چوہدری صاحب کا خدشہ درست ثابت ہُوا

تنویر قیصر شاہد  پير 21 جون 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پنجاب میں ضلع سیالکوٹ کی تحصیل، پسرور، سے تعلق رکھنے والے جناب شاہد حامد کی شخصیت میں بڑا تنوع ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں کہ کیمبرج سے اقتصادیات کی ڈگری حاصل کی اور لندن کے معروف تعلیمی ادارے، اِنر ٹیمپل ، سے قانون دان بن کر نکلے۔ وہ معروف سیاستدان بھی رہے ہیں اور ایک لائق فائق بیورو کریٹ بھی۔سول سروس جوائن کی تو سردار فاروق احمد خان لغاری اُن کے بَیچ میٹ تھے۔

پنجاب کے گورنر اُس وقت بنائے گئے جب میاں محمد نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہُوئے۔ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ اُلٹا تو چند ہفتے قبل ہی شاہد حامد اپنے بلند وفاقی سیاسی عہدے سے از خود مستعفی ہو گئے تھے۔

شاہد حامد صاحب کا شمار وطنِ عزیز کے ممتاز ترین قانون دانوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ ایک عبوری سیاسی دَور میں وہ تین وزارتوں کے وفاقی وزیر بھی بنائے گئے۔ اُن کے والد گرامی بریگیڈئر (ر)حامد نواز خان بھی وزیر رہے ہیں اور اُن کے ایک بھائی، زاہد  حامد، بھی نواز شریف کے تیسرے دَور ِ وزارتِ عظمیٰ میں وفاقی وزیر قانون کے عہدے پر فائز تھے۔ زاہد حامد کو اسلام آباد، راولپنڈی کے سنگم پر دیے گئے مشہور دھرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دباؤ اور مطالبے پر اپنی وزارت سے  محروم ہونا پڑا تھا۔ یہ نوبت کیوں آئی تھی، اس کے اعتراف میں نون لیگی رہنما، رانا ثناء اللہ، نے گزشتہ روز ایک ممتاز کالم نگار کے رُوبروایک انکشاف کیا ہے۔

راقم الحروف کو بھی جناب شاہد حامد، جب وہ گورنر پنجاب تھے، دو بار لاہور کے لاٹ صاحب کے دفتر میں انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ مَیں نے انھیں ایک نستعلیق اور مہذب شخصیت پایا۔ وہ خود بھی اقتدار میں رہے اور اُن کے والد صاحب بھی، اُن کے سگے بھائی بھی وفاقی وزیر رہے اور اب اُن کا بھتیجا بھی ایم این اے ہے لیکن اُن کے انتخابی حلقے، پسرور، کی حالتِ زار میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آ سکی۔ بیورو کریسی، قانون اور سیاست کے میدانوں میں جناب شاہد حامد نے40برس کا طویل عرصہ گزارا ہے ۔ ان قیمتی تجربات ومشاہدات کی بنیاد پر اب انھوں نے ایک شاندار کتاب رقم کی ہے۔

اِسے Treasured Memories کا عنوان دیا گیا ہے۔ مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب واقعی اسم بامسمیٰ ہے ۔پاکستان کی سیاست و قانون اور عدلیہ کے کئی تاریخ ساز واقعات ایک ہی جگہ پر سمٹ آئے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے چار عشروں کے دوران تاریخ و سیاستِ پاکستان کی تفہیم کے لیے شاہد حامد کی یادوں کا یہ خزانہ خاصا معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ تاریخِ پاکستان کا ایک اہم واقعہ بلکہ سانحہ اپنے والد صاحب کی زبانی سناتے ہیں۔ اس واقعہ نے بعد ازاں کئی دیگر سانحات کو جنم دیا اور یوں قائد اعظم ؒ کے جمہوری پاکستان میں غیر جمہوری قوتوں کو پاؤں پسارنے کے مواقع ملتے چلے گئے۔

شاہد حامد کے والد صاحب، حامد نواز خان، پاکستان کے دو سابق گورنر جنرلز(خواجہ ناظم الدین اور غلام محمد) کے ملٹری سیکریٹری تھے۔شاہد حامد اپنے والد صاحب کے حوالے سے ہمیں بتاتے ہیں کہ غلام محمد نے بغیر کسی وجہ کے اپنے وزیر اعظم کی حکومت کو محض اس لیے ختم کر ڈالا تھا کیونکہ انھیں درپردہ جنرل ایوب خان کی حمائت اور اشیرواد حاصل تھی ۔شاہد حامد کے والد گرامی بعد ازاں سفیر بھی متعین کیے گئے اور سرکاری ملازمت سے فراغت کے بعد وہ دو بار قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہُوئے۔

یوں اس سانحہ کی شہادت بھی خاصی وقیع اور معتبر ہے۔ شاہد حامد کے دادا، خان بہادر شاہ نواز خان، بھی بیورو کریٹ رہے اور پنجاب اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہُوئے۔ سیاست و اقتدار کا یہ ورثہ اُن کی اولاد کو منتقل ہوتا گیا۔ اب اُن کا ایک بھتیجا، علی زاہد حامد، نون لیگی ایم این اے ہے ۔

شاہد حامد صاحب کی رقم کردہ زیر نظر تصنیف میں ہماری عصری سیاست کے کئی واقعات ، سانحات بن کر سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر نواز شریف اور چوہدری شجاعت حسین کے حوالے سے مصنف نے جو واقعہ رقم کیا ہے، چشم کشا سے کم نہیں ہے۔ مصنف لکھتے ہیں:’’وزیر اعظم نواز شریف پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو کامل لگام ڈالنے کے لیے ذہن بنا چکے تھے۔ اس کے لیے وہ قانون سازی کا فیصلہ بھی کر چکے تھے۔ اس مقصد کے تحت ملک میں ٹرائل کورٹ اور  ایپلٹ کورٹ وضع کیے جانے تھے جن کی حیثیت خاصی آزادانہ ہوتی۔

اس کا ڈرافٹ لاء میرے پاس بھیج دیا گیا‘‘۔ شاہد حامد صاحب مزید لکھتے ہیں:’’ بہرحال مَیں نے ہر قسم کے متعلقہ فیڈ بیک کی تمام صورت حالات کی روشنی میں ڈرافٹ لاء تیار کر لیا۔ اس دوران چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت، احکامات اور منشا بھی ہمارے پیش ِ نظر رہے۔ ایک اسپیشل میٹنگ، جس کی صدارت وزیر اعظم نواز شریف کررہے تھے، ڈرافٹ لاء کو فائنل شکل دے دی گئی ۔

اس میٹنگ میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ جونہی میٹنگ اس ڈرافٹ کی منظوری دینے لگی ، نواز شریف کے وزیر داخلہ، چوہدری شجاعت حسین، اچانک بول اُٹھے: میاں صاحب، اس قانون کو منظور نہ کریں۔ میاں نواز شریف نے نہائت حیرت سے کہا: کیوں چوہدری صاحب ؟ چوہدری شجاعت حسین نے جواباً پنجابی میں کہا: مجھے خدشہ ہے کہ ایک روز یہی قانون ہمارے گلے پڑ جائے گا۔ چوہدری صاحب کی یہ بات سُن کر ہم سب ہنس پڑے۔ حیرانی کی بات ہے کہ بعدازاںنواز شریف کو اِسی قانون کے تحت سزا ملی۔‘‘یوں چوہدری شجاعت حسین صاحب کا خدشہ درست ثابت ہُوا۔ اس حوالے سے چوہدری صاحب کے وجدان کی داد دینی چاہیے ۔

جناب شاہد حامد نے ذوالفقار علی بھٹو کے دَور میں وزیر اعلیٰ پنجاب جناب حنیف رامے کے ساتھ بھی کام کیا، وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہ کر بھی قومی خدمات انجام دیں اور صدرِ مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری کے ساتھ بھی رہے۔ وہ سب کے اعتماد پر کیسے پورا اُترتے رہے، یہ امر حیران کن ہے۔ یوں اُن کے مشاہدات و تاثرات اور تجربات کا دائرہ اور کینوس خاصا وسیع ہے۔

مصنف ہمیں بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو جب ڈیووس (سوئٹزر لینڈ) کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لیے وہاں پہنچیں تو ہوٹل سے کانفرنس ہال تک جانے کے لیے اُن کے ساتھیوں نے مہنگی لیموزینیں کرائے پرلی تھیں۔ سویڈن کے وزیر اعظم بھی اُسی ہوٹل میں قیام پذیر تھے جس ہوٹل میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے قیام کررکھا تھا لیکن سویڈن کے وزیر اعظم کرائے پر لی گئی کسی مہنگی لیموزین کے بجائے مقامی پبلک ٹرانسپورٹ  میں سوار ہو کر کانفرنس میں شریک ہوتے تھے اور بے نظیر بھٹو صاحبہ سے پہلے کانفرنس ہال میں پہنچ جاتے تھے۔ واقعہ مذکور یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے حکمران کے ہم نوا کس بیدردی سے قومی خزانے کو اپنی ذاتی سہولتوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سر اور کندھوں پر سوار 200ارب ڈالر کامبینہ عالمی قرضہ یونہی تو نہیں چڑھ گیا۔ ہمارے جملہ حکمرانوں کے اِنہی اسراف کے کارن پاکستان کا ہر شہری آج لاکھوں روپے کا مقروض ہو چکاہے۔ اس حوالے سے بھی شاہد حامد صاحب نے اپنی کتاب میں کئی انکشافات کیے ہیں۔ سبق لینے کو مگر کوئی تیار نہیں ہے !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔