خیبر پختون خوا میں گائے کی نسلیں

نوید جان  اتوار 26 دسمبر 2021
فوٹوفائل

فوٹوفائل

’’اس نے جانور پیدا کئے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی اورطرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔ ان میں تمہارے لیے جمال ہے جب کہ صبح تم انہیں چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جب کہ شام انہیں واپس لاتے ہو۔ اورتمہارے لیے بوجھ ڈھوکرایسے ایسے مقامات تک لے جاتے ہیں جہاں تم سخت جانفشانی کے بغیرنہیں پہنچ سکتے۔

حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑاہی شفیق اور مہربان ہے۔ اس نے گھوڑے اورخچراورگدھے پیداکئے تاکہ تم ان پر سوارہو اوروہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں۔ وہ اور بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کے لیے) پیداکرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے۔‘‘

(سورۃ النحل، آیات پانچ تا آٹھ۔ ترجمہ: تفہیم القرآن از سید ابو الاعلی مودودی)
مندرجہ بالاقرآنی آیات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جانور انسانی زندگی میں کس قدر اہمیت رکھتے ہیں اور یہ جانورانسانی فائدے کے لیے کس قدرکام آتے ہیں۔ درحقیقت شعبہ لائیو سٹاک زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

ملکی ترقی میں اس کانمایاں کردارہے، زرعی پیداوارمیں اس کاحصہ55.1 فی صد، جی ڈی پی میں11.5فی صد جب کہ قومی زرمبادلہ میں اس کا حصہ 10فی صد ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق دیہی آبادی کے تقریباً چارکروڑ افرادکا انحصار لائیوسٹاک کے شعبہ پر ہے۔ جانوروں سے ہمیں اچھے معیارکے حیوانی لحمیات، دودھ،گوشت،کھالیں اور اون وغیرہ حاصل ہوتی ہے۔

مال برداری اور دوسری زرعی سرگرمیوں کے علاوہ جانوروں کا گوبر زمین کی زرخیزی اور پیداوار بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں جانوروں کی تعداد 15کروڑ کے قریب ہے۔ دودھ کی پیداوارکے لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے چوتھے بڑے ملک کے طورپرکیا جاتا ہے جب کہ دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد پانچ کروڑ سے زائد ہے جن سے 55 بلین لیٹر سالانہ دودھ کی پیداوار لی جاتی ہے۔

دودھ کی بہترین پیداوار دینے والے ممالک میں پہلے نمبر پر بھارت، دوسرے چین اورتیسرے پرامریکہ ہے۔ پاکستان میں جن جانوروں سے دودھ حاصل کیاجاتا ہے ان میں گائیں، بھینسیں، بھیڑیں، بکریاں اوراونٹ شامل ہیں۔ پاکستان میں دودھ دینے والے جانوروں کی نہ صرف ایک بڑی تعداد موجود ہے بلکہ ان کی پرورش اورخوراک کے لیے بڑی بڑی چراہگاہیں بھی موجود ہیں جہاں پر موجودہ تعداد سے کئی گنا زائد جانور پالے جا سکتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں میں منتقلی کے رجحان اورفی کس آمدنی میں اضافہ کی وجہ سے لائیوسٹاک مصنوعات کی مانگ میںمسلسل اضافہ ہورہاہے۔ چنانچہ لائیوسٹاک کے شعبے کوترقی دے کرنہ صرف لائیوسٹاک مصنوعات کی طلب پوری ہوسکتی ہے اورمعیشت کومستحکم بنایاجاسکتا ہے بلکہ غربت اور بیروزگاری کا بھی خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختون خوا میں مویشوں کی مخصوص نسلیں جوعلاقائی تقسیم کے لحاظ سے ان علاقوں کے موسمی حالات میں بخوبی نشونما پانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، ان میں گائیوں کا نمبر پہلے آتا ہے۔ خیبرپختون خوا میں پالی جانے والی گائیوں کی نسلوں اور جن علاقائی میں پائی جاتی ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

اچئی گائے
اچئی گائے خیبرپختون خوا کے شمال مغربی پہاڑی علاقوں کے اضلاع سوات، دیرپائیں، دیربالا، چترال، ملاکنڈ، باجوڑ، مہمند اور ان علاقوں سے ملحقہ شمال مشرقی افغانستان کے علاقے کنڑ اور نورستان میں پالی جاتی ہیں، اچئی گائے گھروں میں پالی جاتی ہیں اورخانہ بدوش نظام میں بھی پالی جاتی ہیں۔ خانہ بدوش لوگ ان گائیوں کوگرمی کے موسم میں سوات اوردیر کے بالائی چراگاہوں پر لے جاتے ہیں جب کہ سردیوں میں خیبرپختون خواکے میدانی اضلاع مردان، چارسدہ، نوشہرہ، پشاور، زیریں ملاکنڈ اورصوابی میں لے آتے ہیں۔

اچئی گائے پالنے کا بنیادی مقصدگھریلو استعمال کے لیے دودھ حاصل کرنا ہے جب کہ بیل کوکھیتی باڑی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پہاڑی علاقوں کی ڈھلوان اورتنگ کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے اچئی بیل نہایت موزوں ہیں۔ اچئی گائے پگڈنڈیوں، دریاکے کناروں اور پہاڑوں پرآسانی سے چرائی جاسکتی ہیں۔

اچئی گائے کی رنگت سرخ ہوتی ہے جس پرسفید دھبے ہوتے ہیں اوربعض کی رنگت مکمل طور پرسرخ ہوتی ہے۔ اول ذکر رنگ کے جانور عموماً زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں، سفید دھبے عموماً پیشانی، پیٹ کے اطراف، ٹانگوں اوردم کے گچھے پر ہوتے ہیں۔ اسی طرح اچئی گائے کے سینگ عموماً ہلکے بھورے اور نوک سے سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں جب کہ بعض گائیوں میںگہرے بھورے اورنوک سے سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں۔

بعض جانوروں میں مکمل طور پر سیاہ رنگ کے سینگ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ دوسری نسل کی گائیوں کی نسبت اچئی کے سینگ چھوٹے اور باریک ہوتے ہیں۔ سینگ پیشانی کے انتہائی اطراف سے نکل کراندرکی طرف مڑے ہوئے ہوتے ہیں، بیل کے سینگ گائے کی نسبت موٹے اور بڑی جسامت کے ہوتے ہیں جب کہ کان گائیوں میں بیلوں کی نسبت بڑے ہوتے ہیں۔

اچئی گائے کی پلکیں عموماً جسم کے رنگ کی طرح سرخ رنگ کی ہوتی ہیں۔ اچئی گائے کی تھوتھنی عموماً ہلکے بھورے رنگ کی ہوتی ہے جس پر بعض اوقات چھوٹے چھوٹے سیاہ داغ بھی ہوتے ہیں جب کہ بعض جانوروںکی تھوتھنی مکمل طورپرسیاہ رنگ کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اچئی گائے کے کھر چھوٹے اور بیضوی شکل کے ہوتے ہی۔ عموماً ہلکے بھورے رنگ کے جب کہ بعض جانوروں میں سیاہ رنگ کے کھر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ جسمانی لحاظ سے اچئی گائے کی دم کافی لمبی ہوتی ہے اور دم کا گچھا عموماً ہلکے بھورے رنگ یا سفید رنگ کا ہوتا ہے، بعض جانوروں میں گچھے کارنگ سیاہ بھی ہوتا ہے۔ دوسری گائیوں کی نسبت اچئی گائے کا حوانہ چھوٹا ہوتا ہے، حوانے کے چاروں تھن ایک متوازن اندازمیں برابر فاصلے پر جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

جسامت میں یہ اچئی گائے پاکستان میں پائی جانے والی گائے کی تمام نسلوں سے چھوٹی ہوتی ہے۔ اچئی گائے کا وزن تقریباً ایک سو پچاس سے دوسوکلوگرام جب کہ بیل کاوزن دوسو سے دوسوپچاس کلوگرام تک ہوتاہے۔ پیدائش کے وقت بچے کا وزن تقریباً پندرہ کلوگرام جب کہ دودھ چھڑانے کے وقت تقریباًچالیس کلوگرام تک ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خانہ بدوش نظام میں پالی جانے والی اچئی گائے گھروں میں پالی جانے والی اچئی گائیوں سے جسامت میں بڑی ہوتی ہیں جب کہ اچئی بیل جسامت میں چھوٹے ہوتے ہیں۔ نر اچئی میں کوہان ہوتا ہے جب کہ مادہ اچئی کی کمر یورپین گائے کی طرح سیدھی ہوتی ہے۔

دودھ کی پیداوار کے حوالے سے بات کی جائے توابتدائی تحقیقات کے مطابق اچئی گائے روزانہ اوسطاً دو سے چار لیٹر دودھ دیتی ہے اوریہ پانچ لیٹر تک دودھ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جس میں چکنائی، روغنیات چارسے چھ فی صد ہوتی ہیں۔ اچئی گائے عموماً دو سو تریسٹھ دنوں تک دودھ دیتی ہے۔ فی کلوگرام جسمانی وزن کے لحاظ سے جرسی کراس گائے کے بعد سب سے زیادہ دودھ دینے والی گائے اچئی ہے۔

تولیدی صلاحیت کی بات جائے تو اچئی گائے تقریباً دو سے تین سال کی عمر میں بالغ ہو جاتی ہے۔ بچہ دینے کے بعد تقریباً تین ماہ سے لے کر چارماہ تک دوبارہ بہارمیں آ جاتی ہے بعض گائیں بچہ دینے کے چالیس دن کے اندربہار میں آجاتی ہیں۔

مقامی زبان میں ایسی گائے کو’’بلرگئی‘‘کہتے ہیں۔ دو بچوں کادرمیانی وقفہ تقریباً پندرہ سے لے کر سولہ ماہ تک ہوتا ہے۔ شرح حمل تقریباً سترفی صد ہے جوباقی نسل کی گائیوں کی نسبت بہت بہتر تصور کیا جاتا ہے۔ اچئی گائے مختلف بیماریوں کے خلاف بہتر قوت مدافعت رکھتی ہے مثلاً سوزش حوانہ، منہ کھر، چیچڑے اورچیچڑوں کے ذریعے پھیلنے والی بیماریاں، سوزش رحم، جیرگانہ نکلنا وغیرہ۔ انتہائی سخت جان ہونے کی وجہ سے اچئی نسل کی گائیں سخت موسم مثلاً گرمی اورسردی کوبرداشت کرسکتی ہیں،کم اورکمزور قسم کی خوراک پر بھی گزارہ کرلیتی ہیں۔

خانہ بدوشی نظام میں پالنے کے لیے انتہائی موزوں ہوتی ہیں کیوں کہ بالائی چراگاہوں کی طرف لمباسفر پیدل طے کر سکتی ہیں اورراستے کی بھوک اور پیاس بھی برداشت کرسکتی ہیں، چوں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی زیادہ ہونے، چارہ جات کی پیداوارمیں کمی اورخوراک کے معیارکی تنزلی اوربیماریوں کے پھیلائو کا قوی خطرہ موجود ہے اورایسی صورت حال میں ایسے مال مویشی جوچھوٹی جسامت کے ہوں ،کم اورغیرمعیاری خوراک پرگزارہ کرسکتے ہیں، بیماریوں کے خلاف بہتر قوت مدافعت رکھتے ہوں اورسخت موسمی حالات میں لمبا سفر طے کر سکتے ہوں، انتہائی مفید تصورکئے جاتے ہیں۔ اچئی گائے ان تمام خصوصیات پر پورا اترنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے لہذا ان علاقوں میں اچئی گائے پالنا ایک بہتر انتخاب ہوسکتا ہے۔

روایتی طور پر اچئی گائے کی نسل کشی کھیتی باڑی کے لیے استعمال کئے جانے والے اچئی بیل سے کی جاتی تھی مگر اب چوں کہ کھیتی باڑی زیادہ تر مشینی ذرائع سے کی جاتی ہے لہذا زمینداروں اور کسانوں کے لیے اچئی بیل رکھنا معاشی طور پر ناممکن ہے، اس وجہ سے اچئی گائے کی نسل کشی کسی بھی نسل کے غیرمعیاری بیلوں سے یا مصنوعی نسل کشی سے کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اچئی نسل معدوم ہو رہی ہے۔

اسی خطرے کے پیش نظر محکمہ لائیوسٹاک اور ڈیری ڈیویلپمنٹ (توسیع)، خیبرپختون خوا نے سرکاری کیٹل بریڈنگ اور ڈیری فارم، ہری چند ،چارسدہ میں بہترین اچئی بیل رکھے ہوئے ہیں اور ان سے مصنوعی نسل کشی کے لیے تخم حاصل کرکے ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع اورصوبہ بھر کے تمام سرکاری مصنوعی نسل کشی کے مراکزکوفراہم کئے جاتے ہیں۔

حکومت کے اس اقدام سے کسی حد تک اچئی نسل کی معدومیت کاخطرہ کم ہوا ہے۔ اچئی گائے کی اہمیت اور معدومیت کے خطرے کودیکھتے ہوئے محکمہ لائیوسٹاک خیبرپختون خوا کے توسیعی اور تحقیقی شعبے کے تحفظ، ترقی، ترویج اور تحقیق کے لیے ضلع دیرپائیں میں منڈہ اور ثمر باغ کے مقام پر بالترتیب اچئی کیٹل کنزرویشن اور ڈیویلپمنٹ فارم منڈہ دیرپائیں اورلائیوسٹاک ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ اسٹیشن، ثمرباغ ،دیرپائیں قائم کئے ہیں جن سے اس نسل کے بچائو اور پیداواری صلاحیتوں میں مزید بہتری کے قومی امکانات موجود ہیں۔

لوہانی نسل
لوہانی گائے بلوچستان کے ضلع لورالائی اور خیبرپختون خوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پالی جاتی ہے۔ لوہانی گائے چھوٹی جسامت اور چھوٹے قدکی ہوتی ہے، جسمانی رنگ سرخ جس میں چھوٹے چھوٹے سفید دھبے ہوتے ہیں۔ سینگ چھوٹے اور موٹے ہوتے ہیں، لوہانی گائے کے کان چھوٹے،گردن چھوٹی اورکوہان واضح ہوتا ہے، جھالر، بینگا درمیانہ ،دم کاگچھا سیاہ، حوانہ چھوٹا اورجسم کے ساتھ لگاہوا ہوتا ہے، دودھ کی پیداوارکم ہوتی ہے۔ بالغ نرکا وزن دو سو سے ساڑھے تین سوکلوگرام تک ہوتاہے۔ لوہانی گائے سخت جان اور مضبوط قدموں والی ہوتی ہے، نر جانور پہاڑی اورڈھلوانی علاقوں میں ہلکے کاموں کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔

روجھان نسل
روجھان نسل کی گائے پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان اورخیبرپختون خواکے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں میں پالی جاتی ہیں۔ روجھان گائے چھوٹے قدکی ہوتی ہے۔ جسم کا رنگ سرخ اور اس پرسفید دھبے ہوتے ہیں، ان کی چمڑی سخت،کان چھوٹے اورچوکنا، سینگ چھوٹے اورنوکیلے،گردن چھوٹی،کوہان بڑا اور جھالر۔بینگا پھیلاہوا ہوتاہے، ان کی دم پتلی اورعموماًگچھاسفید رنگ کاہوتا ہے۔ حوانہ چھوٹا اورسکڑا ہوا ہوتاہے۔ دودھ کی پیداوار بہت کم ہوتی ہے، بالغ نرکا وزن 300 کلوگرام سے 350 کلوگرام تک ہوتا ہے اوربالغ مادہ کا وزن 230 کلوگرام سے 280 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ نر جانور پہاڑی اور نیم پہاڑی علاقوں میں مال برداری کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔

گبرالی نسل
گبرالی نسل کی گائے ضلع سوات میں کالام تحصیل میں پائی جاتی ہے، اس کے علاوہ چترال بالااورچترال پائیں کے مختلف علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔1996 ء کی مال شماری میں گبرالی گائے کی آبادی اندازاً 30 ہزارتھی اور2006 ء کی مال شماری میں گبرالی گائے کی کل آبادی دولاکھ سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے،گبرالی گائے چھوٹی نسل کی گائے ہے۔

گائے کی مخلوط نسلیں
محکمہ لائیوسٹاک اورڈیری ڈیویلپمنٹ (توسیع) خیبرپختون خوا دیسی اور کم پیداوار دینے والی گائیوں کی نسلوں کی پیداواری صلاحیت میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصدکے لیے بہترین پیداواری صلاحیت کی حامل غیرملکی گائیوں کی نسلیں درآمدکرکے پاکستان کی کچھ نسلوں کے ساتھ نسل کشی کے ذریعے مخلوط نسلیں تیارکی گئی ہیں۔ ان مخلوط نسل کی گائیوں کی پیداواری صلاحیت مقامی نسل کی گائیوں سے بہتر ہے۔

سرکاری کیٹل بریڈنگ اور ڈیری فارم ہری چند چارسدہ میں جرسی بیل کو اچئی گائے کے ساتھ، ہولسٹین فریزین بیل کو ساہیوال گائے کے ساتھ اورساہیوال بیل کوہولسٹین فریزین گائے کے ساتھ نسل کشی کے ذریعے مخلوط نسلیں تیارکی گئی ہیں۔ محکمہ لائیوسٹاک اورڈیری ڈیویلپمنٹ (ریسرچ)خیبرپختون خوا نے لائیوسٹاک ریسرچ اسٹیشن سوڑی زئی پشاورمیں بھی مخلوط نسل کی گائے رکھی ہوئی ہیں۔

خیبرپختون خوا میں پالی جانے والی گائے کی نسلوں کے حوالے سے ڈائریکٹرجنرل محکمہ لائیوسٹاک اورڈیری ڈویلپمنٹ (توسیع) خیبرپختون خوا ڈاکٹر عالم خان کاکہنا ہے کہ محکمہ لائیوسٹاک اورڈیری ڈویلپمنٹ (توسیع) خیبرپختون خواکو دوہری ذمہ داریوں یعنی صحت اورتوسیع کی وجہ سے مشکلات درپیش تھیں لیکن ڈائریکٹوریٹ آف لائیوسٹاک پروڈکشن، توسیع اورکمیونی کیشن کی تشکیل کی وجہ سے یہ مسلہ کسی حد تک حل ہوگیاہے لیکن نسلوں کی شناخت ابھی بھی مویشی پال حضرات کے لیے ایک بوجھل کام ہے، اسی طرح کچھ علاقوں میں پالی جانے والے مختلف مویشیوں کی نسلوں کے بارے میں درست معلومات عملی طور پر لائیوسٹاک فارمنگ میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن نسلوں کی شناخت ابھی بھی کافی مشکل کام ہے۔

انہوں نے بتایاکہ پاکستان کی معاشی ترقی میں لائیو سٹاک کی بہت اہمیت ہے اور زراعت کے ساتھ یہ واحد شعبہ ہے جسے ترقی دے کرنوجوانوں کودیہاتوں میں ہی مقبول نفع بخش کاروبارفراہم کیاجاسکتا ہے اورشہروں کی طرف نقل مکانی کوکنٹرول کیاجاسکتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں اس شعبے کی اہمیت اوربھی مسلمہ ہے کیوںکہ یہاں کازیادہ تر حصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جومال مویشی پالنے کے لیے انتہائی موزوں تصورکیاجاتا ہے۔

ڈاکٹر عالم نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت لائیوسٹاک و ڈیری ڈویلپمنٹ کوجدید خطوط پراستوارکرنے کے لیے موثر اقدامات کر رہی ہے جن کے لیے تمام تربنیادی وسائل بروئے کارلائے جارہے ہیں۔محکمہ لائیوسٹاک ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ صوبے کے مختلف علاقوں میں زمینداروں اورمویشی پال لوگوں کواینیمل ہسبینڈری ایکسٹینشن کی تربیت دے رہاہے جودیہاتوں اورقبائلی علاقوں میں مویشی پال لوگوں کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے۔ ان کے بقول لائیو سٹاک کوترقی دے کرنہ صرف ہم غربت اورمہنگائی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اس سے زرعی خودکفالت اورزرمبادلہ کے ذرائع بھی پیداکئے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔