ملبہ

ایم جے گوہر  جمعـء 19 نومبر 2021
اقتدار کی مدت جوں جوں اختتام کے قریب آرہی ہے ، پی ٹی آئی حکومت کی مشکلات میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے

اقتدار کی مدت جوں جوں اختتام کے قریب آرہی ہے ، پی ٹی آئی حکومت کی مشکلات میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے

اقتدار کی مدت جوں جوں اختتام کے قریب آرہی ہے ، پی ٹی آئی حکومت کی مشکلات میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس رفتار سے گرانی کا گراف اوپر جا رہا ہے اسی تیزی سے اپوزیشن جماعتیں بھی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنی صفوں کو درست کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

مخالف جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اپنے احتجاجی پروگرام کا اعلان کردیا ہے ، جس کے مطابق جلسے، جلوس، ریلیاں اور آخر میں مرحلہ وار لانگ مارچ کا سلسلہ شروع ہوگا جس کی آخری منزل اسلام آباد ہے جہاں پہنچ کر حکومت کے خاتمے تک دھرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ایک طرف حکومت مخالف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں تو دوسری جانب حکومت کی اتحادی جماعتیں بالخصوص ایم کیو ایم اور (ق) لیگ نے حکومت کے خلاف شکایتوں کے دفتر کھول دیے ہیں۔ ناراضی کا برملا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دوریاں اور فاصلے بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کے سامنے اپنے مسائل کا کئی بار ذکرکرچکے ہیں، وزیر اعظم سے درخواست بھی کرچکے ہیں کہ قانون سازی کے حوالے سے ہمارے ساتھ شیئرنگ کریں ، حکومت اتحادیوں کو آن بورڈ لے تو ساتھ دے سکتے ہیں بصورت دیگر ہمیں حکومت کے ساتھ اپنے تعلق کے حوالے سے کسی دن فیصلہ کرنا پڑ جائے گا۔

ادھر پنجاب سے حکومت کی اہم اتحادی جماعت (ق) لیگ نے بھی اب کھل کر حکومت کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنا شروع کردی ہے۔ (ق) لیگ کے رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ تین سال سے تعلق نبھا رہے ہیں لیکن حکومت ساتھ نہیں دے رہی ہے، بزدار حکومت ہمارے کارکنوں کے ساتھ ناروا سلوک کر رہی ہے۔ کامل آغا کے بقول حکمران بھول گئے کہ مشکل ترین وقت یعنی سینیٹ الیکشن میں ہم ہی نے حکمران جماعت کو کامیابی دلائی تھی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے (ق) لیگ کے شکوؤں کے جواب میں کہا ہے کہ (ق) لیگ کے تحفظات دور کریں گے۔ یہاں اگر عدالت بھی حاکموں کے خلاف فیصلے دے ، تو کہا جاتا ہے کہ ہمیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملا۔

موجودہ حکومت کی بڑھتی ہوئی مشکلات کے پیش نظر دورکی کوڑی لانے والے سیاسی و صحافتی حلقے اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے اور پیش آمدہ خطرات کی نشاندہی کرنے والے بعض مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور طاقتور حلقے جوکبھی ایک پیج پر ہونے کا تاثر دیتے تھے، اب کچھ کھچے کھچے سے نظر آ رہے ہیں۔ اگرچہ وزیر و مشیر آج بھی پر امید ہے کہ ان کی حکومت پانچ سالہ مدت پوری کرے گی۔ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ان کی احتجاجی تحریک مثل ماضی پانی کا بلبلہ ثابت ہوگی۔ ایک حکومتی وزیر با تدبیر نے تو اپوزیشن کو یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر وہ اسلام آباد آئی تو ’’ کٹ ‘‘ لگے گی۔

اکابرین حکومت کہتے ہیں کہ انھیں عوامی سطح پر آج بھی مقبولیت حاصل ہے اور اگلے انتخابات میں وہ دوبارہ اقتدار میں آئیں گے۔ عوام کی اکثریت کرپشن کہانیوں کے باعث ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے نالاں ہیں، بعینہ ملک کے طاقتور حلقے بھی مذکورہ جماعتوں کو اب اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ دانشور حلقوں کے نزدیک حکومتی اکابرین کی یہ خام خیالیاں ہیں۔ اب بھی وقت ہے حکومت ہوش و خردمندی سے کام لے سیاسی و معاشی ہر دو میدان میں اسے جن مشکل چیلنجز کا سامنا ہے اس سے نمٹنے کے لیے صائب الرائے حلقوں کی آرا پر سنجیدگی سے غور کرے۔ اپنی غلطیوں، کوتاہیوں، لغزشوں اور نااہلیوں کا سارا ملبہ ماضی کی حکومتوں کے کھاتے میں ڈالنے سے بات نہیں بنے گی۔

جمہوری و پارلیمانی نظام حکومت میں اقتدار کے لیے مطلوبہ تعداد میں نشستیں جیت کر جو بھی سیاسی پارٹی تنہا حکومت بنا لیتی ہے اس کے لیے قومی اسمبلی میں قانون سازی کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے اور اگر وہ پارٹی سینیٹ میں بھی اکثریت رکھتی ہو تو مشترکہ اجلاس سے کوئی بھی بل باآسانی پاس کروا لیتی ہے۔

اس کے برعکس مخلوط حکومت کے لیے، جو اتحادیوں کے بل بوتے پر اقتدار میں آتی ہے اپنے اتحادیوں کے مطالبات کی تکمیل ضروری ہوتی ہے ، دوسری صورت میں اتحادی جماعتیں اپنے راستے جدا کرلیتی ہیں۔ نتیجتاً مخلوط حکومت اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ اتحادی جماعتوں کے پاس حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی سب سے کارگر ہتھیار ہوتا ہے۔ جب اقتدار بچانے کے لیے اتحادیوں کے مطالبات کی منظوری حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان اور چیلنج ہوتا ہے۔

حکومت آج کل اسی کشمکش میں مبتلا ہے۔ انتخابی اصلاحات بالخصوص الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سیاپوزیشن کو تحفظات ہیں بلکہ خود حکمران جماعت کے بعض اکابرین بھی اس ضمن میں پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔ قانون سازی میں حکومت کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ہفتے (ن) لیگ کے رکن نے قومی اسمبلی میں بل پیش کرنا چاہا تو حکومت نے اس کی مخالفت کی۔ اسپیکر نے بل پیش کرنے کے لیے جب ووٹنگ کرائی تو اپوزیشن کے 117 ارکان نے حق میں جب کہ حکومت کے 104 ارکان نے مخالفت کی یوں حکومت کو اپوزیشن کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کو چار و ناچار پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی ملتوی کرنا پڑ گیا ، جوکہ قانون سازی کے لیے بلایا گیا تھا۔

قومی اسمبلی میں حکومتی شکست کو بعض حلقے معنی خیز قرار دیتے رہے اور کہا جا رہا ہے کہ حکومت اپنی اکثریت کا اخلاقی جواز کھو چکی ہے۔ اسے مستعفی ہوجانا چاہیے۔ لیکن حکومت نے بدھ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنی عددی برتری ثابت کر دی اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین سمیت 33بل منظور کر لیے۔ حکومت کے 221اور حزب اختلاف کے 203ووٹ نکلے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔