منصف کو انصاف کون دے گا؟

تنویر قیصر شاہد  پير 20 دسمبر 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

رانجن گوگوئی بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیں ۔ وہ تین سال قبل 13ماہ تک چیف جسٹس آف انڈیا رہے ۔ انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ انڈین سپریم کورٹ کے46ویں چیف جسٹس بنے ۔ آجکل وہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا ( سینیٹ یاراجیہ سبھا) کے رکن ہیں ۔

رانجن گوگوئی کے کئی فیصلے متنازع بھی تھے اور تاریخ ساز بھی۔ مثال کے طور پر رانجن گوگوئی بھارتی سپریم کورٹ کے اُس بنچ کے سربراہ تھے جس بنچ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف اور بھارتی بنیاد پرست ہندو جماعتوں کے حق میں سنایا ۔ شبہے اور شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ بھارتی آر ایس ایس اور مقتدر بی جے پی کے دباؤ اور تمنا کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس فیصلے نے بھارتی مسلمانوںکے دل توڑدیے۔فیصلے کے بعد اُتر پردیش میں ایستادہ صدیوں پرانی بابری مسجد کی جگہ ’’رام جنم بھومی‘‘ مندر کی تعمیر شروع کر دی گئی ۔ تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، نے ذوق و شوق سے حصہ لیا۔ یہ مندر آجکل تیزی کے ساتھ جدید تعمیر کے مراحل طے کررہا ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ بحثیتِ چیف جسٹس آف انڈیا رانجن گوگوئی کا دوسرا متنازع اقدام رافیل نامی جنگی طیاروں کے حق میں دیا جانے والا فیصلہ تھا ۔ اس فیصلے سے بھی بھارتی مقتدر سیاسی جماعت ، بی جے پی ، اور بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، کو بے پناہ سیاسی فائدے حاصل ہُوئے ۔ بھارت میں ہر خاص و عام شہری کے لبوں پر یہ بات جاری ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے رانجن گوگوئی نے یہ فیصلے سنائے تھے ۔ ان دونوں فیصلوں کی اساس پر ہی بھارتی اپوزیشن رانجن گوگوئی پر یہ الزام عائد کرتی ہے کہ بی جے پی کے حق میں فیصلے سنائے جانے کے صلے ہی میں رانجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کا رکن بنایا گیا ۔

اب اس الزام کی کچھ پرتیں کھلنا شروع ہُوئی ہیں ۔ابھی حال ہی میں مذکورہ رانجن گوگوئی صاحب کی یادداشتوں پر مشتمل ایک خود نوشت سوانح حیات منصہ شہود پر آئی ہے ۔ اِسے Justicr For the Judge کا عنوان دیا گیا ہے ۔ رانجن گوگوئی کی اس کتاب میں ایک فوٹو شایع کی گئی ہے جس میں رانجن گوگوئی اپنے ساتھی ججوں کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ہیں اور فوٹو کے نیچے کیپشن یوں ہے : ’’ایودھیا کیس( بابری مسجد) فیصلے کا جشن مناتے ہُوئے ۔‘‘یہ تصویر اور اس کی کیپشن بھارتی مسلمانوں کے مذہبی جذبات و احساسات کو مجروح کر گئی ہے ۔

بھارتی مسلمانوں نے بجا طور پر اس پر غصے کا اظہار کیا ہے ۔ بھارتی مسلمان سمجھتے ہیں کہ کتاب میں خاص طور پر اس تصویر کا کیپشن کے ساتھ شایع کرنا دراصل بھارتی مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے ۔ بات تو درست لگتی ہے ۔ بابری مسجد کا فیصلہ متنازع بھی ہے اور حساس بھی ۔ تو کیا اس فوٹو کو شاملِ کتاب کرنے سے احتراز اور پرہیز نہیںکیا جا سکتا تھا ؟

رانجن گوگوئی مگر یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اس فوٹو کی اشاعت سے بھارتی مسلمانوں کے جذبات مجروح ہُوئے ہیں ۔ چند دن پہلے جب ایک بھارتی نجی ٹی وی نے رانجن گوگوئی سے اس بابت سوال پوچھا تو انھوں نے کہا:’’یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ فوٹو ایودھیا کیس کے فیصلے کا جشن منانے کے لیے بالکل نہیں بنائی گئی تھی ۔ ‘‘ پھر وہ اس کی وضاحت کرتے ہُوئے کہتے ہیں:’’یہ فیصلہ مَیں نے اکیلے نہیں کیا تھا۔ یہ بنچ کا فیصلہ تھا۔ میرے ساتھی ججوں نے اس پر بڑی محنت اور غیر جانبداری سے فیصلہ سنایا تھا۔

ساتھی ججوں نے مسلسل چار ماہ تک کام کیا تھا۔ یہ ایک اعصاب شکن فریضہ تھا۔ ہم تھکے ہُوئے تھے ؛ چنانچہ مَیں ہی ساتھی ججوں کو لے کر دلّی کے ایک بڑے ہوٹل (تاج مان سنگھ) گیا تھا ۔ وہاں ہم نے چائنیز کھانے کھائے اور اعلیٰ شراب بھی پی ۔ اس میں جشن اور اعتراض والی بات کیا ہے ؟ کیا جج کو زندگی سے لطف اندوز ہونے اور ساتھیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کھانا کھانے کا حق نہیں ہے ؟۔‘‘اور اس کے ساتھ ہی رانجن گوگوئی یہ بھی لکھتے ہیں:’’ کیا بھارتی جج آسمان سے ٹپکی ہُوئی کوئی مخلوق ہیں؟ ہمارے بارے میں فیصلہ کرتے وقت انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ ہم نے کوئی ممنوعہ اقدام تو نہیں کیا تھا۔‘‘ رانجن گوگوئی کا اپنی کتاب کی بنیاد پر ایک معروف بھارتی اینکر پرسن سے ٹی وی تصادم بھی ہُوا ہے ۔اس میں موصوف یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ مَیں نے زیادہ تر فیصلے برادر ججوں کے ساتھ مل کر کیے ہیں، اس لیے مجھ اکیلے کو متہم نہ کیا جائے اور یہ کہ جج بھی غلطی کر سکتا ہے ۔

رانجن گوگوئی صاحب کی یہ خود نوشت ایک دلچسپ کتاب ہے ۔ اس میں ہمارے لیے بھی کئی اسباق ہیں ۔ مصنف نے جرأت و مردانگی کے ساتھ اپنے سوانح حیات قلمبند کیے ہیں ۔ کئی واقعات بھارتی عدلیہ میں فروکش عدالتی شخصیات کے نفسیاتی، مالی اور سماجی رویوں کے عکاس ہیں ۔ مثال کے طور پر رانجن گوگوئی ایک بار ایک ایسے مقدمے کی بھی سماعت کررہے تھے جس کے ایک فریق وہ خود تھے ۔ اُن کی ماتحت ایک خاتون نے اُن پر الزام عائد کر دیاتھا کہ انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے ۔

رانجن گوگوئی صاف گوئی سے کہتے ہیں: ’’ مَیں نے اپنی اس کتاب میں بھی صاف لکھ دیا ہے کہ اصولی طور پر مجھے اس کیس کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔‘‘ اور ساتھ ہی کہتے ہیں:’’ اس کیس کا اہم پہلو یہ ہے کہ دورانِ سماعت مَیں نے عدالتی رپورٹرز سے خاص طور پر کہا تھا کہ رپورٹنگ کرتے ہُوئے خبر کو اسکینڈل بنانے سے گریز کیا جائے ۔ جج بھی تو آخر انسان ہی ہوتا ہے۔ کورٹ کی ساکھ کو بہرحال گزند نہیں پہنچنا چاہیے۔‘‘ کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رانجن گوگوئی کی یہ گزارش کورٹ رپورٹرز نے مانی نہیں ۔

سابق چیف جسٹس آف انڈیا ، رانجن گوگوئی ، نے خود ساختہ کئی دعوؤں کے باوصف یہ بات تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے کہ انھیں راجیہ سبھا کا رکن دراصل اس لیے ( بطور رشوت) بنایا گیا تھا کیونکہ انھوں نے مقتدر اور طاقتور سیاسی جماعت ( بی جے پی) کے حق میں دو اہم ترین فیصلے ( رافیل طیاروں اور رام جنم مندر بھومی) سنائے تھے ۔

لکھتے ہیں:’’ جونہی مجھے راجیہ سبھا کا رکن منتخب ہونے کی پیشکش ہُوئی ، مَیں نے اسے قبول کرنے میں ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں کی ۔ مَیں مگر اِس الزام کا انکار کرتا ہُوں کہ مجھے یہ رکنیت اس لیے دی گئی کیونکہ مَیں نے رام جنم بھومی مندر اور رافیل طیاروں کے فیصلے کسی خاص پارٹی کے حق میں سنائے تھے ۔

یہ تو اتفاق ہے کہ ان فیصلوں سے متعلقہ افراد یا گروہوں کو فائدہ پہنچا۔‘‘ ساتھ ہی، شاید ضمیر کی خلش مٹاتے ہُوئے، کہتے ہیں:’’ مَیں نے راجیہ سبھا کی رکنیت اس لیے قبول کی کیونکہ ایسا کرکے دراصل مَیں اپنے علاقے، آسام ریاست، اور عدلیہ کو درپیش گمبھیر مسائل حل کرنا چاہتا تھا۔‘‘ پارلیمنٹ کا رکن بن کر رانجن گوگوئی نے کوئی خاص کارنامہ بھی انجام نہیں دیا ہے ۔ ایک بھارتی اخبار نے اُن کی پارلیمانی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہُوئے لکھا ہے کہ رانجن گوگوئی صاحب جب سے راجیہ سبھا کے رکن بنے ہیں ، انھوں نے بمشکل دس فیصد سے بھی کم مرتبہ پارلیمنٹ میں حاضری لگوائی ہے ، راجیہ سبھا سے ملنے والی تنخواہ البتہ باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔