قرضوں سے نجات ٹیکس کلچرکا فروغ ضروری

پاکستانی عوام کے لیے ہو سکتا ہے یہ بات حیران کن ہوکہ عام طورپر بڑے اور ترقی یافتہ ممالک کے بیرونی قرضے زیادہ ہوتے ہیں۔


Editorial November 25, 2021
پاکستانی عوام کے لیے ہو سکتا ہے یہ بات حیران کن ہوکہ عام طورپر بڑے اور ترقی یافتہ ممالک کے بیرونی قرضے زیادہ ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

سابق حکمرانوں نے دس برس میں ملک پر قرضہ 6 ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے تک پہنچا دیا، ملک پر قرضے چڑھانے والوں کو سزائیں ملنی چاہئیں۔

ان کا خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے اگلے روز ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا،انھوں نے مزید کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ملک کو چلانے کے لیے پیسہ نہیں اور اسی وجہ سے ہمیں قرضے لینا پڑتے ہیں، دنیا میں لوگ فراخدلی سے ٹیکس دیتے ہیں، ترقی یافتہ ملکوں میں ٹیکس چوری کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

وزیراعظم نے سنجیدگی سے جن صائب خیالات کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان کی قوم سے دردمندی اور اصلاح احوال کی ایک دیرینہ خواہش کا اظہار ہے ، کیونکہ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ملک کی پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے محصولات کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اس لیے ٹیکس دہندگان کو سہولیات کی فراہمی اور ٹیکس دینے کے نظام میں آسانی پیدا کرنے سے ٹیکس نیٹ بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ ٹیکس کے نظام میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس کی وصولی کو بلاشبہ وسعت دی جا سکتی ہے۔

پائیدار اور مجموعی ترقی کے لیے ہمیں مقامی وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے، بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کی استعداد کا نصف ٹیکس وصول ہوتا ہے جو ایک چیلنج ہے۔

وزیراعظم نے اپنی تقریر میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے دو سابقہ ادوار میں قرضوں کا حجم بڑھنے کی نشاندہی کی ہے، سادہ سی بات ہے کہ یہ بات صرف دو حکومتوں کے ادوار تک کیوں محدود رکھی جائے، اس سلسلے کو وسیع تر تناظر میں دیکھنا ہوگا ، سابق دونوں ادوار کے سیاستدان اور بیوروکریٹس اس وقت عدالتوں میں مقدمات کا سامنا بھی کررہے ہیں، لہذا عدالتی فیصلوں کا انتظار کرنا زیادہ بہتر رہے گا۔

درحقیقت پاکستان میں قرضوں کی سیاست نئی نہیں، عالمی مالیاتی اداروں سے قرض ہر حکومت نے لیا ہے، ہمارے ہاں جس قرضے کا سب سے زیادہ ذکر ہوتا ہے وہ بیرونی قرضہ ہی ہے، یعنی وہ قرضہ جو غیر ملکی مالیاتی اداروں کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کی ادائیگی کی صورت کرنسی کے تبادلے، اشیاء یا دیگر خدمات کی صورت میں ہو سکتی ہے۔

پاکستانی عوام کے لیے ہو سکتا ہے یہ بات حیران کن ہو کہ عام طور پر بڑے اور ترقی یافتہ ممالک کے بیرونی قرضے زیادہ ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانی تو سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اِس وقت سب سے زیادہ قرضہ پاکستان پر ہے اور یہاں کا بچہ بچہ، بلکہ اس بچے کا بھی بال، بال تک قرضے میں جکڑا ہوا ہے، لیکن سپرپاور امریکا اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے ۔

پاکستان میں بڑھتے ہوئے قرضوں کا معاملہ گزشتہ دور حکومت میں بھی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان وجہ تنازع رہا ہے، جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو انھوں نے مسلم لیگ نواز کی اس وقت کی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ معیشت کو قرضوں کا محتاج بنا دیا ہے تاہم ان کے اپنے دور اقتدار میں مجموعی قرضے میںکئی گنا اضافہ ہوچکا ہے اورپی ٹی آئی کی حکومت نے ملکی و غیر ملکی قرضوں کا نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔

ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ 44 ہزار 801 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بھاری غیرملکی قرضوں کا بوجھ براہ راست عوام پر منتقل ہورہا ہے، جس سے عام آدمی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے ۔

پاکستان کو آغاز سے ہی ایک سیکیورٹی اسٹیٹ کے طور پر تشکیل دیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ غیر منقسم ہندوستان سے وراثت میں ملی بیوروکریسی اور سیاسی شخصیات کا کلچر انگریز حکمرانوں سے مستعار لیا گیا تھا۔ وہ خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے تھے۔

بانی پاکستان، محمد علی جناح کی تدبیر اور تدبر سے وجود میں آنے والا پاکستان ان گروہوں کے ہاتھ آگیا۔ بیوروکریسی نے لائسنس، تحفظ اور سبسڈی کے ذریعے منافع خور کاروباری طبقے اور اس سے جڑی زمیندار اشرافیہ کے ساتھ اتحاد کرکے معاشی اٹھان پر اپنی گرفت جمالی اور بجٹ کو اپنے بس میں کرلیا۔

اپنے مفادات کو کم کرنے کی ہر عوامی کوشش کو بزوربازو ناکام بنایا۔ سرد جنگ میں نیٹو اتحاد میں شامل ہوکر امریکا اور دیگر امیر ملکوں سے اربوں ڈالر کی امداد اور قرضے لے کر سرکاری اشرافیہ امراء میں شامل ہوگئی۔ ریاست کے اس ڈھانچے اور غیر ملکی قرضوں اور امداد پر گزارہ کرنے کی عادت نے معیشت کو ہی برباد نہیں کیا بلکہ بغیر محنت کیے، محض سرکار کی مراعات سے امیر ہونے والے طبقے نے معاشرتی اقدار کو بھی تباہ کر ڈالا ہے۔

انتہائی سنجیدگی اور بردباری سے ہمیں ایسی واضح اور ٹھوس حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ ملک میں معاشی اصلاحات کے عمل کا باقاعدہ آغاز ہوسکے ۔ سب سے پہلے، اگر کفایت شعاری سے کام لینا ہے تو بالائی طبقے کو ایسا کرنا ہوگا، جو پہلے ہی بمشکل دو وقت کی روٹی پوری کررہے ہیں، اُنہیں مزید کس کفایت شعاری کے لیے کہا جارہا ہے ، وزراء اور مشیروں کے بیانات عوام کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں ۔

ٹیکس نظام میں بہتری اور اہداف کے حصول کے لیے چند تجاویز درج کی جارہی ہیں ، جیسے کہ تمام سرکاری اور نجی اداروں کے لیے سبسڈیز یا منافع خور عناصر کے لیے خصوصی چھوٹ کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

ایف بی آر میں اصلاحات کر کے عوامی محصولات میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے، اگر ضرورت ہو تو زیادہ ساکھ اور کارکردگی رکھنے والی غیر ملکی ایجنسیوں کو ٹیکس وصولی کی ذمے داری سونپ دی جائے۔ نتائج دینے میں ناکام رہنے والوں کی برآمدی مراعات ختم کردی جائیں کیوں کہ ان کے نتیجے میں محض کاروباری اشرافیہ ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔

چینی کی درآمد آزاد کرکے شوگر انڈسٹری کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ امدادی قیمتوں کے بجائے مارکیٹ کو فعال بنایا جائے تا کہ زرعی پیداوار کا تعین امدادی قیمت کی بجائے مارکیٹ میں طلب اور رسد کرے۔زرعی اصلاحات نافذ کی جائیں۔

کاغذ پر کی گئی تقسیم اور کاشت کاری اور حصے پر کاشت کاری کی اصلاح کرکے جاگیرداری کا خاتمہ کیا جائے تاکہ وسیع وعریض جائیدادوں سے بھاری منافع خوری کا سلسلہ بند ہوسکے۔ خوش حال طبقے میں وراثت کی منتقلی پر بھاری ٹیکس عائد کیا جائے۔ پانچ ہزار روپے کانوٹ ختم کردیا جائے تاکہ نقد رقوم کی ادائیگی کے ذریعے ٹیکس چوری کو روکاجاسکے۔

اس طرح کے اور بھی بہت سے اقدامات ہیں جن پر غور اور عمل کیا جا سکتا ہے۔یقیناً ریاست پاکستان پر قبضہ جمائے رکھنے والی بیوروکریسی اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے سخت مزاحمت کی جائے گی، لیکن اس راستے پر چلنے کی سنجیدہ کوشش کے بغیر کوئی بھی حکومت ملک کو کینسر کی بیماری سے نکالنے کی امید نہیں کر سکتی۔

مزید برآں مناسب سماجی ماحول کو شعوری طور پر تشکیل دیا جائے اور اسے فروغ دیا جائے تاکہ اس طرح کے انقلابی اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ ان میں سے سب سے اہم کا تعلق آبادی میں اضافے اور بنیاد پرستی کو کم کرنے سے ہے۔ پہلا معاشی ترقی کے منافع کو کھاتا ہے جب کہ دوسرا سیاسی عمل کو غیر مستحکم کرتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی غیر ملکی سرمایہ کاری کا راستہ روکتی ہے اور سیاحت اور مہمان نوازی جیسے عالمی معیشت کے سروس سیکٹر سے فائدہ اٹھانے کے امکانات کو کم کرتا ہے۔ دنیا میں یہ سروس سیکٹر سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

حتیٰ کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات جیسے اسلام کے رکھوالے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرکے اس ضرورت کو سمجھ چکے ہیں۔خیریہ ایک طویل جدوجہد ہے، لیکن اس کا آغاز اب کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کو ناکام ریاست بننے سے بچانا ہے تو یہ اصلاحات ناگزیر ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی محصولات میں تیزی سے اضافہ ممکن بنایا جائے، تاکہ بین الاقوامی قرضے واپس کیے جا سکیں، کرنسی مستحکم ہو، روزگار کے مواقعے پیدا ہوں اورمہنگائی اور غربت میں کمی ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں