کرکٹرز ریٹائر کیوں نہیں ہوتے؟

سلیم خالق  منگل 14 دسمبر 2021
کامیابی تب ہی ملے گی جب مکمل آپریشن کلین اپ ہوگا۔ فوٹو : فائل

کامیابی تب ہی ملے گی جب مکمل آپریشن کلین اپ ہوگا۔ فوٹو : فائل

’’میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا، پہلے ڈرافٹ میں ڈائمنڈ سے گولڈ کیٹیگری میں منتقل کیا گیا، پھر پشاور زلمی نے سلور میں منتخب کیا،اب میں پی ایس ایل میں ہی حصہ نہیں لوں گا‘‘

کامران اکمل کا یہ بیان اتوار کو میڈیا پر چلتا رہا، زیادہ دور کی بات نہیں ہے 2 سال پہلے ہی وہ فرنچائز کی آنکھ کا تارا تھے اور لیگ میں کارکردگی کی بنیاد پر قومی ٹیم میں واپسی کے خواب دیکھ رہے تھے مگر گذشتہ برس حالات تبدیل ہو گئے،13 میچز میں وہ 2 ہی نصف سنچریاں بنا سکے،21.76 کی اوسط سے صرف283 رنزاسکور کیے، بولر وہاب ریاض کی ایوریج بھی کامران سے بہتر تھی، وکٹوں کے عقب میں تو اپنے عروج کے دور میں بھی وہ بڑے بڑے بلنڈرز کر دیتے تھے، اب تقریبا 40 سال کی عمر میں ان سے چابکدستی کی توقع رکھنا فضول ہے۔

کرکٹ بڑا عجیب کھیل ہے یہاں جذبات یا سابقہ کارناموں کی کوئی اہمیت نہیں، موجودہ دور میں آپ کیاکر رہے ہیں اور آگے کیا کر سکتے ہیں یہی دیکھا جاتا ہے،جیسے ریس کے گھوڑے جب تیز دوڑنے کے قابل نہیں رہتے تو ان کوسائیڈ پرکر دیا جاتا ہے ویسا ہی کرکٹرز کے ساتھ بھی ہے، فرنچائز کرکٹ میں تو ظاہر ہے مالکان نے ٹیم پر پیسے لگائے ہوتے ہیں وہ توکارکردگی کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں،کامران کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

اگر آپ پی ایس ایل کے مجموعی ریکارڈز نکال کر دیکھیں تو 2070 رنز بنانے والے بابر اعظم کے بعد دوسرا نمبر 1820 رنز کے ساتھ ان کا ہی ہے،وہ 2 بار لیگ کے بہترین بیٹسمین، ایک مرتبہ بیسٹ کرکٹر جبکہ ایک بار بہترین وکٹ کیپر کا ایوارڈ اپنے نام کر چکے،البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب ماضی جیسا کھیل پیش کرنا ان کیلیے بہت مشکل ہوتا، ڈرافٹ میں کئی کھلاڑیوں کی کیٹیگریز تبدیل ہوئیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ایسا چیئرمین بورڈ رمیز راجہ نے کیا، محمد حفیظ اور شعیب ملک کی بھی کیٹیگری نیچے ہوئی، کامران کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ عمر رسیدہ کرکٹرز کو اب گھر جا کر ٹی وی پر میچ دیکھنے کا پیغام دیا جا رہا ہے، ہم اور آپ یہ بات سمجھ رہے ہیں تو کھلاڑی کیوں نہیں سمجھ پاتے، وہ عزت سے ریٹائر کیوں نہیں ہوتے؟ یہ سوال برسوں سے میرے ذہن میں موجود ہے، میں نے کئی کرکٹرز سے پوچھا بھی، ان کا یہی کہنا تھا کہ موجودہ کھلاڑیوں کے جو ٹھاٹ باٹ ہیں وہ سابق کے نہیں ہوتے۔

جاوید میانداد، انضمام الحق،یونس خان، ظہیر عباس کتنے اور بڑے نام ہیں مگر اب کا پہلے جیسا اسٹارڈم برقرار نہیں رہا، ’’جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے‘‘ ہم کھیلتے رہیں گے تو کنٹریکٹ، میچ فیس، اشتہارات وغیرہ کے پیسے بھی ملیں گے، ساتھ لیگز میں بھی اچھے معاہدے ہو سکیں گے، سابق کرکٹرز کی اتنی عزت نہیں ہوتی۔ البتہ میں اس بات سے متفق نہیں، کرکٹ سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہے۔

اگر آپ درست وقت پر ریٹائر نہ ہوں تو کامران اکمل جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،2010میں پاکستان کیلیے آخری ٹیسٹ اور2017میں محدود اوورز کے میچز کھیلنے پر بھی انھیں لگتا تھا کہ قومی ٹیم میں واپسی ممکن ہے، کیا ان کے لیے یہ زیادہ اچھا نہ ہوتا کہ جب پی ایس ایل میں پرفارم کر رہے تھے تو پہلے ہی اعلان کر دیتے کہ ’’یہ میرا آخری ایونٹ ہے میں اس کے بعد ریٹائر ہو جاؤں گا‘‘ اپنے ہوم گراؤنڈ لاہور میں میچ کھیلتے، پی سی بی گراؤنڈ کا چکر بھی لگوا دیتا، شائقین داد دیتے، فرنچائز انعامات دیتی، پھر یہ تصاویر جب بھی اپنے ڈرائنگ روم میں دیکھتے تو فخر کا احساس ہوتا۔

اب تو زندگی بھر رنج رہے گا کہ کیریئر ناخوشگوار انداز میں ختم ہوا، یا تو آپ شاہد آفریدی ہوں جو 50 سال کے بھی ہو جائیں تومداح چاہیں گے کہ بس میدان میں نظر آئیں، ورنہ درست وقت پر کھیل سے رخصت ہوں، شعیب ملک اور محمد حفیظ کے پاس بھی اچھا موقع تھا، ٹیم ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پہنچی تو ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیتے، مجھے نہیں لگتا کہ پی سی بی اب انھیں دوبارہ گرین شرٹ پہن کر کھیلنے دے گا، البتہ یہ پاکستان ہے یہاں کچھ پتا نہیں ہوتا، یہاں تو مصباح الحق کو بھی کپتان بنا کر ٹیم میں واپس لا سکتے ہیں۔

خیر کامران اکمل کے ساتھ ایسا سلوک مناسب نہیں لگا، ظاہر ہے کیٹیگری نیچے ہونے سے ان کے معاوضے پر بھی بڑا فرق پڑے گا، جاوید آفریدی اچھے انسان ہیں،وہ کرکٹرز کا خیال رکھتے ہیں، انھیں چاہیے کہ کامران کو نائب کوچ یا کچھ اور بنا کر ٹیم کے ساتھ رکھیں اور اچھے انداز میں رخصتی کا موقع دیں۔

آخر میں کچھ پی سی بی کے نئے سی ای او فیصل حسنین کا ذکر کر لیتے ہیں،ایک اور ’’امپورٹیڈ‘‘ چیف ایگزیکٹیو آئے گا، فیصل نے ابتدائی تعلیم کراچی میں ہی حاصل کی تھی، بعد میں وہ بیرون ملک منتقل ہو گئے اور اب دہری شہریت کے حامل ہیں،وہ آئی سی سی اور زمبابوے کرکٹ کے ساتھ بھی منسلک رہ چکے،امید ہے ان کے آنے سے بورڈ کے معاملات بہتر اور رمیز راجہ پر سے کام کا بوجھ کم ہوگا،البتہ فیصل حسنین کو پی سی بی کے بعض ابن الوقت لوگوں سے بچ کر رہنا ہوگا جو پہلے وسیم خان سے قربت پر اترائے اترائے پھرتے تھے مگرپھر ان کی کشتی ڈوبتی دیکھ کر ٹائر لے کر سمندر میں کودے اور کنارے پر کھڑے ہو کر انھیں ہاتھ ہلانے لگے۔

کوئی آپ کو کراچی کی دوستی یا ماضی میں ساتھ کام کرنے کا کتنا بھی یاد دلائے اسے زیادہ لفٹ نہیں کرائے گا، آستینیں جھاڑتے ہوئے اپنے کام پر ہی توجہ دیتے رہے تو کامیاب رہیں گے ورنہ سیاست میں پڑے تو وسیم خان جیسا حال ہوگا، مجھے امید ہے فیصل کامیاب ثابت ہوں گے،ان کا تعلق فنانس سے ہے، اب چیئرمینز کو عدالت، نیب، ایف آئی اے سے ڈرا کر قانونی ایشوز میں ہی الجھائے رکھنے کا سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے، رمیز اچھا کام کر رہے ہیں، اپنی ٹیم بنانے کا سلسلہ انھوں نے شروع تو کر دیا، البتہ کامیابی تب ہی ملے گی جب مکمل آپریشن کلین اپ ہوگا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔