پاکستان کا دیوالیہ نکل گیا؟

سالار سلیمان  ہفتہ 18 دسمبر 2021
 کیا موجودہ عالمی معاشی نظام میں حقیقت میں پاکستان کا دیوالیہ نکل سکتا ہے؟ (فوٹو: فائل)

کیا موجودہ عالمی معاشی نظام میں حقیقت میں پاکستان کا دیوالیہ نکل سکتا ہے؟ (فوٹو: فائل)

سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے حال ہی میں ایک سیمینار میں کہا کہ تکنیکی طور پر پاکستان کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔

اس سیمینار میں موصوف نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا۔ جیسا کہ اسرائیل سے فضول میں سینگ پھنسانے کی ضرورت نہیں ہے۔ (ہیں جی، کب پھنسائے؟) اور یہ کہ سی پیک کا کردار محدود کیا جائے (تاکہ امریکا کےلیے خطے میں مناسب جگہ موجود رہے؟) لیکن اس تقریر کا اہم نکتہ پاکستان اور اس کا دیوالیہ نکلنا ہے۔

سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کسی ملک کا دیوالیہ کیا ہوتا ہے؟ اس کو سادہ الفاظ میں سمجھیں تو یہ ہے کہ کل قرض اتنا زیادہ ہوجائے کہ اُس کو ادا کرنے کی کوئی صورت بھی باقی نہ رہے اور کل قومی پیداوار کو دیکھتے ہوئے کسی بھی طرف سے مزید قرض ملنا بھی ناممکن ہوجائے تو ایسی صورت میں ملک خود کو دیوالیہ ڈیکلیئر کرتے ہیں، تاکہ قرضوں کی ادائیگی کی دیگر صورتوں پر غور کیا جاسکے۔

یہی پاکستان آج سے چند سال قبل ترقی کی راہ پر تھا اور یہ میں ہی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹ ہے۔ سابق حکومت میں ہم آئی ایم ایف کے جال سے بھی نکل چکے تھے اور ایسا پاکستان کی تاریخ میں دوسری مرتبہ ہوا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے جبڑوں سے آزاد ہوئے تھے۔ اسی لیے اب کی مرتبہ آئی ایم ایف نے قرض کے بدلے اسٹیٹ بینک میں اپنا بندہ چُن کر لگایا جو کہ مصر کی معیشت کا جنازہ پڑھا چکا ہے اور اب پاکستان کی معیشت کے درپے ہے۔

چند سال قبل پاکستان کا جی ڈی پی 5 سے 6 فیصد کی طرف جارہا تھا اور تب ہمیں یہ بکواس سنائی جاتی تھی کہ ملکی معیشت اگر اچھی نہیں ہے تو بری بھی نہیں ہے اور یہ سب اکانومی ہٹ مین ہیں، یہ چور ہیں، انہوں نے ملکی دولت چرا کر لندن میں پراپرٹیز بنائی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد پوری سیاسی انجینئرنگ کرکے موجودہ نظام کو لایا گیا اور اسی نظام کے بینفیشری رہے ہیں شبر زیدی، جو کہ جب چیئرمین ایف بی آر کی حیثیت سے لائے گئے تھے تو پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کے مجاہدین نے سوشل میڈیا پر ان کا ایک دیومالائی کردار دکھایا تھا اور ظاہر ہے کہ پھر امیدوں کا ایک کوہ ہمالیہ کھڑا ہوا تھا اور یوں محسوس کروایا گیا تھا کہ یہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ شخص ہے جو کہ عمران خان کے 8 ہزار ارب ٹیکس اکھٹا کرنے کے خواب کے بجائے 12 ہزار ارب کا ٹیکس اکٹھا کرکے دکھائے گا۔ اس کی تقرری پر ایف بی آر میں جب اندر سے مزاحمت سامنے آئی تو اُن کو خاموش کروایا گیا۔ وہاں کے افسر کہتے رہ گئے کہ جس کو آپ اہم ترین ادارے کا چیئرمین بنانے جارہے ہیں، اُس کے ساتھ تو مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ یہ ٹیکس بچانے کا ماہر ہے۔ یہ بڑے اداروں، کمپنیوں اور کارپوریشنز کو ایسے مشورے دے کر اپنی دکان چلاتا ہے۔ لیکن، ہم تو سب کچھ جانتے ہیں اور ہمارے فیصلوں سے جو بھی اختلاف کرے تو اُس کی ایسے کی تیسی۔ لہٰذا زیدی کو چیئرمین کی سیٹ پر بٹھا دیا گیا۔

اس کے بعد اس کی مکمل میڈیا پروفائلنگ کی گئی اور زیدی ایک ہیرو کے طور پر سامنے لائے گئے۔ موصوف خود بھی ایک درخت سے دوسرے درخت پر آئے دن چھلانگیں مارتے نظر آئے لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ اس کےلیے خود ہی نمبرز چیک کرلیجئے، ساری کہانی سمجھ میں آجائے گی۔

کام کیا خاک ہونا تھا، الٹا سسٹم کا بیڑہ غرق ہوا اور پھر یہ موصوف اپنے باس اکانومی ہٹ مین عبدالحفیظ شیخ سے دوسری مدت کےلیے چھٹیاں لے کر طبعیت ناسازی کے کور میں فرار ہوگئے۔ آج وہی شبر زیدی ایک سیمینار میں منہ اُٹھا کر کہتا ہے کہ پاکستان کا تکنیکی طور پر دیوالیہ نکل چکا ہے۔ ذرا منافقت کی معراج دیکھیں کہ پہلے سسٹم کا حصہ بنتے ہیں، اس کی تمام مراعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور جب کام نہیں کرپاتے تو نکل جاتے ہیں اور کچھ عرصے بعد اپنا نیا راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں۔ مطلب، کوئی شرم ہوتی ہے یار، کوئی تھوڑی سی شرم ہوتی ہے۔

یہ اگرچہ سچ ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات انتہائی حد تک خراب ہوچکے ہیں، مہنگائی کی شرح تاریخ کی سب سے زیادہ ہے اور یہ مزید بڑھ بھی رہی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ قرضے ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اس حکومت نے تو خیر سے اخیر کردی ہے کہ اپنے 3 سال میں کوئی 20 کھرب روپے کے نئے قرضے لیے ہیں اور وہ بھی پرانے قرضے اتارنے کےلیے نہیں بلکہ معاملات حکومت چلانے کےلیے۔ اور دوسری جانب آئی ایم ایف کا ملازم ڈالر کو کسی مقام پر بریک لگنے نہیں دے رہا اور ایسی غیر یقینی کی صورتحال میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی رُکی ہوئی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کا ابھی دیوالیہ نہیں نکلا ہے۔ ابھی وقت ہے، ابھی چند قدم مزید ہیں۔ اس کے بعد دیوالیہ کی پہلی اسٹیج ہوگی۔

یہ نظام جس کو سب نے مل کر بنایا ہے، اس کے بگاڑ کی ذمے داری بھی سب پر عائد ہوتی ہے۔ کیا پاکستان کا دیوالیہ نکل سکتا ہے؟ بالکل، اس کے کوئی دو فیصدی ہی امکانات ہیں لیکن کیا موجودہ عالمی معاشی نظام میں پاکستان کا دیوالیہ نکل سکتا ہے؟ نہیں، کیونکہ پاکستان ایسے جغرافیہ پر واقع ہے کہ کوئی بھی عالمی طاقت پاکستان کا دیوالیہ افورڈ نہیں کرسکتی۔ پاکستان کو قرضوں کے جال میں جکڑا جاسکتا ہے۔ اس میں غربت، افلاس اور بھوک بڑھائی جاسکتی ہے لیکن اس میں خانہ جنگی یا دیوالیہ کی صورتحال کوئی بھی عالمی طاقت افورڈ نہیں کرسکتی اور اسی لیے ٹپنگ پوائنٹ سے پہلے ہی منہ موڑ دیا جاتا ہے۔

ماضی قریب میں یورپ کا ایک ملک اپنا دیوالیہ ڈیکلیئر کرنے جارہا تھا جس پر پوری پورپی یونین اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور عالمی مالیاتی اداروں نے 55 ارب ڈالر دے کر اُس کا دیوالیہ کا عمل رکوایا تھا۔ اسی طرح وینزویلا کی کرنسی اس وقت ٹکے کی نہیں رہ گئی ہے لیکن اس کا دیوالیہ بھی نہیں نکلا ہے۔ ایران کا دیوالیہ بھی نکلنے نہیں دیا جارہا ہے، جبکہ پاکستان ان سب سے زیادہ اہم ملک ہے اور دنیا کے نقشے پر زیادہ اہم جگہ پر ہے۔ یہ 22 کروڑ کا ملک ہے۔ یہ ایک پوری مارکیٹ ہے اور جس نے اپنے سر پر ایٹم بم کی ٹوکری بھی سجائی ہوئی ہے، اس کا ایسے ہی منہ اُٹھا کر دیوالیہ نہیں نکل سکتا۔ ابھی دنیا کو ہماری بہت ضرورت ہے۔

لیکن، یہاں پر شبر زیدی سے ایک سوال ہے کہ ابھی کچھ عرصہ قبل جب تم چیئرمین ایف بی آر تھے اور تمھارا کروفر ایسا تھا کہ فرعون بھی شرما جائے تو تب تم میڈیا میں کچھ اور کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ اس کے بعد تم سے کام نہیں ہوا تو تم نکل گئے اور پھر جب دوبارہ سسٹم کا حصہ بننا چاہا اور نہ بن سکے تو کس اعداد و شمار پر تم پاکستان کا دیوالیہ نکالنے کی بات کررہے ہو؟ بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ یہ شبر زیدی کی ذاتی خواہش ہے جس کا اظہار اِس نے سیمینار میں کیا ہے اور جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔