’جتنا چاہو کھاؤ‘ ریستوران نے پیٹو شخص پر پابندی عائد کردی

چینی شخص نے پہلی مرتبہ ڈیڑھ کلو گوشت کھایا اور دوسری مرتبہ چارکلو جھینگے اڑائے جس سے انتظامیہ حرکت میں آگئی


November 19, 2021
چینی سی فوڈ باربی کیو ریستوران نے جتنا چاہو اتنا کھاؤ کی پیشکش کے باوجود ایک پیٹو شخص پر پابندی عائد کردی ہے۔ فوٹو: فائل

چین میں 'جتنا چاہو کھاؤ' (آل یو کین ایٹ) طرزکے ایک مشہور ریستوران نے ایک شخص پرپابندی عائد کردی ہے اور اس پر بے تحاشہ کھانے کا الزام عائد کیا ہے۔

اس کے جواب میں چینی یوٹیوبر اور اسٹریمر نے کہا ہے کہ اسے بسیارخوری کے نتیجے میں سمندری باربی کیو کھانے بنانے والی ایک کمپنی نے بلیک لسٹ کردیا ہے۔

کینگ نامی شخص نے ہونان ٹی وی کو بتایا کہ وہ جانکشا کے علاقے میں واقع ہینڈاڈی سی فوڈ باربی کیو گئے جو کہتے ہیں کہ ایک خاص رقم میں کھانے کی لاتعداد مقدار ہڑپ کی جاسکتی ہے۔ تاہم ہوٹل میں داخلے اور لائیو اسٹریم پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

کینگ نے سادگی سے کہا کہ پہلے مرحلے میں اس نے خنزیر کا ڈیڑھ کلوگرام گوشت کھایا تھا اور دوسرے مرحلے میں ساڑھے تین سے چار کلوگرام جھینگے کھائے تھے۔

'میری غذا بہت زیادہ ہے اور میں اس سے بھی زائد کھانا کھاسکتا ہوں، لیکن کیا یہ کوئی جرم ہے جس کے لیے مجھ پر پابندی عائد کی گئی ہے؟' اس نے انٹرویو میں کہا۔

اس نے بتایا کہ اگر سویا دودھ پینے کی بات ہو تو ایک وقت میں 20 سے 30 بوتلیں غٹاغٹ پی جاتا ہے۔ اس نے بغیر چمچے کے گوشت اورجھینگے کھائے تھے اور تھالی کی بجائے پوری ٹرے صاف کی تھی۔

تاہم اس نے یہ بھی کہا کہ اس کے بعد ریستوران نے لائیواسٹریم کرنے والے سارے فنکاروں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ کینگ کی ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم وائیبو پر بہت مقبول ہوئی ہے جسے اب تک 25 کروڑ افراد دیکھ چکے ہیں۔

دوسری جانب لوگوں نے ریستوران پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرریستوران نے لامحدود کھانے کی پیشکش کی ہے تو آخر کیوں کسی کو کھانے سے روکا جارہا ہے۔ اگر یہ بات ہے تو انہیں یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ چینی حکومت نے کھانے کی ویڈیو بنانے والے بااثرفنکاروں پر پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اس سے عوام کو کھانے کے زیاں کی ترغیب ملتی ہے۔ دوسری جانب خود صدر ژائی جِن پنگ نے بھی عوام سے کہا ہے کہ وہ کسی طرح بھی کھانا ضائع نہ کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں