ان ہاؤس تبدیلی کیلئے سیاسی جوڑ توڑ، حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے

ارشاد انصاری  بدھ 27 جنوری 2021
اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

 اسلام آباد: وفاقی دارلحکومت میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں اور اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی سیاسی قیادت اسلام آباد میں پڑاو ڈالے ہوئے ہے۔ 

وزیراعظم عمران خان کے ایک غیر محتاط بیان نے ایوان کا کسٹوڈین تصور کئے جانیوالے اسپیکر کے عہدے کو متنازعہ بنا دیا ہے جس سے حکومت مشکل میں آگئی ہے۔ کپتان کے اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہ کرنے سے متعلق بیان سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری تناو کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے اور اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے اور پیر کو ہونے والے اجلاس میں اسکا عملی نمونہ بھی پیش کیا ہے۔

اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے سپیکر قومی ا سمبلی اسد قیصر سے چیمبر میں بھی ملاقات کرنے سے انکار کردیا اور سپیکر قومی اسمبلی کے رویہ کو غیر جانبدار بنائے جانے تک پارلیمنٹ کی کاروائی چلانے میں حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے دوٹوک انکار کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ پیر کو بلایا جانے والا اجلاس زیادہ دیر نہیں چل سکا اور کورم کی نذر ہوگیا اور حکومت  قومی اسمبلی کے اجلاس بارے اپوزیشن کے سامنے بے بس و مجبور دکھائی دے رہی ہے کیونکہ حکومت کو ایک آئینی و قانونی چییلنج کا سامنا ہے اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے 106دن پورے کرنے کے آئینی تقاضا کو پورا کرنا ہے جس کیلئے اپوزیشن کا تعاون درکار ہے اور اپوزیشن سپیکر قومی اسمبلی کے رویہ میں بہتری تک تعاون پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

دوسری جانب ان ہاوس تبدیلی کیلئے بھی اپوزیشن منظم صف بندی جاری رکھے ہوئے جس کیلئے حکومت کے اہم اتحادیوں سے بیک ڈور رابطے بڑھائے جا رہے ہیں، اس صورتحال کو لے کر حکومتی حلقوں میں بھی پریشانی دکھائی دے رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان نے بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اہم اجلاس کئے ہیں اور اراکین پارلیمنٹ سے ملاقاتیں بھی شروع کر دی ہیں جبکہ اپوزیشن اگلے ایک ماہ کے دوران سیاسی تبدیلی کا ٹاسک پورا کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر حکومت کے خلاف صف آراء ہے تو دوسری جانب حکومت بھی اپوزیشن کھے تمام حربوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنے پتے خوبصورت انداز میں کھیل رہی ہے۔

دونوں ہی اپنی سیاسی بقاء و سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے میں لگے ہیں لیکن پچھلے چند روز سے ملک میں سیاسی ہوائیں رخ بدلتی معلوم ہو رہی ہیں اپوزیشن کے بیانیہ میں بھی تبدیلی واضح دکھائی دے رہی ہے حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے بیانیہ  کے ناکام ہونے اور پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھرنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن اپوزیشن اسے اپنی کامیاب حکمت عملی سے تعبیر کر رہی ہے تاہم حکومتی رہنماوں کی باڈی لینگوئج کچھ اور پتہ دے رہی ہے۔

گفتار و بیانات میں بھی اب وہ پہلے والا اعتماد دکھائی نہیں دے رہا۔ دوسری طرف پہلے اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات دفاعی تھے مگر اب جارحانہ ہوتے جا رہے ہیں ، ابھی چند روز قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر گفتگو میںصدر پنجاب مسلم لیگ( ن ) رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ جلد انہی عدالتوں میں مقدمات چلیں گے اب چوروں کا یوم حساب آ چکا ہے، اسرائیلی اور بھارتی لابی سے پیسہ لے کر یہاں لگایا گیا، انکا کہنا تھا کہ اے این ایف میں انکے کیس کو پونے دو سال ہوگئے جعلی اور جھوٹا مقدمہ سیاسی انتقام کیلئے بنایا گیا انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیراعظم کے حکم پر میرے خلاف یہ مقدمہ بنایا گیا ابھی تک مقدمے کی کاپیاں تک فراہم نہیں کی گئیں، تمام جعلی مقدمات صرف ایک حکم سے ختم ہو جائیں گے، وہ وقت آنے والا ہے، جب یہ تمام مقدمات ختم ہوں گے۔

اسی قسم کے بیانات  احسن اقبال  و دوسرے رہنماوں کے سامنے آرہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی پہلے سے اپنے انداز سے سیاسی چالیں جاری رکھے ہوئے اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کی بھی حالیہ گفتگو سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے اگلے چند ماہ کو ملکی سیاست کیلئے اہم قرار دیا ہے۔

البتہ انکا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم متحد ہے اور حکومت پر ہر طرف سے وار کرے گی اور حکومت سے نجات کیلئے ہر آپشن بتدریج استعمال کرے گی، آصف علی زرداری نے کپتان اور اسکی ٹیم کو بھی آڑے ہاتھوں لیا، انکی گفتگو میں بھی بین السطور ان ہاوس تبدیلی کا ہی پیغام چھپا تھا۔ جس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید سمیت کپتان کے دوسرے کھلاڑی بھی خوب گرجے ہیں انکا کہنا ہے کہ کسی مائی کے لعل میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی جرات نہیں ہے،  شیخ رشید کا تو کہنا ہے کہ اپوزیشن ایک بار نہیں سوبار وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے تحریک کا بھر پور مقابلہ کیا جائے گا اور پوزیشن کو شکست ہوگی ۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن رہنماوں کے درمیان بیان بازی جمہوریت کا حسن ہے مگر اسٹیبلشمنٹ بھی ایک زمینی حقیقت ہے اور  تبدیلی کیلئے مقتدر قوتوں کا آن بورڈ ہونا ضروری ہے اب یہ مقتدر قوتوں کی جانب سے اشارہ ہے کہ کوئی اور معاملہ ہے مگر یہ طے ہے کہ ان ہاوس تبدیلی ان کے بغیر ممکن نہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پچھلے کچھ ادوار سے تین سال بعد وزیراعظم کی تبدیلی کا ماڈل چلا آرہا ہے لیکن ماضی کی دو حکومتوں میں آنے والی اس قسم کی تبدیلی میں وزراء اعظم اسی جامعت سے رہے ہیں اب سوال یہ کہ اگر تو اسی ماڈل کو جاری رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کے تین سال پورے ہونے کے بعد کپتان کی تبدیلی لانا مقصود ہے تو کیا نیا کپتان بھی پی ٹی آئی سے ہی ہوگا یا پھرکوئی اور ہوگا کیونکہ جو افواہیں چل رہی ہیں اس میں تو قومی حکومت اور ٹیکنو کریٹس کی حکومت کی باتیں ہو رہی ہیں بلکہ بعض شخصیتوں کے نئے ممکنہ سیٹ اپ کا حصہ ہونے سے متعلق نام بھی منظر عام پر آچکے ہیں اب کیا ہونے جا رہا ہے یا سارا معاملہ چائے کی پیالی میں طوفان ثابت ہوگا۔

اس بارے ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا  لیکن حالات سے معلوم یہ ہورہا  ہے کہ اپوزیشن نے اب ان ہاوس تبدیلی پر کام تیز کردیا ہے اور سیاسی جوڑ توڑ میں ماہر سمجھے جانے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری  کی طرف سے مسلم لیگ(ن)کے رہنما میاں نوازشریف کو اس بارے میں آمادہ کرنے سے متعلق اطلاعات تو پہلے سے ہی آرہی تھیں مگر مسلم لیگ(ن)کے سینٹ انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان نے اس بیانئے کو مزید تقویت دی ہے۔ باخبر سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کے بڑے رہنماؤں میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو موجودہ حکومت کو آئینی و قانونی طریقے سے ہٹانے کے فارمولے پر اتفاق کر لیا ہے جس کے تحت ایک جانب مولانا فضل الرحمان اور دوسری جانب اتحادی جماعتیں پریشر برقرار رکھیں گی۔

دوسری طرف حزب اختلاف کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں دوسری سیاسی جماعتوں سے مل کر پہلے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو ہر صورت میں کامیاب کرایا جائے گا اور اس کے فوری بعد وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی اور تیسرے مرحلے میں پنجاب میں تحریک عدم اعتماد سے عثمان بزدار کی حکومت کو گرایا جائے گا، مولانا فضل الرحمان اور دوسری اتحادی جماعتیں پریشر برقرار رکھیں گی ۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی تحریکوں کو کامیاب بنانے کے لیے خفیہ رابطے بھی شروع کر دیے گئے ہیں جبکہ ایک طبقے کا خیال ہے کہ مقتدر قوتوں کی رضا اور منشاء کے بغیر ان ہاوس تبدیلی ممکن نہیں ہے اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور مریم نواز کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ میں نرمی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، یہی نہیں بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ اب ماحول کی سازگاری پر بھی کام شروع ہو چکا ہے۔

ادھر ملکی سیاست میں بڑی ڈویلپمنٹ پاکستان مسلم لیگ(ن)کے حوالے سے سامنے آئی ہے اور پیر کو مسلم لیگ(ن)کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کو لے کر بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ مریم نواز کو اب باضابطہ طور پر پارٹی پر مکمل بالادستی حاصل ہوگئی ہے جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سینٹ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز نے فیصلے سے پارلیمانی پارٹی کو آگاہ کر دیا ہے جب کہ پارلیمانی پارٹی ارکان نے فیصلے کی حمایت کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔