’’میرا وطن‘‘ قرضوں سے کیسے چھٹکارہ پائے !

علی احمد ڈھلوں  منگل 30 نومبر 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

ہم لکھاریوں کو بھی نہ جانے کس بات کی دھن سوار رہتی ہے کہ حکومت کے لیے ایسی ایسی تجاویز تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ شاید وہ اپنا قبلہ درست کر لے، لیکن مایوسی اُس وقت ہوتی ہے کہ جب اُسی خاص پہلو میں انھیں شکست ہو جاتی ہے، اس پر ہمیں دکھ تو بہت ہوتا ہے مگر پھر سوچتے ہیں کہ حکومت نے کروڑوں روپے تنخواہیں دے کر جو وزیر، سینیٹر، مشیر ، اور مشیروں کے مشیر رکھے ہیں بھلا وہ ’’ماہرین‘‘ اس ’’خلاء کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟ اور وہ کر کیا رہے ہیں؟

یہ انھی ’’ماہرین‘‘ کی مرہون منت ہے کہ وطن عزیز ہر شعبہ میں پیچھے رہ چکا ہے، جب کہ معاشی طور پر تو ملک کا ویسے ہی دیوالیہ نکل چکا ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ گھر کے مکینوں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہے… لیکن کیا کریں ہمارا کام ہے ’’اذان ‘‘ دیتے رہنا خواہ کوئی نمازی آئے یا نہ آئے۔ بقول فیض صاحب کے کہ

ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

اور ویسے بھی ہم اُن لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے تحریک انصاف کے ساتھ ’’تبدیلی‘‘ کا خواب دیکھا تھا، جس کو لے کر ابھی بھی چند فیصد اُمید ضرور ہے کہ شاید ہمارا کپتان ’’کم بیک‘‘ کرے، لیکن مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے، ان میں سے بیشتر مسائل تو حکومتی غلط حکمت عملی کی وجہ سے گھمبیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔

اب آپ مہنگائی اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کے معاملے کو ہی دیکھ لیں، ہر غریب شخص یا معمولی تنخواہ لینے والا پریشان دکھائی دیتا ہے ۔ شوکت ترین صاحب فرماتے ہیں کہ اصل مسئلہ مہنگائی نہیں بلکہ ’’غربت‘‘ ہے، وہ صحیح فرما رہے ہیں، کیوں کہ جب لوگوں میں چیزیں خریدنے کی سکت ہی نہیں ہے تو اصل مسئلہ مہنگائی نہیں بلکہ غربت ہی ہوگا، لیکن عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہے۔ بلکہ پہلے کی طرح آج بھی ہم آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ’’وکٹری‘‘ کا نشان صرف اس لیے بناتے ہیں کہ ہمیں وقتی ریلیف مل گیا ہے۔ جیسے حالیہ ایک ارب ڈالر کی آئی ایم ایف سے قسط ملنے پر تمام وزراء ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے نہیں تھکتے بالکل اسی طرح ماضی میں بھی حکومتی اراکین ایسا ہی رویہ اختیار کرتے تھے۔

حالانکہ انھیں یہ فکر نہیں ہوتی کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر لینے کی قیمت بالآخر میرے اور آپ جیسے عام شہری نے ادا کرنا ہے۔جس رقم کے حصول کا معاہدہ ہوا ہے وہ فقط اسی صورت ہماری حکومت کو دستیاب ہوگی اگر رواں برس کے اختتام سے قبل وہ بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربااضافے کے علاوہ 550ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانا بھی یقینی بنائے۔

بجلی،گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی اعلان سے ہوجاتا ہے۔نئے ٹیکس لگانے کے لیے تاہم ضمنی بجٹ نامی شے قومی اسمبلی سے منظور کروانا ہوگی، جس میں 550ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے، اور جو حکومت ایک دن میں 33بل پاس کروا لے اُس کے لیے ضمنی بجٹ منظور کروانا کون سا مشکل کام ہے۔

خیر آج ہمارا موضوع اسٹیٹ بینک کی اُس رپورٹ پر طائرانہ نظر ڈالنا ہے جو اُس نے گزشتہ ہفتے جاری کی جس کے مطابق موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں سے نسبتاً زیادہ قرض لے چکی ہے۔ اور ملک کے ذمے واجب الادا ملکی و غیر ملکی قرضوں کا حجم 50 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم 127ارب ڈالر سے تجاوز کرتے ہوئے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ قرض کے اس مجموعی بوجھ میں آئی ایم ایف، بین الاقوامی مالیاتی اداروں، پیرس کلب اور غیر ممالک سے لیے گئے قرضوں کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر کمرشل بینکوں سے حاصل قرضے بھی شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی گزشتہ حکومتوں کو پاکستان کے قرضوں میں اضافے پر مورد الزام ٹھہراتی ہے، تاہم رپورٹ کے مطابق اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے 39 ماہ کے اقتدار میں اس کی قرضے لینے کی رفتار سابقہ حکومتوں سے زیادہ دکھائی دیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔