ہالی وڈ کی قلوپطرہ……الزبتھ ٹیلر

رانا نسیم  اتوار 26 دسمبر 2021
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

عصر حاضر میں سائنس و ٹیکنالوجی کی جدت کے باعث زندگی کے تمام شعبہ جات کی طرح شوبز میں بھی خاطر خواہ ترقی ہوئی، آج یہاں رعنائیوں اور رنگوں سے بھرپور اک جہاں آباد ہے۔

مشینری اور آلات سمیت جدید سہولیات کے دستیابی کے باعث آج پکچر ائزیشن ، میک زپ اور پیشکش کے شعبوں میں غیر معمولی آسانیاں پیدا ہو چکی ہیں، آج شوبز کی دنیا میں ایسی مثالیں عام ہے کہ ایک فلم یا گانے سے کچھ لوگ راتوں رات سپر سٹار بن گئے۔ لیکن اب سے 7 یا 8 دہائیوں قبل ایسا کچھ نہیں تھا، صرف دو رنگوں (بلیک اینڈ وائٹ) پر محیط شوبز کی دنیا کے باسیوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔

خدادا صلاحیتوں کے ساتھ محنت شاقہ کامیاب لوگوں کا وصف تھا، جس کی بدولت انہوں نے اپنا نام اور کام امر کر لیا۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام الزبتھ روزمنڈ ٹیلر کا ہے، جنہیں ہالی وڈ کی قلو پطرہ کہا جاتا ہے۔ عظیم اداکارہ کو جہان فانی سے کوچ کئے 10برس بیت چکے لیکن ان کا نام، چہرہ اور کام شائقین کے دلوں میں امر ہو چکا ہے۔ بنفشی آنکھوں والی حسینہ کو خوبصورتی، اداکاری، متعدد شادیوں اور سب سے بڑھ کر ایڈز کے حوالے سے سماجی خدمت پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

ایڈز سے متاثرہ افراد کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے لئے انہوں نے بے پناہ جدوجہد کی، یہ ان کا غیرمتزلزل عزم تھا، جس کے باعث ہزاروں افراد اس موذی مرض سے محفوظ رہے۔ الزبتھ نے ایڈز سے بچاؤ اور اس سے آگاہی پیدا کرنے کے لئے اپنا مال، جان اور وقت سب کچھ لگایا۔ الزبتھ کو ہالی وڈ گلیمر کا دوسرا نام بھی قرار دیا جاتا ہے، قدرتی خوبصورتی کے ساتھ بہترین اداکاری نے انہیں عالمی سطح پر متعارف کروایا۔

40ء کی دہائی کے اوائل میں فنی کیرئیر کا آغاز کرنے والی الزبتھ 50ء میں مقبول ترین اور 60ء میں مہنگی ترین اداکارہ بن گئیں۔ آسکر سمیت شوبز کی دنیا کے تمام بڑے ایوارڈز اپنے نام کرنے والی اداکارہ کو فنی اور سماجی خدمات پر سلطنت برطانیہ کی طرف سے سرکاری اعزاز (Most Excellent Order of the British Empire) سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

الزبتھ ٹیلر 27فروری 1932ء کو ہیمسٹیڈ گارڈن (برطانیہ) میں پیدا ہوئیں، ان کے والد فرانسس لین ٹیلر ایک آرٹ ڈیلر جبکہ والدہ سارہ سودرن ایک سٹیج اداکارہ تھیں۔ ٹیلر کو ابتدائی تعلیم کے لئے ہائی گیٹ کے ایک مونٹیسوری سکول بائرن ہاؤس میں داخل کروایا گیا، جہاں اس کی تعلیم و تربیت کرسچیئن سائنس، ان کی والدہ اور کازلیٹ کے مذہب کے مطابق ہوئی۔1939ء کے اوائل میں اس خاندان نے یورپ میں پرھتے ہوئے جنگ کے خطرات کے پیش نظر امریکہ ہجرت کا فیصلہ کیا۔ سارہ اور بچے سب سے پہلے اپریل 1939ء میں سمندری لائنر ایس ایس مین ہٹن پر سوار ہوئے، اور پاساڈینا، کیلیفورنیا میں ٹیلر کے نانا کے پاس چلے گئے۔

پیسیفک پیلیسیڈس میں مختصر قیام کے بعد، ٹیلر خاندان بیورلی ہلز میں آباد ہو گیا، جہاں دونوں بچوں کا داخلہ ہاؤتھورن سکول میں ہوا۔ کیلی فورنیا میں قیام کے دوران الزبتھ کی والدہ انہیں اکثر فلموں کے لئے آڈیشن دینے پر مجبور کرتیں حالاں کہ کبھی وہ اس چیز کے سخت خلاف تھیں لیکن پھر جنگ کے خوف کے باعث انہیں الزبتھ کے فلم انڈسٹری میں جانے سے امریکی معاشرے میں رچنے کا خیال آیا اور پھر انہوں نے اسی پر فوکس کر لیا۔

الزبتھ کی والدہ کا خیال تھا کہ ان کی خوبصورت بیٹی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس شعبہ میں اپنا نام پیدا کر سکے۔ اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے الزبتھ کے لئے فرانسیس ٹیلر نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کیا اور الزبتھ کے مختلف جگہوںپر آڈیشن کروائے گئے، جہاں فلم سازوں نے اسے پسندیدگی کی سند عطا کی تو الزبتھ کو مختلف آفرز آنے لگیں، جس کے بعد ان کی والدہ نے یونیورسل پیکچرز کی پیشکش قبول کر لی۔

مستقبل کی عظیم اداکارہ کی فلمی دنیا میں انٹری 1942ء میں ریلیز ہونے والی فلم There’s One Born Every Minute کے ایک محدود کردار سے ہوئی، تاہم بعدازاں انہیں مزید کوئی کردار نہ مل سکا تو یوں ان کا پہلا معاہدہ منسوخ ہو گیا۔ اس ضمن میں یونیورسل پیکچرز کے ڈائریکٹرکا کہنا تھا کہ ’’اس بچی میں کچھ نہیں ہے، اس کے آنکھیں بوڑھی لگتی ہیں، جس کے باعث اس کا چہرہ بھی بوڑھا دکھائی دیتا ہے‘‘ اس کمنٹ اور معاہدے کی منسوخی سے ایک بار تو الزبتھ اور اس کے خاندان کو بڑا جھٹکا لگا تاہم جلد ہی الزبتھ کو فرانسیس کے تعلقات کی وجہ سے ایک اور موقع مل گیا۔ ایم جی ایم پروڈکشن کمپنی کے پروڈیوسر سیموئل مارکس نے الزبتھ کو 1943ء میں ریلیز ہونے والی فلم Lassie Come Home میں ایک محدود کردار دلوایا، جسے انہوں نے بخوبی نبھایا تو ایم جی ایم نے ان کے ساتھ اگلے 7 برس کا معاہدہ کر لیا۔ ٹیلر کو پہلی بار 1944ء میں ریلیز ہونے والی فلم National Volvet میں مرکزی کردار دیا گیا، جس کے بارے میں خود اداکارہ کا کہنا ہے کہ ابتدائے کیرئیر میں وہ  فلم ان کی زندگی سب سے بہترین فلم تھی۔

اس فلم کے لئے انہوں نے کئی ماہ باقاعدہ گھڑسواری سیکھی۔ National Volvet کے لئے ڈائریکٹر کی طرف سے الزبتھ کے بالوں اور آنکھوں کی رنگت کو تبدیل کرنے کا کہا گیا لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ کرسمس پر ریلیز ہونے والی اس فلم کو شائقین اور ناقدین کی جانب سے قبولیت کی سند عطا ہوئی، جس کے بعد الزبتھ ایک سٹار بن گئیں۔ 15 برس کی عمر میں ایم جی ایم نے شائقین کو الزبتھ کا ایک بالغ چہرہ دکھانے کی ٹھان لی، جس کے لئے ان کے کبھی فوٹو شوٹ کئے گئے تو کبھی متعدد انٹرویوز کروائے گئے۔

18 برس کی عمر میں ٹیلر نے بحیثیت نوجوان اداکارہ اپنی پہلی فلم Conspirator میں اداکاری کے جوہر دکھائے، یہ فلم بھی شائقین کے دلوں پر کئی اچھے نقوش چھوڑ گئی۔ ایم جی ایم کے ساتھ معاہدہ مکمل ہونے کے بعد الزبتھ نے سینچری فوکس پروڈکشن کمپنی کو جوائن کیا، جنہوں نے1963ء میں فلم قلوپطرہ بنائی، اس فلم کے لئے الزبتھ کو نہ صرف پہلی بار ایک ملین ڈالر دیئے گئے بلکہ فلم کے منافع پر 10 فیصد حصہ بھی دیا گیا، یہ فلم 31 ملین ڈالر میں بنی جبکہ کمائی دوگنا ہوئی، امریکی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں اُس وقت یہ فلم سب سے زیادہ کمائی کرنے والی قرار پائی۔ اس کے بعد کامیابیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا، جو الزبتھ کی موت تک جاری رہا۔

ٹیلر شوبز کے ساتھ سماجی خدمت پر بھی خصوصی توجہ دیتی تھیں، وہ پہلی خاتون سٹار تھیں، جنہوں نے ایڈز اور اس سے متاثرہ افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھائی، 1985ء میں انہوں نے نیشنل ایڈز ریسرچ فاؤنڈیشن کا سنگ بنیاد رکھا، جس کا مقصد نہ صرف بیماری کا علاج ڈھونڈنا تھا بلکہ اس کے بارے میں لوگوں میں آگاہی بھی پیدا کرنا تھا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی بلکہ مرنے کے بعد بھی کام جاری رکھا، جس کا ثبوت ان کی وہ وصیت ہے جس کے مطابق انہوں نے اپنی رائیلٹی کا 25 فیصد فاؤنڈیشن کے لئے مختص کر دیا۔ ایڈز کے حوالے سے وہ اتنا سنجیدہ تھیں کہ اس کے لئے کئی بار وہ حکومت وقت کو سرعام نشانہ بنا چکی تھیں کہ وہ اس بیماری کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ انہوں نے فاؤنڈیشن کے بعد الزبتھ ٹیلر میڈیکل سنٹر برائے ایڈز ٹیسٹ بھی بنایا۔

فنی و سماجی خدمات کے بعد اگر ہم اداکارہ کی نجی زندگی کی بات کریں تو یہاں بھی انہوں نے اپنی انفرادیت کو کچھ یوں قائم رکھا کہ اداکارہ نے 8 شادیاں کیں۔ ان کی سب سے پہلی شادی 6 مئی 1950ء میں امریکی بزنس مین کانرڈ میکی ہلٹن، 1952ء میں برطانوی اداکار مائیکل والڈنگ، 1957ء میں فلم پروڈیوسر مائیک ٹوڈ، 1959ء میں امریکی گلوکار ای ڈی فشر، 1964ء میں معروف اداکار رچرڈ برٹن ( ان سے دو بار شادی کی) 1976ء میں امریکی سینٹر جان ورنر  اور  1991ء میں بلڈر لاری فروٹسکی سے ہوئی۔

7دہائیوں پر مشتمل کیرئیر کے نشیب و فراز

عالمی شہرت یافتہ اداکارہ الزبتھ ٹیلر کا کیرئیر  تقریباً 7 دہائیوں پر مشتمل ہے اور یہ کیرئیر جتنا طویل تھا اتنا ہی شاندار بھی تھا۔ عظیم اداکارہ نے صرف 10برس کی عمر میں شوبز کی دنیا میں قدم رکھا اور پھر یہ قدم مرتے دم تک کبھی لڑکھڑائے نہیں۔ ادکارہ کی بحیثیت چائلڈ سٹار شوبز کی دنیا میں انٹری ایک فیچر فلم There’s One Born Every Minut سے ہوئی، ایک گھنٹے پر مشتمل یہ ایک مذاحیہ فلم تھی۔

اس فلم کی کامیابی کے باعث اگلے برس یعنی 1943ء میں انہوں نے ایک کے بجائے دو فلموں میں کام کرکے ناقدین کو بھی تعریف پر مجبور کر دیا۔ یوں یہ سلسلہ چل نکلا اور اداکارہ نے فلم انڈسٹری کو A Place in the Sun  (1951)، Giant  (1956)، BUtterfield 8 (1960)، Cat on a Hot Tin Roof  (1958)، Suddenly, Last Summer  (1959)،Cleopatra (1963)، Who’s Afraid of Virginia Woolf? (1966) اور The Blue Bird (1976)  جیسی متعدد سپرہٹ فلمیںدیں، ٹیلر کی فلموں کی مجموعی تعداد 56 بنتی ہے۔

فلموں کے ساتھ شوبز کی دنیا کے اس چمکتے ستارے نے Elizabeth Taylor in London، General Hospital، Murphy Brown اور These Old Broads سمیت 19 ٹیلی ویژن پروگرامز یا ڈراموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اداکارہ کو شاندار پرفارمنس پر اکیڈمی سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔ 1961ء میں انہیں فلم BUtterfield 8 اور 1967ء میں فلم Who’s Afraid of Virginia Woolf? میں بہترین اداکاری پر اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا، جبکہ انہیں تین بار اس ایوارڈ کے لئے نامزد بھی کیا گیا۔

اسی طرح انسانی خدمت کے اعتراف میں بھی انہیں Jean Hersholt Humanitarian Academy ایوارڈ مل چکا ہے۔ ہالی وڈ کی قلو پطرہ 2بار بافٹا، چار بار گلولڈن گلوب سمیت بمبی، گولڈن ایپل، الائنس آف وومن فلم جرنلسٹس، امریکن اکیڈمی آف اچیوومنٹس اور گلیڈ میڈیا جیسے متعدد ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔ فنی اور سماجی خدمات پر انہیں سلطنت برطانیہ کی طرف سے سویلین کے لئے سب سے بڑے سرکاری اعزاز (Most Excellent Order of the British Empire) سے بھی نوازا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔