سوات کا ایسا گاؤں جہاں پہنچے کےلیے سرنگوں سے گزرنا پڑتا ہے

آصف شہزاد  جمعرات 25 نومبر 2021
رہائشیوں کو روز ان تنگ و تاریک سرنگوں سے ٹیڑھی کمر کے ساتھ گزرنا پڑتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

رہائشیوں کو روز ان تنگ و تاریک سرنگوں سے ٹیڑھی کمر کے ساتھ گزرنا پڑتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

سوات کی تحصیل کبل کا یہ علاقہ گانشل ڈھیرئی کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں کی آبادی تقریباً پندرہ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ افراد اس گاؤں تک پہنچنے کےلیے عام راستے سے محروم ہیں۔ گاؤں تک آنے جانے کےلیے مزدوروں، طالب علموں اور ملازمت پیشہ افراد کو روزانہ کی بنیاد پر ان تنگ و تاریک سرنگوں سے ٹیڑھی کمر کے ساتھ گزرنا پڑتا ہے۔

عورتیں اور بوڑھے افراد ان سرنگوں میں لگ بھگ 400 فٹ تک کا سفر ٹیڑھی کمر کے ساتھ طے کرکے گاؤں تک پہنچتے ہیں۔ علاقہ مکینوں کو بازار، اسکولوں، کالجوں، اسپتال اور دیگر ضروریات زندگی تک رسائی کےلیے چار و ناچار ان سرنگوں سے گزرنا پڑتا ہے جو یہاں کے رہائشیوں کےلیے ریڑھ کی ہڈی ،گھٹنوں اور کمر کی خطرناک بیماریوں کا سبب ہے۔

مقامی آبادی کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے اس علاقے سے دو مرتبہ انتخابات جیتے لیکن وہ اس سنگین مسئلے کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہمارا مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے۔

اگر دیکھا جائے تو اس جدید دور میں لوگوں کا نیولے کی طرح سرنگوں میں سے گزر کر گاؤں پہنچنا ناقابل یقین ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ ایک دہائی سے جاری ہے۔ حالانکہ خیبرپختونخوا کے موجودہ وزیراعلیٰ کا تعلق بھی ضلع سوات سے ہے لیکن کوئی بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کا خواہاں نہیں۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے ان سرنگوں سے گزرتے ہوئے کئی افراد کمر اور گھٹنوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں، جبکہ ضعیف العمر عورتوں اور مردوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک بزرگ کا کہنا تھا کہ اس سرنگ سے گزر کر جب گھر پہنچتا ہوں تو ایک گھنٹے تک سانس بحال نہیں ہوتی اور طبیعت ٹھیک ہونے تک لیٹ جاتا ہوں۔

ویسے تو بارانی نالے پر متعدد سرنگیں ہیں لیکن ان میں بطور راستہ استعمال کےلیے چار سرنگ مختص کردی گئی ہیں، جن میں ایک سرنگ جوکہ عموماً بارانی پانی سے محفوظ اور صاف رہتی ہے خواتین کےلیے مخصوص ہے۔ دوسری سرنگ سامان اور ریڑھی کےلیے ہے، جبکہ باقی دو سرنگوں میں سے ہر کوئی گزر سکتا ہے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی فریاد منتخب نمائندگان سمیت کئی مشران تک پہنچائی لیکن ان کی دادرسی کےلیے کوئی بھی سنجیدہ نہیں اور ہزاروں افراد پر مشتمل اس گاؤں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

ان سرنگوں میں تکلیف کے ساتھ ساتھ کئی طرح کے خطرات کا اندیشہ رہتا ہے لیکن انسانی خصلت کے عین مطابق چند قدم کے فاصلے پر واقع نظروں کے سامنے گاؤں تک پہنچنے کوئی بھی فرد کئی کلومیٹر کا طویل اور سنسان راستہ طے کرنے کےلیے تیار نہیں، جوکہ وقت کے ضیاع کے ساتھ معاشی نقصان کا بھی باعث ہے۔ اسی وجہ سے یہاں کے لوگ سرنگوں سے گزر کر تکلیف و اذیت کو اٹھانے کےلیے مجبور ہیں۔

علاقہ مشران کی مطابق انہوں نے ایئرپورٹ کے انتظام پر مامور پاک فوج کے افسران اور منتخب نمائندگان تک بارہا اپنی فریاد پہنچائی۔ تاہم ابھی تک کسی بھی قسم کے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات اٹھائے کےلیے کوئی سعی نہیں کی گئی۔

علاقہ مشران کے مطابق سیدو شریف ایئرپورٹ کی تعمیر سے قبل ایک قدیم راستہ ان کے زیر استعمال تھا جوکہ ان سرنگوں کے ساتھ یا ان سرنگوں کے اوپر بنا ہوا تھا اور مذکورہ گاؤں کے لوگ عصہ دراز سے اس سہل اور کشادہ راستے کا استعمال کرتے تھے۔ تاہم دیگر ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ 1978 میں سیدوشریف ایئرپورٹ کی تعمیر کے دوران اس راستے کے آس پاس کی زمینوں کو ایئرپورٹ کےلیے یہاں کے رہائشیوں سے قیمتاً خریدا گیا تھا۔ جب ایئرپورٹ رن وے کی تعمیر شروع ہوئی تو اس راستے کو ختم کرنا پڑا، کیونکہ سیدو شریف ایئرپورٹ کا رن وے اسی راستے کو کراس کرکے گزرتا ہے۔ اس گاؤں کے رہائشی اس مختصر اور آسان راستے کے ساتھ اتنے مانوس تھے کہ ایئرپورٹ کے رن وے کو اوپر سے عبور کرکے گاؤں پہنچتے تھے۔ چونکہ سیدوشریف ایئرپورٹ مقامی ایئرپورٹ ہے اس لیے ایئر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایسے میں ان لوگوں کو رن وے عبور کرنے میں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی صورتحال اور مخدوش حالات کے پیش نظر سیدو شریف ایئرپورٹ پر 2009 میں باڑ لگادیا گیا، جس کے بعد ان لوگوں کےلیے ایئرپورٹ میں داخل ہونا اور رن وے کو عبور کرنا ممکن نہیں رہا۔ لہٰذا ان لوگوں نے رن وے کے نیچے بارانی نالے کےلیے بنی سرنگوں میں سے گزرنا شروع کردیا۔ اس گاؤں تک پہنچنے کےلیے دوسرا متبادل راستہ بھی موجود ہے لیکن سامنے نظر آنے والے چند قدم کے فاصلے پر واقع گاؤں تک پہنچنے کےلیے کئی کلومیٹر طویل راستہ اپنانے کےلیے گاؤں کے لوگ ذہنی، جسمانی اور معاشی طور پر تیار نہیں ہیں۔

متبادل راستہ طویل ہونے کے ساتھ ساتھ سنسان بھی ہے، جس پر کوئی پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں چلتی، لہٰذا علاقہ مکین ان تاریک سرنگوں میں سے گزرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اب یہاں کے باسیوں کے مطابق انہیں اس مجبوری کی عادت ہوچکی ہے۔ تاہم جب باہر سے کوئی مہمان ان سرنگوں سے گزر کر گاؤں پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو بے ہوش اور زخمی ہونے کے خطرات کے اندیشے سے نبردآزما رہتا ہے۔

مذکورہ گاؤں میں خدانخواستہ اگر کوئی ایمرجنسی صورتحال پیدا ہوجائے تو زخمیوں یا مریضوں کو ہتھ ریڑھی میں ڈال کر ان سرنگوں سے گزارا جاتا ہے۔ سرنگ میں ہتھ ریڑھی کو مریض سمیت حرکت دینا شدید مشقت کا کام ہے تاہم یہ ایک ایسی مجبوری ہے جس کےلیے یہاں کے لوگوں کو ہر وقت تیار رہنا پڑتا ہے۔ علاقہ مکینوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس راستے کی بحالی میں سنجیدہ کردار ادا کرے اور انہیں اس اذیت سے نجات دلائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف شہزاد

آصف شہزاد

بلاگر لاء گریجویٹ ہیں۔ مختلف اخبارات اور ویب سائٹس کےلیے معاشرتی مسائل پر بلاگز اور کالم لکھتے ہیں۔ ان سے ٹویٹر ہینڈل @spinbaaz پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔