اک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے

شکیل فاروقی  جمعـء 19 نومبر 2021
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

طالب علمی کے زمانے میں ایک خواب دیکھا تھا جاپان جاؤں۔ یہ اْس زمانہ کی بات ہے جب آتش جوان تھا۔ کسی کتاب میں یہ شعر پڑھا تھا۔

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

زندگانی گَر کچھ رہی تو نوجوانی پھر کہاں

اْس وقت کسی گوشہ گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر بھی ہو سکے گا۔ بات دراصل یہ تھی کہ جاپانیوں کے بارے میں جو کچھ پڑھا اور سنا تھا وہ محض افسانہ لگتا تھا۔ جغرافیہ کے نقشہ میں جب جاپان پر نظر ڈالی تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے خالقِ کائنات نے ناراضی کے عالم میں چیتھڑے بکھیر دیے ہوں۔ چھوٹے بڑے مختلف جزیروں پر مشتمل یہ ملک قدرتی وسائل سے بھی کافی محروم تھا۔ ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے تک رسائی حاصل کرنا کارِ دشوار تھا کیونکہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سمندر حائل تھا۔

معدنی وسائل بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ پورا ملک زلزلوں کی زد میں تھا جو آفتِ ناگہانی کی صورت میں کسی وقت بھی نازل ہوسکتے تھے۔ امریکا نے اگست 1945 میں اِس کے دو عظیم الشان شہروں پر ایٹم بم گرا کر قیامت خیز تباہی مچادی۔ یہ وہی امریکا ہے جو مجسمہ آزادی کو علامت بنا کر پوری دنیا میں تباہی مچائے ہوئے ہے جس کی مثالیں ویت نام اور افغانستان کی تباہ کاریوں کی صورت میں موجود ہیں۔

1945کو گزرے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا لیکن ایٹمی تباہ کاری کے خوفناک اثرات کسی نہ کسی صورت میں ابھی تک موجود ہے۔ اِس حقیقت کا مشاہدہ ہمیں بذاتِ خود کرنے کا موقع اْس وقت میسر آیا جب ہم سرکاری دورے پر ٹوکیو پہنچے تھے۔ قومی ایئر لائن کی پرواز میں وی آئی پی مسافروں کے لیے مختص گوشہ میں پرواز کا لطف بیان سے باہر ہے۔ ہمارا پہلا اسٹاپ اوور کاٹھ منڈو تھا جسے عرفِ عام میں کھٹمنڈو کہا جاتا ہے۔یہ تقریباً نصف گھنٹے کا قیام تھا،کوہ ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں سے ٹکرا کر آتی ہوئی روح پرور خْنک ہواؤں کی فرحت سے سرشار ہوا تو عزیز حامد مدنی کا یہ خوبصورت مصرعہ یاد آگیا:

تازہ ہوا بہارکی، دل کا ملال لے گئی

ابھی ہم دلکش مناظر سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ جہاز نے آہستہ آہستہ ٹیک آف کرنا شروع کر دیا۔ چند منٹ بعد کپتان نے جب ہمیں یہ بتایا کہ ابھی چند لمحوں بعد ایورسٹ کی بلند ترین چوٹی عبور کرکے گزرنے والے ہیں تو ہماری سر خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کہ ہم ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دینے جا رہے ہیں۔ ہم نے اِس سنسنی خیز منظرکو اپنی آنکھوں کے کیمرے سے اپنے ذہن میں محفوظ کرلیا جو ابھی تک اْسی طرح تر و تازہ ہے۔ یہ وہی نظارہ تھا جس کی تصویر علامہ اقبال نے اِس خوبصورت شعرکے کیمرے سے کھینچی تھی:

اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں

چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں

صرف ہمارا جہاز ہی نہیں پروازکر رہا تھا بلکہ وقت کے بھی پر لگ گئے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم بینکاک کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اْترگئے۔ قومی ایئرلائن کی پرواز بس یہیں تک تھی۔ تقریباً پونے دو گھنٹے کے قیام کے بعد ہمیں جاپان ایئر لائن کی پرواز کے ذریعے ہمیں اپنی منزلِ مقصود ٹوکیو کی جانب تقریباً آٹھ گھنٹے کی طویل پرواز کے لیے تیار ہونا تھا۔

ٹھیک مقررہ وقت پر چیک اِن شروع ہوئی اور ہم اپنی نشست پر براجمان ہوگئے۔ ایک سکینڈ کی تاخیر کے بغیر جہاز نے ٹیک آف کیا تو باہر ماحول نے تاریکی کی سیاہ چادر تان لی تھی۔ ہمارے سر پر آسمان اور پیروں تلے بحرِ بے کراں تھا۔ جوں جوں جہاز آگے کی جانب بڑھتا جاتا تھا توں توں ہمارے تجسس میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ بار بار گھڑی پر نظر ڈالتے تھے کہ کہیں ابھرتے سورج کی سرزمین کا وہ دلچسپ منظر نہ گزر جائے جس کی تصویر کشی اقبال نے یوں کی ہے:

کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

نیند نہیں آرہی تھی کہ کہیں وہ دلکش منظر نہ گذر جائے اور ہم سوتے ہی رہ جائیں۔ اِس منظر کے بارے میں الفاظ کچھ بیان کرنے سے قاصر ہیں کہ بقول شاعر:

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

پھر ہماری زندگی کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا جب ہمارے جہاز نے ٹوکیو کے ناریتا ایئر پورٹ پر لینڈنگ کی۔ ایئر پورٹ کیا تھا بس عجائب خانہ تھا۔ جب ہم لاؤنج سے باہر آئے تو ہمارے میزبانوں نے جاپانیوں کے مخصوص انداز میں جھک کر ہمارا استقبال کیا اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم ہوٹل میں جا پہنچے ۔ ہمارے دورے کی شروعات ٹوکیو سے ہوئی جہاں ہم نے ابتدائی دو تین روز گزارے۔

اِس دوران ہمیں جاپان کی حیرت انگیز ترقی اور جاپانیوں کے طرزِ زندگی کے مشاہدے کا نادر موقع میسر آیا۔ ہمیں یقین نہیں آتا تھا کہ ایٹم بموں کا نشانہ بننے والا یہ قدرتی وسائل سے تنگ ملک اِس قدر حیران کْن انداز میں دوبارہ اپنے پاؤں پرکھڑا ہوسکتا ہے۔ ہم نے تباہی کے وہ مناظر بھی دیکھے جنھیں ٹوکیو کے عجائب گھر میں آیندہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر کے رکھا گیا ہے۔

اِن لرزہ خیز مناظر کو دیکھ کر ہماری آنکھوں سے بے ساختہ آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی مگر داد دینا پڑے گی، جاپانیوں کی حوصلہ مندی اور کارکردگی کی کہ ایسی تعمیر ِنوکی جسے دیکھ کر خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ ہیروشیما گئے تو یوں محسوس ہوا کہ ایٹم بم سے ہونے والی تباہی محض کوئی قصہ یا فسانہ تھا۔ جاپان کی اِس حیرت انگیز ترقی کا راز جاپانی قوم کی وقت کی پابندی، جفا کشی اور دیانتداری میں مضمر ہے۔

آجر اور اجیر دونوں اپنے اپنے فرائض سے سو فیصد مخلص ہیں۔ آجر کو اپنے ورکر کی فلاح و بہبود کا پورا احساس ہے اور اجیر سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ذرہ برابر بھی کوتاہی یا غفلت کرے۔ ایمانداری کا عالم یہ ہے کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور جب مسافرکو لے کر نکلا تو اْس نے تقریباً دو تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد یکایک ٹیکسی کا میٹر بند کردیا۔ پھرکچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد دوبارہ میٹر چالوکردیا۔

منزلِ مقصود پر پہنچا تو مسافر کے استفسار پر اْس نے بتایا کہ غلط موڑ پر مڑنے کی وجہ سے اْس نے میٹر بند کرکے کرایہ کم کردیا تھا۔ جاپان میں تالی دونوں ہاتھ سی بجتی ہے۔ آجر نے اجیر کی فلاح و بہبود کا ٹھیکہ اپنے ذمے لیا ہوا ہے اور اجیر نے وفاداری کی قسم کھا رکھی ہے۔ چنانچہ وہاں روز بروز نوکریاں بدلنے کا دستور نہیں۔ بس یہی بنیادی فرق ہے ہم میں اور دنیا کی دیگر ترقی یافتہ قوموں میں۔

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔