غم ایک خاموش استاد

مدیحہ ضرار  بدھ 13 دسمبر 2023
زندگی میں آزمائشیں آتی اور جاتی رہتی ہیں اور اکثر خود کو دہراتی بھی  ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

زندگی میں آزمائشیں آتی اور جاتی رہتی ہیں اور اکثر خود کو دہراتی بھی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

زندگی کی اس ڈور میں سب سے زیادہ جو بات ایک انسان کو متاثر کرتی ہے، وہ غم ہے جس کا وہ کسی صورت بھی متلاشی نہیں رہتا۔ کہتے ہیں اگر کوئی چیز انسان کو مار نہیں سکتی تو وہ اسے مضبوط کرکے ضرور چھوڑتی ہے اور یہی حال اس غم کا بھی ہے۔ ہم میں سے کئی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے زندگی میں ایسی کیفیات کا سامنا کر رکھا ہو یا اپنے قریبی لوگوں کو اس میں مبتلا پایا ہو۔ کسی اپنے کا بچھڑ جانا، مہلک بیماری سے جنگ، طلاق کی صورت میں علیحدگی، بے روزگاری یا دیگر ایسی کئی صورتحال کا شکار انسان تکلیف دہ تناؤ، تلخی، افسردگی اور مستقل بے چینی کا شکار نظر آتا ہے۔

قدرت کا ایک قانون ہے کہ وہ کسی کو اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں دیتا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ غم و تکالیف جیسی کیفیات کا بھی ہے، جو کہ ایک خاص مدت کےلیے زندگی کا حصہ تو بنتی ہیں لیکن اپنا ایک سائیکل مکمل کرنے کے بعد کچھ ایسے مثبت اثرات بھی چھوڑ جاتی ہیں جس سے انسان کی وابستگی پہلے نہیں ہوئی ہوتی۔ عام حالات میں انسان اپنے اندر کی طاقت کو پہچان ہی نہیں پاتا کہ اللہ نے اس کے اندر کتنی سکت و برداشت کرنے کا مادہ رکھ چھوڑا ہے۔

جہاں ہمارا جسم کھانے پینے اور سونے کا تقاضا کرتا ہے تو عین اسی طرح ہماری روح اور عقل بھی ہم سے بڑھوتری کا تقاضا کرتی ہے اور اس کی نشوونما کےلیے بعض اوقات قدرت کی جانب سے غم کو محسوس کروایا جاتا ہے۔ جب زندگی میں سب کچھ بہت بھرپور انداز سے چل رہا ہو تو اکثر ہم اپنی زندگی کے بارے میں سوال کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس مصائب یا غم کی حالت میں ہم اپنی ذہنی حالت پر غور کرتے ہیں اور چیزوں کو گہرے مشاہدے سے دیکھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ خوشی کا تجربہ ہمیں لامحدور کی حد سے جوڑتا ہے تو وہیں غم ہمیں ہماری حد یاد دلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

حالیہ برسوں میں ماہرین نفسیات اس رجحان سے آگاہ ہوچکے ہیں جسے “Post Traumatic Growth” کہا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کی ابتدا ماہر نفسیات رچرڈ ٹیڈشی اور لارنس کلہون نے کی تھی۔ جنھوں نے بہت سے لوگوں کا انٹرویو لیا، جو سوگ، سنگین بیماری (جیسے کینسر)، طلاق یا ملازمت سے محروم ہونے کے ساتھ قریب قریب موت کے تجربات سے گزرے تھے۔

ابتدائی مراحلے میں سب نے روح کی تاریک رات کا تجربہ کیا، جس میں ان کےلیے زندگی کا ہر پہلو بے مقصد ہوگیا تھا۔ کسی تکلیف دہ واقعے پر مستقل طور پر سوچنا کہ کیا ہوا ہے اور اس کے بارے میں سوچتے ہی رہنا، خیالات اور احساسات کو بار بار چلانا فطری سا عمل ہے، جس سے ہر کوئی گزرا تھا۔ اس کے بعد وہ روحانی سفر کی تلاش سے گزرے جس میں انہوں نے خود کو کریدا اور اپنے آپ سے اپنے وجود سے کئی طرح کے سوال پوچھے اور جستجو کے اس سفر میں ان کو کئی نئی اخلاقی اور روحانی قدریں ملیں، جو کہ پہلے ان کی زندگی کا حصہ ہی نہیں تھیں۔ کئی ایک کو زندگی کا معنی اور مقصد ملا۔ کئی ایک نے اپنے اندر عاجزی کو پیدا ہوتے دیکھا۔ کئی ایک کے اندر لوگوں کےلیے مزید ہمدردی اور دور اندیشی نے جنم لیا۔ کئی ایک نے اپنے آس پاس کے رشتے ناتوں کو ایک نئے زوایے سے دیکھنا شروع کیا۔ ان کےلیے معاف کرنا آسان ہوگیا اور سب سے بڑھ کر وہ سب پہلے سے زیادہ مطمئن، پرسکون اور ایک نئی راہ کے متلاشی نظر آئے، جس میں وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے قدردان بنے۔

زندگی میں آزمائشیں آتی اور جاتی رہتی ہیں اور اکثر خود کو دہراتی بھی ہیں۔ یہاں تک کہ عظیم روحانی پیشواؤں اور انبیا نے بھی تکالیف اٹھائیں۔ قدرت کی جانب سے بعض اوقات انسان کے کردار کی مضبوطی کےلیے ضروری ہوجاتا ہے کہ اس کو آزمائش اور تکلیف کے مرحلے سے گزارا جائے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم تکالیف کا خیرمقدم کریں یا جان بوجھ کر ان کی تلاش کرنا شروع کردیں۔ اگر خدانخواستہ یہ ہماری زندگیوں میں آجائے تو ہمیں اس سے آگاہ ہونا چاہیے کہ اس کے منفی پہلوؤں کے ساتھ مثبت خیر بھی چھپی ہے۔ جس میں روح کو تقویت ملتی ہے، زندگی کا نظریہ بدلتا ہے، نئے مشاہدے جنم لیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر جینے کا ایک نیا ڈھنگ پیدا ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار ایک سوچ کا نام ہے جو ایک خاص زاویئے سے دیکھی گئی تصویر کے دوسرے رُخ کی عکاسی کرتی ہے۔ معاشرتی صورت حال کے پیش نظر انہیں مایوسیاں پھلانے سے سخت الرجی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ قلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سوچ اور امید کے ساتھ سمت کا بھی تعین کر دیتی ہے۔ ان کی سوچ کو فیس بک پر madhe.aden@ سے مزید پرکھا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔