فکر انگیز دو تاریخی ناول اور افسانے   (پہلا حصہ)

نسیم انجم  اتوار 19 دسمبر 2021
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

گزشتہ دو ہفتوں سے ناولز کے مطالعے نے مصروف رکھا، ایک کا عنوان ’’خواب کہانی‘‘ جس کی مصنفہ ڈاکٹر فردوس قاضی ہیں اور دوسرا ناول ’’ کتنی برساتوں کے بعد ‘‘ پروفیسر شہناز پروین کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے۔

ایک افسانوں کا مجموعہ ’’ستمبر کا سمندر‘‘ میری دسترس میں ہے، افسانہ نگار شاکر انور صاحب ہیں۔ افسانوں پر بات بعد میں کریں گے ، پہلے ناولز کی انفرادیت اور اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کروں گی۔ناولز کی خصوصیت یہ ہے کہ دونوں ناول اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاکستان کا وجود میں آنا ہی بڑا کٹھن اور جان لیوا مرحلہ تھا، مال و متاع، حویلی جائیدادیں، زمینیں اور خون کے رشتوں کو الوداع کہہ کر آزادی کے ترانے گائے گئے لیکن دشمنوں کی سازش اور ہمارے حکمرانوں کی کوتاہی نے پاکستان کو دولخت کردیا، کتنے جگر گوشوں کا خون ہوا ، بے دردی سے مقتل سجایا گیا وہ بھی اپنوں کے ہاتھ ، شہناز پروین نے اپنے ناول میں ایسے ہی حقائق کی ترجمانی نہایت دردمندی کے ساتھ کی ہے کہ وہ خود بھی خونی واقعات کی چشم دید گواہ تھیں۔

’’خواب کہانی‘‘ ایک روایتی ناول ہرگز نہیں ہے، ڈاکٹر فردوس قاضی صاحبہ نے اس موضوع کا انتخاب کیا ہے جس پرکم ہی کم لکھا گیا ہے ، ان کی دور بین نگاہوں نے پاکستان بننے کے بعد ملک اور قوم کے دشمنوں کے رویے کو دیکھا ، جنھوں نے محض دولت کمانے کے لیے حصول علم کے دروازوں پر قفل لگانے کے لیے جعلسازی کی اور مستحکم پاکستان کے لیے رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے رہے۔

ڈاکٹر فردوس قاضی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور قلم کار ہیں انھوں نے ساری زندگی تعلیمی اور ادبی امور میں گزاری ہے۔ ان کی آٹھ کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں جن میں ناول ، افسانے، تحقیق و تنقید شامل ہے۔ ڈاکٹر فردوس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی کتابیں ایم اے کے کورس میں شامل کی گئی ہیں۔ وہ آج بھی علم و ادب کے حوالے سے کام کر رہی ہیں، ’’خواب کہانی‘‘ چند ماہ قبل شایع ہوا، ان کا یہ ناول ’’انشا‘‘ مطبوعات میں شامل ہے، صفدر علی خان خود بھی بہت اچھے شاعر اور مدیر ’’ انشا ‘‘ ہیں۔

اسی لیے ناول کا سرورق اور کاغذ قابل تعریف ہے، ضخامت 656 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔ فردوس قاضی صاحبہ نے ان حالات کی طرف توجہ دلائی ہے جو قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئے۔ مسلمانوں نے اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں تاکہ جس مقصد کے لیے پاکستان وجود میں آیا تھا اسی مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر شخص اپنی اپنی ذمے داریاں پوری کرے لیکن ہوا اس کے برعکس، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ درپیش تھا۔

رحمن صاحب کے گھرانے اور اس خاندان سے جڑے لوگ بے شمار مسائل کا شکار تھے، خود رحمن صاحب کو ملازمت سے اسی لیے برطرف کیا گیا کہ وہ راشی کا کردار ادا نہیں کرسکے۔ بس انھوں نے تو آزاد مملکت کا خواب دیکھا تھا ’’خواب کہانی‘‘ کے صفحہ نمبر پندرہ سے چند سطور۔ پاکستان بننے کے بعد انھوں نے اپنے محبوب قائد اعظم کو ڈھاکا کے اجلاس میں پہلی بار دیکھا تو ان کے دل میں خوشیوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ بڑی مشکل سے انھوں نے اس خوشی کو برداشت کیا تھا۔

یہ خوشی ایسی تھی کہ جس کے باعث زندگی کے جبر میں معنویت کے رنگ بکھر گئے تھے۔ وہ اس کے لیے محنت کرنا چاہتے تھے اور اسے پوری دنیا کے نقشے پر مثالی مملکت بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ رحمن صاحب پانچ بچوں کے باپ ہیں تین بیٹیاں رباب، نغمی اور ستارہ اور دو بیٹے حسن اور اختر۔

ان بچوں کی ماں کا کرب اپنی جگہ لیکن وہ زیادہ تر وقت محلے کی عورتوں کے ساتھ گزارتی ہیں جوکہ ان کے گھر پر آکر ہنسی، مذاق، ادھر ادھر کے قصے بیان کرتیں، مصنفہ نے اپنے ناول میں سندھ کے مخصوص ماحول کی عکاسی بہت حقیقت پسندانہ انداز میں کی ہے، رحمن صاحب کے دوست اور ہم جماعت بلاول علی سومرو نفیس شخصیت کے مالک ہونے کی وجہ انھوں نے رحمن صاحب کو رہنے کے لیے جگہ فراہم کی تھی ان کا بیٹا عادل ہے جو رحمن صاحب کے گھر میں ملنے آتا ہے اور پھر وہ ذہنی طور پر وہیں کا ہو جاتا ہے، اس کی وجہ اسے رحمن صاحب کے گھر کا ماحول چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور مسائل اپنے ہی معلوم ہوتے ہیں۔

اس کی والدہ کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا، وہ ہاسٹل اور اپنی شاہانہ زندگی کو خیرباد کہہ کر حسن اور اختر کے کالج میں داخلہ لے لیتا ہے۔ اسی کالج میں پیر بخش جیسا تنگ نظر، متعصب، حب الوطنی اور تعلیم سے متنفر طالب علم اور اس کے ساتھی بھی محض دادا گیری دکھانے کے لیے ان طالب علموں سے جھگڑتے اور مارتے پیٹتے ہیں جو محب وطن ہیں۔ اعلیٰ اقدار اور تہذیب کے پیامبر ہیں یہ ملک ان کے پرکھوں نے بنایا ہے وہ اس بات پر نازاں ہیں اور اسے استحکام بخشنے کے لیے دن رات کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

عادل بھی ظلم و ناانصافی کے خلاف ہے۔ اس کی ذہنی ہم آہنگی رباب سے ہو جاتی ہے۔ رباب کے برعکس نغمی مزاج کے اعتبار سے شوخ و طرار ہے لیکن اس کا دل عادل کی محبت کا اسیر ہو جاتا ہے۔ رباب کو جب اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے، تب وہ حالات اور بہن کی خوشیوں کا خیال رکھتے ہوئے قربانی دینے کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ فیصلہ عادل کو جیتے جی مار دیتا ہے لیکن رباب کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے وہ نغمی کو اپنانے کا فیصلہ کرلیتا ہے جب کہ رباب اپنے وطن کے کچلے ہوئے طبقے کی حفاظت اور خوشحالی کے لیے کام کرنے کا عزم کرتی اور کامیاب ہوتی ہے۔

ناول کا انداز بیاں دلکش ہونے کے ساتھ ساتھ ان حالات کی بھی نشان دہی کرتا ہے جو منزل پانے کے بعد پیدا ہوئے۔ ناول کا ہر کردار منفی اور مثبت سوچ کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ فکر انگیز جملے قاری کے لیے غور و خوض کا باعث ہیں، ماحول سازی اور منظر نگاری میں حقیقت کے رنگ اس طرح بھرے ہیں کہ پڑھنے والا مصنفہ کی سوچ اور آگہی چراغوں کی طرح روشن نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر فردوس نے بڑے دکھ کے ساتھ مکالموں کے ذریعے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جس مقصد کے تحت پاکستان وجود میں آیا تھا افسوس کہ علامہ اقبال کا خواب، قائد اعظم اور ان کے رفقا کی کوششیں بار آور نہ ہو سکیں، مفاد پرستوں نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا۔

قربانیاں جن لوگوں نے دیں ان کی اولادیں نسل در نسل تعلیم اور ملازمت سے محروم ہیں اور جن کا پاکستان بنانے میں کوئی کردار نظر نہیں آتا وہ ہر طرح سے فیض یاب ہو رہے ہیں لیکن ’’خواب کہانی‘‘ کی رباب، عادل، علی اس قافلے میں ملک و قوم سے محبت کرنے والے بھی شامل ہوتے جا رہے ہیں جن کی منزل پاکستان کا استحکام اور ملت کی ترقی ہے۔پروفیسر شہناز پروین کو علم و ادب ورثے میں ملا۔ ان کا ادبی سفر پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔

وہ بچپن ہی سے کہانیاں لکھنے کی طرف مائل تھیں۔ شہناز پروین کا تعلق درس و تدریس سے رہا ہے۔ لیکچرر سے ابتدا کی اور پھر پرنسپل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئیں، کراچی انٹر بورڈ اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں سلیبس کمیٹی اور بورڈ آف اسٹڈیز کی ممبر بھی رہیں۔ تین افسانوی مجموعے شایع ہوچکے ہیں، ان کا ایم فل کا مقالہ بعنوان اقبال شناسی اور نگارِ پاکستان اشاعت کے مرحلے سے گزر چکا ہے۔ ان کا ناول ’’کتنی برساتوں کے بعد‘‘ حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔ مذکورہ ناول سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہے۔

272 صفحات کے ناول میں انھوں نے سانحہ بنگال کی تاریخ رقم کردی ہے اس لحاظ سے یہ تاریخی ناولوں کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔شہناز پروین صاحبہ نے پیش لفظ میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ’’یہ ناول چار نسلوں پر محیط ہے، جس کو میں نے نورالنہار (ونگ نانی یا فیری نانی) آمنہ (مکتی) عائشہ اور فاطمہ کے کرداروں کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس کا ایک حصہ تاریخی اور سوانحی نوعیت کا ہے دوسرا نام نہاد تاریخی، تیسرا آنکھوں دیکھا حال ہے اور چوتھا محبت بھری نئی دنیا کی آس، انسان کی تلاش، خواب اور خواہشات پر مشتمل ہے۔ ناول کا نام فیض احمد فیض کے اس شعر سے ماخوذ ہے:

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

فیض احمد فیض نے یہ نظم ڈھاکا سے واپسی پر 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں لکھی تھی۔ شہناز پروین کا ناول چار حصوں پر تقسیم ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔