بنگلہ دیشی ریپڈ ایکشن بٹالین اور امریکا

وسعت اللہ خان  ہفتہ 18 دسمبر 2021

بنگلہ دیش کی آزادی کے جشنِ طلائی کے موقعے پر واشنگٹن نے ڈھاکا کو یہ تحفہ دیا کہ اسے نیم جمہوری ریاست کے خانے میں ڈال کر فروغ ِ جمہوریت سے متعلق نو اور دس دسمبر کو ہونے والی ایک سو گیارہ ممالک کی ورچوئل چوٹی کانفرنس میں اسے نہ صرف مدعو نہیں کیا بلکہ کانفرنس کے دوسرے دن امریکی حکومت نے بنگلہ دیش کی نیم فوجی ریپڈ ایکشن فورس ( راب ) پر دو ہزار نو سے ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگی کی وارداتوں میں ملوث ہونے کی فردِ جرم عائد کرتے ہوئے پابندی عائد کر دی۔

راب کے حاضر اور سابق سات سربراہوں پر بھی امریکا میں داخلے یا ان سے امریکی اداروں یا شہریوں کے کسی بھی طرح کے مالی روابط کو ممنوع قرار دے دیا۔ ان اہلکاروں میں راب کے ایک سابق سربراہ اور موجودہ پولیس چیف بے نظیر احمد بھی شامل ہیں۔

نیز امریکا نے بری فوج کے سابق سربراہ جنرل ( ریٹائرڈ ) عزیز احمد کو بھی ناپسندیدہ شخص قرار دے کر ان کا امریکی ویزہ منسوخ کر دیا ہے۔گذرے فروری میں قطری چینل الجزیرہ کی ایک تفتیشی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کس طرح بری فوج کے سربراہ عزیز احمد نے قتل کے الزام میں قید برادرِ خورد حارث احمد کو جیل سے بیرونِ ملک فرار کروایا تھا۔ جنرل عزیز پر کھلم کھلا اقربا پروری کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بنگلہ دیش کی نیم فوجی تنظیم راب کے ساتھ امریکی اداروں اور شہریوں کے روابط منقطع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ’’انسانی حقوق کی صورتِ حال ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی محور رہے گی ۔‘‘

واضح رہے کہ امریکا اس وقت بنگلہ دیش کا سب سے اہم تجارتی ساجھے دار ہے۔امریکا کے لیے بنگلہ دیش کی برآمدات کا حجم سات ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اس میں سے نوے فیصد برآمد سلے سلائے کپڑوں کی ہے۔بنگلہ دیش کی شرحِ ترقی گزشتہ دو عشروں سے سات اور آٹھ فیصد سالانہ ہے۔امریکا بنگلہ دیشی پولیس اور فوج کو تربیتی سہولتیں بھی فراہم کرتا رہا ہے۔گزشتہ برس تک افغانستان اور پاکستان سمیت ان تین ایشیائی ممالک میں بنگلہ دیش بھی شامل رہا ہے جنھیں سب سے زیادہ امریکی امداد ملتی رہی ہے۔

اس پس منظر میں ریپڈ ایکشن بٹالین ( راب ) اور اس کے موجودہ و سابقہ سربراہوں پر پابندیوں کا اعلان بتاتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی جمی کارٹر کی خارجہ پالیسی کی طرز پر جمہوری طرزِ عمل اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری پر استوار کی جا رہی ہے۔

یا پھر یہ پابندی بنگلہ دیش اور چین کی بڑھتی ہوئی اسٹرٹیجک اور اقتصادی قربت پر خفگی کی علامت ہے۔فی الحال بنگلہ دیش کے سہ طرفہ ہمسائے بھارت کو ایک بڑی اقتصادی منڈی ہونے اور چین سے سرحدی قربت کے سبب بدلتی امریکی پالیسی کے مدار سے باہر رکھا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ہیومن رائٹس واچ پچھلے دس برس میں انسانی حقوق کی پامالی اور جبری گمشدگیوں میں راب کے کردار پر چار رپورٹیں شایع کرچکی ہے،لیکن راب کے ڈپٹی چیف کے ایم آزاد کہتے ہیں کہ ’’ اگر قانون کے تحت مجرم قرار دیے گئے کسی شخص کو زیر کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو پھرملکی مفاد میں انسانی حقوق کی ایسی خلاف ورزیوں پر ہمیں کوئی پشیمانی نہیں۔ ‘‘

بنگلہ دیش میں کرپشن کے الزامات میں قید حزبِ اختلاف کی علیل رہنما بیگم خالدہ ضیا جب وزیرِ اعظم تھیں تو انھوں نے امن وامان کی بگڑتی صورت کو قابو میں لانے کے لیے دو ہزار چار میں وزارتِ داخلہ کے ماتحت ریپڈ ایکشن فورس قائم کی تھی۔

شروع شروع میں جب سیاہ وردی ، سیاہ کنٹوپ اور کالے چشمے والی اس فورس نے غنڈوں بدمعاشوں پر ہاتھ ڈالا تو عام لوگوں نے خاصی پذیرائی کی۔اس کی پندرہ بٹالینیں بارہ ہزار چاق و چوبند کمانڈوز پر مشتمل ہیں جنھیں تینوں مسلح افواج اور پولیس سے منتخب کیا جاتا ہے۔اگرچہ فورس کا سربراہ سینئر پولیس افسر ہوتا ہے مگر بالائی قیادت میں زیادہ تر فوجی اہل کار ہیں۔

کسی بھی ادارے کے شروع شروع کے دنوں میں اچھی کارکردگی کے بعد رفتہ رفتہ وہی ہوتا ہے جو ہوتا آیا ہے۔جب اکتوبر دو ہزار سات میں خالدہ ضیا حکومت کا خاتمہ ہوا تب تک ریپڈ ایکشن فورس کی یہ شہرت ہو چکی تھی کہ اسے مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق خالدہ ضیا دور میں راب نے سیکڑوں لوگوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور لگ بھگ ساڑھے تین سو لوگوں کی ماورائے  عدالت ہلاکت بھی ہوئی۔

خالدہ ضیا کے وزیرِ قانون مودود احمد نے بٹالین کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’ تکنیکی اعتبار سے آپ ان ہلاکتوں کو ماورائے عدالت کہہ سکتے ہیں مگر میں انھیں قانون سے لڑنے والوں کی اموات کہنا پسند کروں گا۔ بہرحال آپ اسے جو بھی نام دیں مگر عام آدمی خوش ہے۔‘‘

دو ہزار نو میں عوامی لیگ اس وعدے پر برسرِاقتدار آئی کہ وہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کے رجحان کو لگام دے گی البتہ ریپڈ ایکشن بٹالین قائم رہے گی۔وزیرِ خارجہ مونی احمد نے کہا کہ ان کی حکومت ماورائے عدالت قتل کے ذمے داروں کو کٹہرے میں لائے گی۔مگر عوامی لیگ کے اقتدار کے پہلے دو برس میں لگ بھگ دو سو افراد بٹالین کے ہاتھوں مارے گئے۔ سیاسی مخالفین کی جبری گمشدگی کے واقعات بھی بڑھنے لگے۔دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے پہلے اٹھارہ حکومت مخالف کارکن غائب ہو گئے اور اس کا الزام راب پر لگا۔

انتخابات یکطرفہ جیتنے کے کچھ عرصے بعد سات مزید سیاسی کارکن غائب ہو گئے۔ان میں سے ایک کا تعلق حکمران عوامی لیگ سے تھا۔اس کی لاش تین دن بعد ایک دریا کے کنارے ملی۔ہا ہا کار کے سبب حکومت نے تحقیقات کروائیں۔ پہلی اور اب تک شاید آخری بار راب کے پچیس افسروں پر جبری گمشدگی اور قتل کی فردِ جرم عائد کر کے مختلف معیاد کی سزائیں سنائی گئیں۔مگر اس اقدام سے بھی راب کی پرتشدد کارروائیوں پر خاص فرق نہیں پڑا۔

دو ہزار انیس کے اختتام تک تین برس کے اندر ماورائے عدالت قتل کے دو سو تہتر واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ان میں ایک نجی کمپنی کے تین اہلکار بھی شامل تھے جس کے مالک کا وزیرِ اعظم کے سلامتی مشیر میجرجنرل طارق صدیقی سے کوئی کاروباری جھگڑا چل رہا تھا۔ راب کئی سرکار مخالف بلاگرز اور ڈجیٹل میڈیا سے وابستہ کارکنوں کے قتل ، اغوا یا ہراسگی میں بھی ملوث رہی۔

گزشتہ برس بنگلہ دیش میں تانا شاہی اور حکومت اور جرائم پیشہ گروہوں میں گٹھ جوڑ کی بابت جو دستاویزی رپورٹ الجزیرہ نے نشر کی۔اس میں چیف آف آرمی اسٹاف عزیز احمد کا مفرور بھائی حارث احمد کہہ رہا ہے کہ ’’بے نظیر احمد ( راب کا سربراہ ) اور راب ہمارے لیے کام کرتے ہیں ۔‘‘دو ہزار بیس میں بے نظیر احمد کو ان کی ’’ خدمات’’ کے اعتراف میں ترقی دے کر قومی پولیس چیف بنا دیا گیا۔

اس وقت بنگلہ دیش چونکہ جنوبی ایشیا میں تیز رفتار اقتصادی ترقی کا مثالیہ بنا ہوا ہے لہٰذا باقی دنیا کو وہاں پر جاری سخت گیر نظام کو برقرار رکھنے والے اداروں کی آہنی گرفت سے کوئی خاص مسئلہ نہیں، لیکن اگر ملک غریب بھی ہو اور تانا شاہی کی گرفت میں بھی ہو تو پھر انسانی حقوق کی پامالی پر شور بڑھ جاتا ہے۔فی الحال بنگلہ دیش اچھے دنوں سے گذر رہا ہے اور چین اور امریکا جال کاندھے پر ڈالے آس پاس ٹہل رہے ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔