- غزہ میں اسرائیل کی جارحیت جاری رہی تو جنگ بندی معاہدہ نہیں ہوگا، حماس
- اسٹیل ٹاؤن میں ڈکیتی مزاحمت پر شہری کا قتل معمہ بن گیا
- لاہور؛ ضلعی انتظامیہ اور تندور مالکان کے مذاکرات کامیاب، ہڑتال موخر
- وزیراعظم کا 9 مئی کو شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تقریب کے انعقاد کا فیصلہ
- موبائل سموں کی بندش کے معاملے پر موبائل کمپنیز اور ایف بی آر میں ڈیڈ لاک
- 25 ارب کے ٹریک اینڈ ٹریس ٹیکس سسٹم کی ناکامی کے ذمہ داروں کا تعین ہوگیا
- وزیر داخلہ کا ملتان کچہری چوک نادرا سینٹر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا اعلان
- بلوچستان کے مستقبل پر تمام سیاسی قوتوں سے بات چیت کرینگے، آصف زرداری
- وزیراعظم کا یو اے ای کے صدر سے ٹیلیفونک رابطہ، جلد ملاقات پر اتفاق
- انفرااسٹرکچر اور اساتذہ کی کمی کالجوں میں چار سالہ پروگرام میں رکاوٹ ہے، وائس چانسلرز
- توشہ خانہ کیس کی نئی انکوائری کیخلاف عمران خان اور بشری بی بی کی درخواستیں سماعت کیلیے مقرر
- فاسٹ ٹریک پاسپورٹ بنوانے کی فیس میں اضافہ
- پیوٹن نے مزید 6 سال کیلئے روس کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا
- سعودی وفد کے سربراہ سے کابینہ کی تعریف سن کر دل باغ باغ ہوگیا، وزیر اعظم
- روس میں ایک فوجی اہلکار سمیت دو امریکی شہری گرفتار
- پاسکو کی گندم خریداری کا ہدف 14 لاکھ ٹن سے 18 لاکھ ٹن کرنے کی منظوری
- نگراں دور میں گندم درآمد کی مکمل ذمہ داری لیتا ہوں، انوار الحق کاکڑ
- ایم کیوایم پاکستان نے پیپلزپارٹی سے 14 قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ مانگ لی
- پاک-ایران گیس پائپ لائن پر ہر فیصلہ پاکستان کے مفاد میں کیا جائے گا، نائب وزیراعظم
- ڈالر کے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کم ہوگئے
ہاری، ہالی، ہل اور حارث
زباں فہمی 107
زبانوں کی کثرت، تنوع، اختلاف اور اشتراک پر غور کیا جائے تو انسان اپنے خالق ومعبود کے وجود کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس سے پہلے کہ کوئی کہے ’’سر! آپ بہت مشکل اردو لکھتے ہیں‘‘، مجھے یہ بات بھی ذرا عام فہم انداز میں لکھنی ہوگی۔ آسان الفاظ میں کہیں تو مطلب یہ ہوا کہ اگر انسان اس نکتے پر غور کرے کہ دنیا بھر میں ہزاروں زبانیں کیوں ہیں، ایک دوسرے سے مختلف، جُدا جُدا اور پھر بہت سی خصوصیات (بشمول ذخیرہ الفاظ ) کی بناء پر ملتی جُلتی کیوں ہیں، تو اپنے رب کی موجودگی کا اعتراف اور اقرار ضرور کرے گا۔
ہمارے یہاں یعنی برّصغیر پاک وہند کی زبانوں میں بھی یہی صفت بہت نمایاں ہے کہ آپس میں جُڑی ہوئی ہیں، خواہ لسانیات کے ماہرین نے اُن کی درجہ بندی کسی بھی اعتبار سے کی ہو۔ اردو میں بہت پہلے سے ایک لفظ ’’ہالی‘‘ چلا آتا ہے، ترکیب ’’ہالی موالی‘‘ میں بھی موجود ہے۔ لغات کا رُخ کرتے ہیں کہ ہالی اور ہالی موالی سے کیا مراد ہے۔ اردو لغت بورڈ کی بائیس جلدوں پر مشتمل عظیم اردولغت (تاریخی اصول پر) اور اس کی مختصر شکل، مختصر اردو لغت ہمیں بتاتی ہے کہ ہالی مذکر اور صفت ہے اور اس کے معانی ہیں: ہل چلانے والا، کسان، کاشتکار، مزدور کسان، زراعتی مزدور؛ جبکہ ہالی مَوالی (ترکیب) دوست، احباب، مصاحبین، ہمراہی، ساتھی، متعلقین، متوسلین نیز نوکر چاکر کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اسی لغت کے دیگر مندرجات ، ہالی کے باب میں یہ ہیں:
ہاری: لے جانے والا؛ چور، ٹھگ؛ تباہ کرنے والا نیز لے جانے کا عمل
ہالی: ہالی کا پیٹ سَہالی سے نَہیں بَھرتا
کام کرنے والے کے لیے کھانا بھی زیادہ اور مقوی ہونا چاہیے
ہالی: بیوی کی بہن، سالی
ہالِیا: رک: ہالی (یعنی یہ بھی ہالی کی ایک شکل ہے۔ س ا ص)
یہی ہالی پاکستان کے اکثر علاقوں اور علاقائی زبانوں میں ہاری یعنی کسان یا مزارع کہلاتا ہے۔ (پنجاب اور کشمیر کی معروف برادری کسانہ بھی اسی پیشے کی نسبت سے کسانہ کہلاتی ہے)۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ہاری اور ہالی اصل میں ’’ہَل‘‘ یا ’’ہَر‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ ہل یا ہر سے بات آگے بڑھی تو پتا چلا کہ ایک لسانی قیاس کے مطابق یہی لفظ ’’آریا‘‘ /آریہ ہے جو لاطینی یا رومی [Latin/Roman]میں Aro یعنی ہل چلانا (فعل) بن گیا۔ اسی لفظ ’’ہَر‘‘ سے قدیم ناروی /نارویئن (نارویجئن غلط ہے) زبان میں Hervi بنا جو قدیم انگریزی تک پہنچا اور پھر انگریزی میں Harrow بمعنی سُہاگا (دندانے دار ہَل) بن گیا۔
اسی لفظ کا ناتا المانوی یعنی Germanزبان کے لفظ Haerfest سے ہے جو انگریزی میں Harvest بنا۔ اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہمارا دیسی لفظ، ویدک بولی اور سنسکرت سے مغربی زبانوں تک جاپہنچا اور پھر وہاں سے پلٹا تو اپنے ساتھ پوری قوم یعنی آریا لے کر آیا۔ اس نکتے سے اس مفروضے کو تقویت ملتی ہے کہ خطہ ہند میں بطور فاتح آنے والے (اکثر) آریا، کسان تھے۔ اُن کے دیگر پیشے مثلاً گلہ بانی، شِیر (دودھ) فروشی بہرحال اپنی جگہ، جیساکہ گوجر اپنے انھی پیشوں کے لیے مشہور ہوئے۔
ماقبل اپنے اسی کالم میں خاکسار نے آریہ قوم کے متعلق حقائق پیش کیے تھے۔ اقتباس ملاحظہ ہو: دستیاب تحقیقی مواد کا خلاصہ یہ ہے کہ گوجر جو کبھی گُرجر تھے، آریا /آریہ قوم کی سب سے نمایاں شاخ ہیں۔ اشوک ہرسن کی کتاب ’’گُرجر: آریا میراث کے امین‘‘ (The Gurjars: Forbearers of the Aryan Legacy by Ashok Harsana) میں درج عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ سب سے نمایاں آریا تھے اور ان کا یہ قبائلی نام سب سے طاقت ور آریا حکم راں دَش رَت سُوریا وَنش کے لقب ’گُرجر‘ سے ماخوذ ہے جو کم وبیش دوہزار آٹھ سو سال قبل از مسیح (علیہ السلام) میں ہوگزرا ہے۔ پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ’’تاریخ گُرجر‘‘ (یعنی گوجر) [ کے مؤرخ، ’’مؤرخ ِ گوجراں‘‘، رانا علی حسن چوہان کی تحقیق کے مطابق، آریا کے معنی ’شریف اور نیکوکار‘‘ ہیں۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دیوتا اصل میں خاکی انسان تھے جو خدارَسیدہ تھے۔ اُن کے الفاظ یہ ہیں: ’’آریوں (نہ کہ آریاؤں۔سہیل) میں ملکی انتظام ہر بستی کے افراد خود کرتے تھے۔ مجموعی طور سے وہی شخص اعلیٰ ترین سمجھا جاتا تھا جس کے اخلاق وعادات اور علوم وفنون (پر دسترس) سب پر حاوی ہوں۔ ایسے اشخاص کو آریہ، راجہ۔یا۔مہاراجہ نہیں کہتے تھے، بلکہ ایشوریا دیوتا کہتے تھے۔ ایشوریا دیوتا کے معنی ’پاک روح‘ کے ہیں۔ آج کل جُہَلاء اِس سے مراد مافَوق الفطرت ہستی (Super human being) لیتے ہیں جو صحیح نہیں۔‘‘}کالم زباں فہمی نمبر تریسٹھ:اُردو کی ماں، گوجری؟ تحریر:سہیل احمد صدیقی مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس،اتوار 30 اگست 2020،https://
www.express.pk/story/2074668/1/{۔ اب یہاں لسانی قیاس سے تطابق پیدا کیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ سنسکِرِت میں آریہ/آریا بمعنی شریف ، معزز شاید اسی بِناء پر ہو کہ زراعت کو معزز پیشہ اور اس سے منسلک شخص (کسان) کو معزز سمجھا جاتا ہو۔ آکسفرڈ انگلش ڈکشنری[Oxford English Dictionary-1990s Edition]دیگر ذرائع، کتابی مواد نیز انٹرنیٹ پر دستیاب تحقیق کی تصدیق کرتی ہے کہ اس لفظ سے مراد شریف اور معزز شخص ہے۔ اردو لغت بورڈ کی شایع کردہ مختصر اردو لغت کی رُو سے اس لفظ کے معانی مندرجہ ذیل ہیں:
آریا/ آریہ (اسم مذکر)
۱۔ایرین ، وسط ِایشیا کی ایک قوم جو وہاں سے اُٹھ کر ہِند اور یورپ میں پھیل گئی ۔۲۔آریہ قوم کی زبان یا بولی (بیشتر بھاشا وغیرہ کے ساتھ)۔۳۔ ہندوؤں کا ایک مذہبی فرقہ جس کے بانی سوامی دیانندسَرَسوَتی مانے جاتے ہیں؛ ہندو(ب) صفت، شریف، معزز، نیک آدمی۔ یہاں خاکسار یہ وضاحت کرنا چاہتا ہے کہ یہ لفظ پہلے پہل، سنسکرت سے پہلوی میں منتقل ہوا تو ’ایریا‘ کہا گیا، پھر قدیم فارسی میں ’ایرین‘ بنا اور اسی سے ایران اور آریا بنے۔{نہایت افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ مدیراعلیٰ کے دور میں ، بعض افراد کو اہلیت کا معیار جانچے بغیر ہی، اس لغت میں تصحیح، ترمیم واضافہ جیسی اہم خدمت سونپی گئی ، جس کے نتیجے میں کہیں عبارت نامکمل، کہیں وضاحت طلب تو کہیں تصحیح طلب ہے۔ یہاں قوسین میں بیشتر بھاشا جیسی مبہم ترکیب وضع کرکے جان چھُڑائی گئی۔ یہ محض قیاس ہی کیا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد برج بھاشا اور معاصر بولیاں ہیں۔
اس کے بعد سوامی دیانند کا ذکر ہوا تو وہاں بھی پورانام ’آریہ سماج‘ نہیں لکھا گیا}۔ آن لائن تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ آریہ سے مراد ابتداء میں ویدِک مذہب پر سختی سے کاربند شخص یعنی مذہبی شخص تھا، پھر بُدھ مت کے دور عروج میں اس کا مطلب ہوا، معزز۔ اسی طرح یہ قیاس بھی ملتا ہے کہ شاید یہ لفظ سامی زبانوں سے بھی پہلے کے لسانی مواد میں جنوب کی سمت سے منسوب شخص کے معنوں میں موجود تھا جو روسی اور ہم رشتہ زبانوں میں Slav ہوگیا۔ یہ وہی لفظ ہے جس سے Yugoslaviaنام معرض وجود میں آیا یعنی جنوبی سلاف قوم کا وطن[South Slavic Land]۔ {یہ وہ ملک ہے جو کبھی چھَے ریاستوں (بوسنیا اینڈ ہرزی گووینا، کروشیا، سربیا، سلووینا، مقدونیہ ، مونٹی نیگرو) اور علاقہ کوسووو پر مشتمل تھا۔
اب یہ تمام آزاد ممالک ہیں، مقدونیہ کا نام یونان کے اعتراض کے سبب، فروری ۲۰۱۹ء میں جمہوریہ شمالی مقدونیہ ہوچکا ہے، کیونکہ مقدونیہ یونان کے علاقے کا بھی نام ہے جو اسی ملک کے جنوب میں واقع ہے۔ کوسووو بھی بوسنیا کی طرح مسلم ملک ہے، مگر اسے عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی}۔
عربی میں کسان کو حارث اور حرّاث کہا جاتا ہے۔ ویسے حارث کے معانی اور بھی ہیں۔ قیاس یہ کہتا ہے کہ اس لفظ کی جڑ، قدیم بابِل، عراق (یہ بابُل نہیں ہے) کے لفظ ’’ہار‘‘ سے ماخوذ ہے جو درحقیقت ہمارے دیسی لفظ ’’ہر‘‘/ہَل اور پھر آریا کا ماخذ ہے۔ حَرَث ، حَرثاً الارض کا مطلب ہے ہل چلانا، کھیتی باڑی کرنا، الحرث مصدر ہے اور اس کا مطلب ہے کھیتی، اس کا فاعل الحارث، جمع حُرّاث۔ اب دیکھیے کہ عربی لغات میں جہاں لفظ حرث، حارث، محراث اور دیگر مشتقات کی بحث ہے، وہیں یہ انکشاف بھی موجود ہے کہ شیر کی ایک کنیت (یا عرفیت) ابوالحارث ہے۔
کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ شیر جیسے درندے کا کھیتی باڑی سے تعلق جوڑدیا گیا۔ زبانیں سبھی آپس میں ہم رشتہ ہیں، کیونکہ انسان ایک آدم کی اولاد ہیں۔ ان کے مابین ظاہری اختلافات، فرمان الہٰی کے مفہوم کے مطابق محض برائے تعارف ہیں، برائے فخر ومباہات نہیں۔ مقام صدافسوس ہے کہ دنیا بھر میں عموماً اور ہمارے خطے میں خصوصاً کوئی ایک زبان بولنے والا، دوسرے کو اپنے سے کم تر، حقیر اور بے حیثیت بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم تو اس خطے میں اتنے قدیم ہیں، ہماری ثقافت اور تاریخ تو اس قدر مستحکم ہے….وغیرہ۔
بفضلہ تعالیٰ اردو کا شاید کوئی اور ادیب، شاعر وصحافی زبانوں کی آپس میں نسبت اور ہم آہنگی کا پرچارک نہ ہوگا، جتنا یہ خاکسار ہے اور یہ کالم بھی گاہے گاہے اسی پیغام کو عام کرنے کا باعث ہے۔ پاکستان کی ساری زبانوں کے اصل وارثو! یہ وطن تمھارا ہے، یہ زبانیں تمھاری ہیں اور سب سے بڑھ کر اردو تمھاری ہے، ہماری ہے، ہم سب کی قومی زبان اور مایہ ناز ہے۔ اردو سے کسی کا کوئی تصادم ہے، مقابلہ ہے نہ موازنہ۔ ہماری پہچان: اسلام، اردو، پاکستان۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔