لاپتہ قیدیوں کا معاملہ، کل حتمی لائحہ عمل سے آگاہ کیا جائے، سپریم کورٹ

بات انفرادی جبری گمشدگیوں سے نکل کراجتماعی قبروںتک پہنچ گئی،ریاست ایک لاپتہ فردنہیں ڈھونڈسکتی،دہشت گرد کیسے ٹریس کریگی؟ جوادخواجہ۔۔ فوٹو : ایکسپریس/ فائل

بات انفرادی جبری گمشدگیوں سے نکل کراجتماعی قبروںتک پہنچ گئی،ریاست ایک لاپتہ فردنہیں ڈھونڈسکتی،دہشت گرد کیسے ٹریس کریگی؟ جوادخواجہ۔۔ فوٹو : ایکسپریس/ فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ملاکنڈ حراستی مرکزسے اٹھائے گئے قیدیوںسے متعلق ان کیمرابریفنگ کیلیے خیبرپختونخواحکومت کی استدعامسترد کردی اوروفاقی وصوبائی حکومت کوان کی بازیابی کے لیے کل تک حتمی لائحہ عمل پیش کرنے کاحکم دیاہے۔

جسٹس جوادخواجہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے بتایاکہ معاملے کی انکوائری کیلیے جسٹس(ر) سرداررضا پرمشتمل ایک رکنی کمیشن بنادیا گیا ہے جوایک ماہ میں رپورٹ دے گا۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ بنیادی حقوق کے اطلاق کے علاوہ معاملے کاکوئی حل یا راستہ موجود نہیں۔ 10دسمبرکے آرڈر میں حکومت کو موقع دیا تھا لیکن فیصلے پر عمل نہیں ہوا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کمیشن بنانا اچھی بات ہے لیکن یہ بات ثابت ہے کہ لوگ فوج کی تحویل میں ہیں۔ صوبائی حکومت کو یہ معاملہ وزارت دفاع کے ساتھ اٹھاناچاہیے تھا۔ کمیشن کا قیام اور اٹھائے گئے قیدیوں کے ذمے داروں کے تعین کا اختیار دینا بظاہر عدالت کے فیصلے پر اثرانداز ہونا ہے کیونکہ عدالت نے اپنے حکم میں ذمے داروںکا واضح تعین کیاہے۔

حکومت کمیشن کے لیے ٹرمزاینڈ کنڈیشنزپر نظرثانی کرے۔ عدالت نے 10دسمبر کے آرڈرکو حکمنامے کاحصہ بنا دیا جس میں فوج کو ذمے دارٹھہرایا گیاہے اورصوبائی ووفاقی حکومت کوہدایت کی کہ اس معاملے کو انتہائی اہم ریاستی ضرورت کے طور پر لیں اور این آر او کیس کے فیصلے کی روشنی میں دیکھاجائے۔ جسٹس جوادخواجہ نے ریمارکس دیے کہ بات اب انفرادی جبری گمشدگیوں سے نکل کر اجتماعی قبروں تک پہنچ گئی ہے۔ منتخب حکومتیں یہ مدنظر رکھیں کہ یہ عدالت عدالتی تحمل توڑنے کے نزدیک پہنچ گئی ہے۔ پنجگورمیں 25 لاشوںکا ملناانتہائی بھیانک ہے۔ اس پرخاموش نہیں رہاجا سکتا۔ اگر ریاست تمام وسائل کے ساتھ ایک لاپتہ شخص کا پتہ نہیں لگا سکتی تو ملک بھر میں پھیلے دہشتگردوں کو کس طرح ٹریس کرے گی، پھر تو ملک کا خدا ہی حافظ ہو گیا۔ عدالت نے صوبائی حکومت کی طرف سے رپورٹ پیش نہ کرنے نہ پر برہمی کا اظہار کیا اور سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔ بعد ازاںایڈووکیٹ جنرل لطیف یوسفزئی پیش ہوئے اور بتایا کہ مسئلہ متعلقہ اداروں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

 photo 2_zpsaff7daa1.jpg

جسٹس جوادنے کہا کہ اگرحکومت ضروری اقدام نہیںکرے گی توپھر عدالت فیصلہ کرے گی اورقانون اپناراستہ خودبنائے گا۔ 2مرگئے، 7بازیاب ہوئے اور باقی افغانستان چلے گئے، اس معاملے کاحل نہیں۔ وفاقی حکومت نے ایک قانون بنا دیا۔ ٹھیک ہے یاغلط، عدالتی جائزے کے بعدکچھ کہا جاسکے گالیکن وہ کون لوگ ہیں جن پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اور وہ ضابطہ فوجداری سے ماورا ہیں۔ ایک شخص جب لاپتہ ہوگا تو صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ پرچہ کاٹ کر تفتیش کرے۔ یہ سوچ غلط ہے کہ اگرآئین و قانون پرعمل ہواتو تباہی آجائے گی۔ سب قانون پرعمل کے پابندہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے تسلیم کیا کہ بنیادی آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ کچھ وقت دیا جائے ہر سوال کا جواب دیا جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ایسی مصدقہ اطلاعات ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ افراد فوج کی تحویل میں ہیں۔

صوبائی حکومت کو یہ معاملہ وفاق یا فوج کے سامنے اٹھانا چاہیے تھا۔ تمام ادارے ضابطہ فوجداری اور دیگر قوانین پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ عدالت کا تحمل اب اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق عدالت نے وفاق اورصوبائی حکومت کوریکارڈ کاجائزہ لے کر 24 گھنٹے میں صورتحال سے آگاہ کرنے کاحکم دے دیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ عدالت کے علم میں ہے35 افراد کو فوج اٹھا کرلے گئی تھی۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ وفاق اور خیبرپختونخوا حکومت ملکر بھی ایک شخص کونہیں ڈھونڈ سکتے تو پھر کئی سوال جنم لیتے ہیں۔ عدالت اپنے تحمل کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے، تحفظ پاکستان آرڈیننس کوقانون کے مطابق پرکھاجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔