اپنی پوشیدہ صلاحیتیں پہچانیے

شایان تمثیل  جمعرات 1 فروری 2024
ایک انسان بیک وقت کئی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک انسان بیک وقت کئی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

قدرت نے ہر شخص کو صلاحیتوں کے خزانے سے نوازا ہے اور یہ صلاحیت ہی اسے کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ بے شک! کامیابی کےلیے محنت و جدوجہد ضروری ہے لیکن اس سے پہلے یہ لازم ہے کہ آدمی اپنی صلاحیت کو پہچانے، اسے پروان چڑھائے اور اس کی بنیاد پر اپنی کامیابی کی منزل کا تعین کرے۔

یہ بات ذہن نشین کرنے کے لائق ہے کہ آپ میں صلاحیت تو موجود ہے لیکن جب تک آپ اس کی صحیح انداز میں نشوونما نہیں کریں گے اس سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کرسکتے۔ بہت سے لوگوں کو اپنے اندر چھپی اس گرانقدر صلاحیت کا علم ہی نہیں ہوتا اور کچھ لوگ علم ہوجانے پر بھی حالات کے جبر کے باعث اس کی نشوونما نہیں کرپاتے یا پھر حوصلے کی کمی ان کے قدموں کو جکڑ لیتی ہے۔ اس طرح وہ کامیابی کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس دھن کے پکے اور حالات کے جبر کو خاطر میں نہ لانے والے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے ثابت قدمی کے ساتھ اپنی صلاحیت کی نشوونما کرکے کامیابی کی منزل کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔ اس راہ میں صلاحیت ان کی سب سے بڑی طاقت، سب سے بڑی امنگ بن جاتی ہے۔

ایک انسان میں صرف ایک صلاحیت نہیں ہوتی، وہ بیک وقت کئی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے لیکن یہ سب صلاحیتیں ایک سی نہیں ہوتیں۔ ان میں سے کچھ اعلیٰ درجے کی ہوتی ہیں اور کچھ ادنیٰ درجے کی۔ انسان کو اپنی اعلیٰ درجے کی صلاحیت کو پہلی ترجیح دیتے ہوئے اس کی نشوونما کرنی چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ خود کرلیتے ہیں اور یہ طے کرلیتے ہیں کہ انھیں بڑا ہو کر کیا بننا ہے اور اسی کے مطابق وہ ان کو تعلیم دلواتے ہیں۔ اگر بچہ ذہین اور ہوشیار ہو تو والدین کی خواہش کو پورا کرلیتا ہے لیکن اگر اس کے برعکس ہو تو یہ خواہشات تشنہ ہی رہ جاتی ہیں۔ اگر والدین اپنے بچوں کی صلاحیتوں کو پہچان کر ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں تو نتائج ہمیشہ ان کی مرضی کے مطابق اور خوشگوار نکلیں گے۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ماحول، صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور بعض صلاحیتیں صرف ماحول کی پیداوار ہیں۔ مثلاً ایک حجام کا بیٹا بڑا ہوکر حجام بنتا ہے اور نان بائی کا بیٹا نان بائی، کسی ادیب اور دانشور کا بیٹا بڑا ہوکر ادب کے شعبے کی طرف جاتا ہے تو صنعت کار کا بیٹا صنعت کار ہی بنتا ہے، یہ سب ماحول کی کارفرمائیاں ہیں۔ ماحول ہی ان سب میں یہ سب بننے کا رجحان پیدا کرتا ہے، وہ جس ماحول میں پیدا ہوتے ہیں اسی کا اثر لیتے ہیں لیکن تمام صورتوں میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ بعض اوقات صلاحیتیں انھیں ایک بالکل الگ ہی راستے پر لے جاتی ہیں اور یہ سب اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ان کی صلاحیت ماحول کے برعکس زیادہ ابھر کر ان کی شخصیت کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

اس بحث سے قطع نظر کہ انسان کی کون سی صلاحیت زیادہ قوی اور اثر انگیز ہے، بعض ماہرین نفسیات کا دعویٰ ہے کہ اگر انسان کو ایک مخصوص ماحول میں پرورش دی جائے تو وہ اس کا اثر لازمی طور پر قبول کرتا ہے اور اس کی صلاحیتیں اس ماحول میں رنگ جاتی ہیں۔ اس لیے وہ والدین کو مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ اپنے بچے کو کسی مخصوص پیشے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو اسے اسی ماحول میں پرورش دیں۔ بڑا ہونے تک وہ ماحول کے زیر اثر اس پیشے سے وابستگی اختیار کرلے گا لیکن یہ بھی اس صورت میں زیادہ خوشگوار ہوگا جب آپ اس کی اعلیٰ صلاحیت کو پہچانیں۔

صلاحیت کا علم ہوجانے پر بھی اسے بھرپور ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی راہ میں دشواریاں پیش آسکتی ہیں، جیسے وسائل کی کمی، خاندانی روایات اور سماجی بندشیں وغیرہ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ میں ایک بہترین گلوکار بننے کی صلاحیت ہو لیکن معاشرہ آپ کو اس کی اجازت نہ دے یا پھر آپ ایک بزنس مین بننا چاہتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کے سبب آپ اپنی خواہش پر عمل درآمد کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس قسم کی اور کئی رکاوٹیں آپ کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں لیکن اگر آپ اپنی صلاحیت کو صحیح انداز سے بروئے کار لائیں تو یہ رکاوٹیں خود بخود آسان ہوتی چلی جاتی ہیں، شرط صرف ثابت قدمی کی ہے۔

اپنے ارادے پر مضبوطی سے جمے رہیے اور راستے کی دشواریوں سے گھبرائے بغیر آگے بڑھتے چلے جائیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Shayan Tamseel

شایان تمثیل

بلاگر کوچہ صحافت کے پرانے مکین ہیں اور اپنے قلمی نام سے نفسیات وما بعد النفسیات کے موضوعات پر ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ معاشرت، انسانی رویوں اور نفسانی الجھنوں جیسے پیچیدہ موضوعات پر زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ صحافت اور ٹیچنگ کے علاوہ سوشل ورک میں بھی مصروف رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔