لیکن عمومی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ صنعتی انقلاب نے زمینی اور فضائی آلودگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ تیزی سے بڑھتا ہوا صنعتی عمل، بڑی مقدار میں فاسد مادوں کی پیدا کاری، جنگلات کی کٹائی، پینے اور زراعت کے غیر معیاری پانی کی وجہ سے پاکستان کو نہایت گھمبیر ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے سبب نت نئے کارخانے اور صنعتی ادارے قائم ہورہے ہیں۔

ان صنعتی اداروں میں استعمال ہونے والے ایندھن کی وجہ سے ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس طرح ان کے فاسد مادوں کے اخراج کی وجہ سے طبعی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔ اسی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے بعد کیمیائی زرعی ادویات ایجاد ہوئیں جس سے زیادہ پیداوار کا حصول تو ممکن ہوگیا لیکن ان ادویات کے استعمال کی وجہ سے زمین میں مضر اثرات بھی پیدا ہوئے۔ اسی وجہ سے بعض نباتات آلودہ زمین سے کیمیاوی اجزاء کے ذریعے اپنے اندر زہریلے اثرات رکھتے ہیں۔

نتیجتاً ان زہریلی ادویات کا اثر انسانی جسم پر نظر آنا شروع ہو چکا ہے۔ زراعت کے استعمال میں ہونی والی کیڑے مار دوائیاں زمینی پانی کو آلودہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کے علاوہ کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں اور سیوریج کا گندہ پانی فضائی اور آبی آلودگی کا باعث ہیں جن کی وجہ سے کاشت کاری اور فصلیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب ان فصلوں سے حاصل کی جانے والی غذا انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے تو یہ دھاتی اجزاء معدے، جگر اور گردوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔

فضائی آلودگی: انسانی صحت کے لیے کھلی فضا اور صاف ہوا میں سانس لینا بہت ضروری ہے لیکن اس ترقی یافتہ دور میں انسان کو نہ صاف ہوا میسر ہے اور نہ ہی کھلی فضا۔ اس جدید ترین دور میں انسان آلودہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس آلودہ زندگی سے انسان بے شمار بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے۔

بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے جو ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ ہر قسم کی آلودگی کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر انسانی رویوں میں تبدیلی ضروری ہوتی ہے۔ فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے اسلام میں درخت لگانے اور ان کی حفاظت پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ یہ سبزہ ہی ہے جس سے فضائی آلودگی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ درخت لگانا ماحول کو خوش گوار بنانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اس کارِخیر کا درس دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ سیرتِ النبی ﷺ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے بہ نفسِ نفیس درخت بھی لگائے اور درخت لگانے کی ترغیب بھی دی۔ اسی طرح آپ ﷺ نے زمین کو غیرآباد چھوڑنے کے بہ جائے اس کو زراعت کے ذریعے شاداب رکھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی۔

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جب کوئی مسلمان شجر کاری یا کاشت کاری کرتا ہے پھر اس میں سے کوئی پرندہ، انسان یا حیوان کھاتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری)

شجر کاری کی فضیلت پر ایک روایت میں حضور نبی کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص کوئی درخت لگاتا ہے تو جتنا اس کے ساتھ پھل لگتا ہے، اتنا ہی اﷲ تعالیٰ اس کے لیے اجر لکھتا ہے۔‘‘ (کنزالعمال) حضور نبی اکرمؐ نے جس طرح پیڑ اور پودے لگانے کی ترغیب فرمائی ہے اسی طرح بلاوجہ پیڑ کاٹنے اور پودے اکھاڑنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ یہاں تک کہ آپؐ نے بلاوجہ پیڑ کاٹنے والوں کے لیے وعید فرمائی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص کسی پیڑ کو (بلاضرورت) کاٹے گا، اﷲ تعالیٰ اس کا سر جہنم میں ڈالے گا۔‘‘

زمینی آلودگی: زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے فصلوں پر کیڑے مار ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے پیداوار میں تو اضافہ ہوجاتا ہے، لیکن ان ادویات کے استعمال سے مٹی کے اوپر کی تہہ کی زرخیزی خاصی کم ہو جاتی ہے۔ پوری دنیا بالخصوص پاکستان میں دیگر آلودگیوں کے ساتھ زمینی آلودگی بھی ایک بہت سنگین مسئلہ ہے۔ زمینی آلودگی کی وجوہات میں سے بڑی وجہ اردگرد کے ماحول کو پاک صاف نہ رکھنا ہے۔ بہ الفاظ دیگر ہر جگہ گندگی پھیلانا اور کوڑا کرکٹ ڈالنا زمینی آلودگی کو جنم دیتا ہے۔

حضور نبی کریمؐ نے صفائی کے جو اصول بتائے ہیں ان میں گلیوں، محلوں اور راستوں کی صفائی بھی شامل ہے۔ آپؐ نے متعدد احادیث مبارکہ میں گندگی پھیلانے سے منع فرمایا ہے اورگندگی پھیلانے والوں کی مذمت فرمائی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہمیں اپنی ذمے داریوں کا احساس دلاتا ہے کہ گلیوں، راستوں ، شاہ راہوں اور میدانوں میں گندگی اور غلاظت کی چیزیں نہ ڈالی جائیں کیوں کہ غلیظ، بدبودار اور مردار چیزیں ڈالنے سے ارد گرد کا ماحول آلودہ ہوتا ہے جس سے پورا محلہ اور علاقہ متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا حکومت کے ساتھ بالخصوص عوام پر بھی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے ارد گرد کے ماحول کو ہر طرح کی آلودگی سے پاک رکھنے کی ذمے داری عاید ہوتی ہے۔

آبی آلودگی:

پانی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس گمبھیر مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ پانی کے گھٹتے ذخائر نیز پانی کی آلودگی۔ اس آلودگی کے لیے کئی عوامل ذمے دار ہیں۔ ہماری صنعتیں بالخصوص رنگ، کیمیکلز، کھاد اور دیگر جراثیم کش ادویات ایک طرف تو گہرا گھنا دھواں چھوڑ کر ہوا کو آلودہ کرتے ہیں دوسری جانب ایسے صنعتی فاضل مادے خارج کرتے ہیں جو تالابوں ، ندیوں حتیٰ کہ سمندر کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔

(بہ حوالہ: ماحولیات اور انسان)

عمومی طور پر پوری دنیا میں بالخصوص پاکستان میں آبی آلودگی بھی انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ آبی آلودگی کو صحت کا سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ عدم توجہی کے پیشِ نظر یہ مسئلہ انتہائی سنگین صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ صنعتی علاقوں کا کثیف مادہ عموماً صاف کیے بغیر ہی ندی نالوں اور دریاوں میں بہا دیا جاتا ہے۔ اس سے ناصرف آبی حیات متاثر ہوتی ہے بل کہ ایسے پانی کو زراعت کے لیے استعمال کرنے سے کئی مضر کیمیائی اجزاء پودوں کی جڑوں میں سرایت کر جاتے ہیں۔ ایسی فصل کو بہ طورِ خوراک استعمال کرنے سے انسانی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

انسانی زندگی کی بقاء کے لیے صاف پانی کی فراہمی انتہائی ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائیٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ انسانی فضلہ کی پینے کے پانی میں ملاوٹ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ناصرف سیوریج کے نظام کو بہتر کرنا ضروری ہے بل کہ پینے کے پانی کی بھی صفائی کرنے کی ضرورت ہے۔

سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معاشرے کو ہر قسم کی آلودگی سے بچانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر سر انجام دینے والی کاوشوں کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور اس خطرناک مسئلے سے بچنے کے لیے راہ نما اصولوں کی نشان دہی کی ہے۔ آپ ﷺ نے زمینی آلودگی کے سدباب کے لیے کھیتی باڑی اور شجر کاری کی ترغیب دی ہے۔ آبی آلودگی سے بچنے کے لیے پانی کو صاف رکھنے اور اس میں گندگی نہ ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ ہوائی آلودگی کے روک تھام کے لیے ہوا کو بدبو اور گندگی سے پاک کرنے کی تعلیم دی ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے یہ نبی کریم ﷺ کی ایک بھر پور کوشش اور موثر حکمتِ عملی تھی جو آج کے دور میں بھی ہمارے لیے راہ نمائی کا بہترین ذریعہ ہے اور آج کے جدید دور میں بھی ان ہدایات پر عمل کیے بغیر ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام مشکل ہے۔ آلودگی سے پاک معاشرہ ہی جدوجہد حیات اور ترقی کی رفتار میں زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکتا ہے۔ ماحول، انسانوں اور قوموں کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جہاں ماحول انسان سے متاثر ہوتا ہے، وہاں انسان بھی اپنے ماحول سے اثر پذیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسان اپنے ماحول کی نمائندگی کرتا ہے تو ماحول انسان ہی کا دوسرا روپ ہے، گویا دونوں ایک دوسرے کے لیے نا گزیر ہیں۔

(بہ حوالہ: ماحولیاتی آلودگی)

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم آج ہی سے اپنی ذمے داریوں کو پورا کریں۔ ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے سب سے مفید اور کار آمد اقدام پورے ملک میں شجرکاری کرنا ہے۔ شجر کاری کے پروگرام کو کام یاب بنانا محض حکومت یا کسی ایک محکمہ کے بس کی بات نہیں ہے، اس پروگرام کو کام یاب بنانے میں ہر شہری کو اپنا حصہ ڈالنا ضروری ہے۔ اسی طرح شہروں، محلوں، سڑکوں اور گلیوں کو آلودگی سے پاک رکھنا پوری قوم کا اجتماعی فریضہ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام میں جب تک پوری قوم اجتماعی طور پر شامل نہیں ہوگی اس وقت تک کام یابی کا حصول ممکن نہیں ہوسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔