جواز

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 6 جنوری 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ٹی وی چینل پر ایک انتہائی حساس موضوع پر پروگرام جاری تھا۔ میزبان مائیک لیے بس اسٹاپ کے قریب کھڑی کسی پردہ نشین خاتون سے بات کرنے کی کوشش کر رہی تھی، پھر میزبان نے اس خاتون کو اپنی کار کی پچھلی نشست پر بٹھا کر گفتگو کی۔ میزبان نے سوال کیا کہ تم سیکس ورکر کا کام کیوں کر رہی ہو؟ تمہیں شرم نہیں آتی؟ تم اپنے ساتھ نوجوان لڑکیوں کی زندگی بھی غلط راہ پہ ڈال رہی ہو؟ خاتون نے جواب میں کہا کہ جب کسی عورت کے ساتھ بچے ہوں، کمانے والا شوہر نہ ہو، گھر کا کرایہ بھی ادا کرنا ہو اور کوئی مناسب ملازمت بھی نہ ملے تو مجبور عورت بھلا کیا کرے؟ مہنگائی کے اس دور میں ایسی عورت کسی فیکٹری میں 8 گھنٹے کام کرکے بھی محض سو دو سو روپے کمائے تو وہ اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالے گی؟

یہ جواب سن کر پروگرام کی میزبان نے کہا کہ تم محض سو دو سو کے بجائے ہزار پانچ سو روزانہ کے کمانے کے لیے جائز کام کے بجائے ایسے گھناؤنے کام کو ترجیح دے رہی ہو؟ کیا تمہارا جواز درست تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

خاتون میزبان کا ادا کیا ہوا یہ آخری جملہ کہ ’’کیا تمہارا جواز درست تسلیم کیا جاسکتا ہے؟‘‘ ہمارے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہے۔ میں اس جملے کو سن کر بہت دیر تک سوچتا رہا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ آج ہمارے معاشرے کی تباہی میں یہ اس لفظ ’’جواز‘‘ کا کتنا اہم کردار ہے۔

معاشرے کے تمام طبقات پر نظر ڈالیے اور ایمانداری سے جائزہ لیجیے، ایک سبزی فروش سے لے کر طب جیسے پیشے سے منسلک ڈاکٹر بھی اس لفظ ’’جواز‘‘ کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ اشیا فروخت کی من مانی، ناجائز قیمت وصول کرنا ہو، ملاوٹ کرنا ہو (خواہ خون کی فروخت میں ملاوٹ کرنا پڑے) یا کسی سرکاری ادارے میں کرسی پر بیٹھ کر رشوت طلب کرنی ہو، سب کاموں کے لیے ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی جواز ہے، اکثر کا جواز یہی ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں ’’گزارا کیسے ہو؟‘‘

ذرا سا تجزیہ کیجیے اور جائزہ لیجیے کہ جن کی ماہانہ آمدن دس ہزار ہے وہ بھی اور جن کی 50, 30, 20 ہزار یا لاکھ سے اوپر ماہانہ آمدنی ہے وہ بھی اپنے کسی نہ کسی غلط طریقے سے حصول آمدنی کو یہ کہہ کر جائز کر لیتے ہیں کہ ’’گزارا کیسے ہو؟‘‘ آخر وہ کون سی سطح ہے کہ جب ہم یہ کہیں گے کہ ’’ہم نے کوئی ناجائز طریقہ آمدنی اختیار نہیں کرنا، کیونکہ جیسے تیسے گزارا ہو ہی جاتا ہے‘‘۔ ہم کب قناعت اور توکل کو سمجھیں گے؟

ہم یہ کب کہیں گے کہ ’’اﷲ تیرا شکر ہے‘‘۔ ہمارے نانا مرحوم کہتے تھے کہ ہر وقت ہر حال میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہا کرو کیونکہ ناشکری کرنے سے حسد اور حرص کو فروغ حاصل ہوتا ہے، بے چینی اور نفسیاتی امراض پیدا ہوتے ہیں اور انسان ناجائز ذرایع سے کمانے کے چکر میں مگن ہوجاتا ہے جس سے گھر اور خاندان کا امن بھی تباہ ہوجاتا ہے اور معاشرے کا بھی۔

آج ہمیں ان کی یہ بات بہت اچھے انداز میں سمجھ میں آتی ہے جب ہم ہر طرف دھوکا بازی اور نفسا نفسی کا ماحول دیکھتے ہیں، جب یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح بھرے بازار ایک موبائل حاصل کرنے کے لیے نوعمر لڑکے کسی معصوم بچے کی بھی جان لے لیتے ہیں۔

ہمارے نانا اکثر کہتے تھے کہ بیٹا! ہمیشہ اچھے لوگوں کو اپنا آئیڈیل اور ہیرو بناؤ۔ وہ اکثر ہمیں عمر بن خطابؓ کے تاریخی واقعات بھی سناتے تھے جو حکمران ہوکر بھی صرف ایک جوڑا پہننے کے لیے رکھتے تھے۔ اس وقت راقم کے سامنے امام غزالی کی ’’مکاشفات القلوب‘‘ (مترجم مولانا عبدالمجید) سامنے ہے، جس میں صفحہ نمبر 133 پر زیر بحث ’’جواز‘‘ کا توڑ موجود ہے۔ اس میں تحریر ہے کہ ’’رضا کا مفہوم یہ ہے کہ مقدر جیسا بھی ہو، اس پر دل راضی و مطمئن ہو۔ ایک عالم کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو اس پر راضی ہوں، جو انھیں ملے۔ ایک حکیم کا کلام ہے: بعض خوشی بیماری ہے اور بعض بیماری شفاء ہے‘‘۔ اس کے بعد کتاب میں کچھ اشعار کے ترجمے اس طرح ہیں:

کئی نعمتیں آفات کی ڈاڑھوں میں تیرے لیے بند ہیں

اور جہاں سے تو مصائب کا انتظار کر رہا تھا، وہاں سے مسرتیں آئیں

اس لیے حوادث زمانہ پر صبر کر، اس لیے کہ تمام امور کے لیے کچھ انجام نہیں

اور ہر تنگی کے بعد فراخی ہے اور ہر آسانی میں مبتلا بھی ہے

امام غزالی آگے سورۃ البقر کی آیت پیش کرتے ہیں۔ (ترجمہ: اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو مگر وہ تمہارے لیے بہتر ہو)۔

غور کیجیے امام غزالی کے مندرجہ بالا حوالے کے بعد موجودہ دور میں رائج ’’جواز‘‘ کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟

درحقیقت اس قسم کے جواز ہم نے اپنی تسلی اور اطمینان کے لیے یا پھر عزت دار بننے کے لیے بنا رکھے ہیں۔ ہم نے پہلے تعیشات زندگی کو اپنا ماڈل بنایا اور پھر اس کے پیچھے چل پڑے اور پیسے کے حصول کے لیے ’’جواز‘‘ کے بت تراش لیے۔ ہم یہ بھول گئے ہمارے اسلاف کے جو رول ماڈل تھے وہ کردار کو بلند کرتے تھے، سادگی کو اپنا نشان بناتے تھے مگر ہم کردار کو ایک طرف رکھ کر تعیشات زندگی سے انسان کا معیار بنانے لگے ہیں۔تاریخ اسلامی کی شخصیات کو تو چھوڑیے تحریک پاکستان کے اپنے اسلاف کے کردار کو ہی دیکھ لیجیے۔

معیار زندگی کو کسی نے عروج پہ نہیں پہنچایا، نہ مال و دولت جمع کرکے اپنا قد بڑھانے کی کوشش کی ہاں البتہ مال و دولت خرچ کرکے اپنا قد ضرور قدآور بنایا۔ ان کے پاس بھی کئی قسم کے ’’جواز‘‘ کے مواقع تھے مگر انھوں نے کبھی ’’جواز‘‘ کے بت کو نہیں تراشا۔ قائداعظم، لیاقت علی خان اور نیچے آئیے تو حبیب جالب اور خالد علیگ جیسے شاعر۔ ان سب میں کسی نے اپنا مال و دولت بھارت سے آنے والے مہاجرین کی مدد میں صرف کردیا، کسی نے تنخواہ کے نام پر چند سکے ہی لیے تو کسی نے وقت کے حکمرانوں کی بیرون ملک علاج کی پیش کش کو ٹھکرادیا تو کسی نے وقت کے گورنر کے امدادی چیک کو ٹھکرا دیا۔ کیوں؟ کیا ان کے پاس لفظ ’’جواز‘‘ نہ تھا؟ جی نہیں! کیونکہ یہ عظیم لوگ تھے، عظیم کیوں تھے؟ اس لیے کہ ان میں ہوس نہیں تھی، مادہ پرستی نہیں تھی، وہ پیسے، معیار زندگی کو عظیم نہیں بلکہ کردار کو عظیم سمجھتے تھے۔

آئیے! ان جیسا بننے کے لیے، ان کے جیسے کردار کو اپنانے کے لیے ’’جواز‘‘ پیدا کریں اور اپنی اپنی اصلاح کریں، نہ کہ اپنے وطن، معاشرے اور ذات کو بکھیرنے کے لیے ’’جواز‘‘ کے بت تراشیں اور انھیں ’’نذرانے‘‘ یا ’’اوپر کی آمدنی‘‘ یا پھر ’’مجبوری‘‘ جیسے نام دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔